بجلی کی وزارت

‘’ترقی یافتہ ممالک کو پہلے  کاربن  کے اخراج کو کم کرنا چاہئے، یہ عالمی جنوب کی آواز ہے’’: توانائی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر


 اصل توجہ  کاربن کے اخراج کو کم کرنے پر ہونا چاہیے، ایندھن کے انتخاب پر نہیں۔ کوئلے پر بحث ایک خطرناک موڑ ہے: بجلی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر آر کے سنگھ

’’دنیا کو افریقہ میں 733 ملین لوگوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے جو بجلی تک رسائی نہیں رکھتے‘‘

 بجلی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر نے جاپانی صنعت سے ہندوستان کے پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات ہندوستان سے پورا  کرنے کی اپیل کی

Posted On: 30 NOV 2023 9:39PM by PIB Delhi

 بجلی  اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر جناب آر کے سنگھ نے کہا ہے کہ سی او پی 28  میں ہونے والی بات چیت کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بارے میں ہونی چاہیے، اور یہ کہ ترقی یافتہ ممالک کو پہلے کاربن کے اخراج کو کم کرنا چاہیے۔ ‘‘ترقی یافتہ ممالک دوسرے ممالک کے مقابلے میں تیز رفتاری سے اخراج کر رہے ہیں۔ کل وراثتی کاربن ڈائی آکسائیڈ بوجھ کا 80فیصد ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے دیا جاتا ہے، جن کی آبادی عالمی آبادی کا ایک تہائی ہے۔ دوسری طرف، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بوجھ میں ہندوستان کا حصہ صرف 3 فیصد ہے، حالانکہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا 17 فیصد ہے۔ ہمارا فی کس اخراج 2.19 ٹن سالانہ یا عالمی اوسط کا ایک تہائی ہے، جبکہ عالمی فی کس اوسط 6.8 ٹن سالانہ ہے۔ لہذا، یہ ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری بنتی  ہے جن کا فی کس اخراج عالمی اوسط سے 2 - 3 گنا ہے، کہ وہ  پہلے کاربن کے اخراج کو کم کریں۔ سی او پی پر بحث اسی کے بارے میں ہونی چاہیے۔ یہ عالمی جنوب کی آواز ہے’’۔ وزیر موصوف 30 نومبر 2023 کو نئی دہلی میں انڈیا ٹوڈے گروپ کے زیر اہتمام منعقدہ انڈو جاپان کانکلیو 2023 کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001BHK8.jpg

’’ یہ مناسب ترین وقت ہے جب پوری دنیا  کو  کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے  بنیادی  مسئلے کا حل  نکالنا چاہئے‘‘

جناب سنگھ نے کہا کہ توجہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے پر ہونی چاہیے، نہ کہ ایندھن کے انتخاب پر۔ ‘‘پوری جنگ جو دنیا لڑ رہی ہے وہ  کاربن کے اخراج کو کم کرنے پر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا متحد ہو کر اس مرکزی مسئلے کو حل  کرنے کے لئے اقدام  کرے – یعنی یہ کہ کاربن کااخراج  کہا سے آتا ہے۔ یہ سوال  کہ آیا اخراج پٹرولیم، گیس یا کوئلے سے آتا ہے، کوئی اہمیت نہیں رکھتا؛ سوال یہ ہے کہ  کون  کتنا اخراج کر رہا ہے، یہی چیز عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے’’۔

’’کوئلے پر بحث ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے اخراج سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک خطرناک موڑ ہے‘‘

وزیر موصوف نے کہا کہ کوئلے پر بحث ایک خطرناک موڑ ہے جسے کچھ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے اخراج سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنایا ہے۔ ‘‘ہندوستان کی کوشش ہمیشہ اس بات پر توجہ مرکوز کرنے پر رہی ہے کہ اس بحث کو کس چیز پر مرکوز ہونا  چاہئے - یعنی اخراج میں کمی پر، اور جو سب سے زیادہ شرح سے اخراج کر رہے ہیں انہیں پہلے اخراج کو کم کرنا چاہیے۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنا چاہتے ہیں تو کاربن کی دستیاب جگہ صرف 250 گیگاٹن کاربن رہ جائے گی۔ دنیا ہر سال 53 گیگاٹن کی شرح سے اخراج کر رہی ہے جس سے ہمارے حصہ میں صرف 5 سال  آتے ہیں۔ اگر ہمیں اس حد سے نیچے رہنے کی ضرورت ہے تو عالمی شہری کو سالانہ 6 ٹن سے زیادہ اخراج نہیں کرنا چاہیے۔ جب کہ ہم ہندوستان میں صرف 2.19 اخراج کر رہے ہیں۔ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں فی کس اخراج 12-20 ٹن سالانہ ہے۔ فی کس اخراج کی مقدار کو جلد از جلد 6 ٹن سالانہ تک لانے کی ضرورت ہے اور ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے لیے اپنے یہاں گنجائش پیدا کرنی ہوگی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002VSYL.jpg

’’ہندوستان پر  کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا، ہندوستان کی توانائی کی منتقلی کی شرح دنیا میں سب سے تیز ہے‘‘

 بجلی  اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر نے کہا کہ اخراج کو کم کرنے کے لیے ہندوستان پر کوئی دباؤ نہیں  آنا چاہئے، کیونکہ ہندوستان کی توانائی کی منتقلی کی شرح دنیا میں سب سے تیز ہے۔ ہندوستان نے سی او پی میں کئے گئے اپنے وعدوں  کے ہدف کو پہلے سے ہی حاصل کر لیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان واحد ملک ہے جس نے ایسا کیا ہے۔‘‘ہم نے 2019 میں اخراج کی شدت میں کمی کے لیے اپنے عزم  کے ہدف کو، گیارہ سال پہلے ہی حاصل کیا، اور ہم 2030 کے لیے مقرر کردہ تازہ ترین ہدف کو بھی حاصل کریں گے۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم 2030 تک غیر حجری ایندھن سے اپنی صلاحیت کا 40 فیصد حاصل کریں گے، جب کہ ہم نے اس ہدف کو 2021 میں ہی حاصل کرلیا۔ مزید، ہم نے کارگزاری، کامیابی، تجارت جیسے پروگرام شروع کیے ہیں، جس میں ہم نے توانائی کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے صنعت کے لیے اہداف مقرر کیے ہیں۔’’

’’دنیا افریقہ کے 733 ملین لوگوں کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے جو بجلی تک رسائی نہیں رکھتے‘‘

وزیر موصوف  نے نشاندہی کی کہ افریقہ میں ہمارے پاس 733 ملین لوگ ہیں جن کو بجلی تک رسائی نہیں ہے، اور دنیا ان کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے اور اس کے بجائے توانائی کی منتقلی کی بات کر رہی ہے۔ ‘‘ہم رسائی کے بغیر منتقلی نہیں کر سکتے ہیں اور ہم فنڈز کے بغیر رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں.’’

’’حجری ایندھن کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ہم ذخیرہ کرنے کے قابل نہ ہو جائیں‘‘

وزیر موصوف  نے کہا کہ چوبیس گھنٹے قابل تجدید توانائی کے لیے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اسے قابل عمل ہونا چاہیے۔ "ترقی یافتہ ممالک جو توانائی کی منتقلی کے بارے میں بات کر رہے ہیں انہوں نے ذخیرہ کاری  مینوفیکچرنگ کی صلاحیت میں سرمایہ کاری نہیں کی ہے، جو کہ دنیا میں صرف 24 گیگا واٹ ہے۔ ہمیں چوبیس گھنٹے قابل تجدید توانائی کے لیے ذخیرہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم حجری  ایندھن کو اس وقت تک ختم نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمارے پاس جوہری توانائی  نہ ہو یا جب تک ذخیرہ قابل عمل نہ ہو جائے۔ ہم اس وقت تک توانائی کی منتقلی نہیں کر سکتے جب تک کہ اسٹوریج قابل عمل نہ ہو۔

جناب  سنگھ نے کہا کہ ہندوستان حجم میں اضافہ کرنے جا رہا ہے تاکہ ذخیرہ کرنے کی قیمت کم ہو جائے۔ "ہمارے پاس ا سٹوریج کے لیے ایک پی ایل آئی  تھا، ہم ذخیرہ کاری  مینوفیکچرنگ کی صلاحیتیں ترتیب دے رہے ہیں اور خریداری کی صلاحیتوں کے لیے  بولیاں بھی لگا رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم اور دنیا  بھر کے ملک حجم میں اضافہ کریں گے، قیمتیں نیچے آئیں گی۔

وزیر  موصوف نے بتایا کہ ذخیرہ کاری صاف توانائی کی شراکت میں شامل اشیاء میں سے ایک ہے۔ ‘‘ہم اسٹوریج مینوفیکچرنگ کی صلاحیت قائم کرنے کے لیے پی ایل آئی کے ساتھ آ رہے ہیں۔ سپلائی چین کے مسائل ہمارے لیے اہم ہیں۔ ابھی، 88فیصد اسٹوریج چین میں تیار کیا جاتا ہے، 90فیصد لیتھیم پروسیسنگ چین میں واقع ہے. انہوں نے دنیا کے تقریباً 80 فیصد لیتھیم کے ذخائر کو  باہم مربوط  کر دیا ہے۔ ہم لیتھیم کے ذخائر کو  باہم مربوط  کے لیے شراکت دار ممالک جیسے کیو یو اے ڈی ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ لیتھیم، کوبالٹ وغیرہ کے لیے سپلائی چین کو  پیچیدہ  کر دیا گیا ہے۔ اس لیے میک ان انڈیا اہم ہے’’۔

’’ہندوستان ہمیشہ ایک قابل اعتماد پارٹنر رہے گا جہاں سے آپ اپنی ضروریات حاصل کر سکتے ہیں‘‘

وزیر موصوف نے یقین ظاہر کیا کہ ہندوستان سولر ماڈیول بھی برآمد کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ‘‘ہم نے پہلے ہی امریکہ کو موثر شمسی ماڈیولز برآمد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ہمارے پاس جی ڈبلیو  150 سولر سیلز اور ماڈیولز بنانے کی صلاحیت ہونے جا رہی ہے، جس میں سے صرف-50  40 جی ڈبلیو ہمیں درکار ہوں گے، باقی کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ہم ہمیشہ ایک قابل اعتماد پارٹنر رہیں گے جہاں سے آپ اپنی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ہم الیکٹرولائزرز کے لیے مینوفیکچرنگ کی صلاحیت قائم کرنے جا رہے ہیں۔

’’جاپان ایک قریبی اور قابل قدر شراکت دار ہے، ہندوستان میں جاپان کی سرمایہ کاری بڑھے گی‘‘

وزیر  موصوف نے جاپانی صنعت کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے اور اپنی ضروریات ہندوستان سے حاصل کرنے کی دعوت دی۔‘‘جاپان ایک قریبی اور قابل قدر شراکت دار ہے۔ ہمارے اسٹریٹجک مفادات بالکل مشترکہ ہیں۔ ہمارا ایک ہی عالمی نظریہ ہے۔ ہمارے لیے جاپان ایک قابل قدر دوست اور بھائی ہے۔ ہم دونوں کو ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم  ساتھ ساتھ ہیں. جاپانی ہمیشہ ہمارے ساتھ بہت دوستانہ رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ہے، ان کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور جہاں تک سورسنگ کا معاملہ ہے، میں توقع کرتا ہوں کہ جاپان اپنی ضروریات ہم سے پورا کرے گا نہ کہ دوسرے ممالک سے۔ دوسرے ممالک جغرافیائی طور پر قریب ہوسکتے ہیں، لیکن جہاں تک مفادات کا تعلق ہے ،ہم قریب ہیں’’۔

وزیر موصوف نے کہا کہ ہندوستان کی بجلی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس مانگ کو پورا کرنے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اگست، ستمبر اور اکتوبر 2023 میں ہماری مانگ میں 20 فیصد اضافہ ہوا، جو ظاہر کرتا ہے کہ ہماری معیشت بڑھ رہی ہے۔ ہم اس مطالبے کو پورا کریں گے۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے ہماری ترقی ٹھوکر کھانےیا لڑکھڑانے والی نہیں ہے۔ اس کے باوجود، 2030 تک، ہمارے پاس اپنی صلاحیت کا 65 فیصد قابل تجدید ذرائع سے آئے گا اور ہم اب بھی دنیا میں سب سے کم فی کس اخراج کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0036FS0.jpg

’’قابل تجدید ذرائع میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری جاپانی کمپنیوں کے لیے  آگے آنے اور مسابقت میں حصہ  لینے کا ایک بہترین موقع ہے۔‘‘

جناب سنگھ نے کہا کہ قابل تجدید ذرائع میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری جاپانی کمپنیوں کے لیے آگے آنے اور مسابقت میں حصہ  لینے کا ایک بہترین موقع ہے۔ "ہم قابل تجدید ذرائع میں عالمی رہنما بن چکے ہیں۔ ہماری کل غیر حجری  ایندھن کی صلاحیت  186 گیگا واٹ  ہے، اور ہمارے پاس 99  گیگا واٹ  زیر تعمیر ہے۔ چین کو چھوڑ کر ، ہم دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی قابل تجدید صلاحیت کےحامل  ملک ہیں۔ ہم قابل تجدید ذرائع کے لیے سرمایہ کاری کی پسندیدہ منزل کے طور پر ابھرے ہیں۔ قابل تجدید ذرائع کے لیے ہماری تمام بولیوں کا سخت مقابلہ کیا جاتا ہے۔ میں اسے جاپانی کمپنیوں کے لیے آگے آنے اور مقابلہ کرنے کا ایک بہترین موقع سمجھتا ہوں۔ بلومبرگ نے ہمیں قابل تجدید ذرائع میں سرمایہ کاری کے لیے سب سے پرکشش مارکیٹ قرار دیا۔

وزیر موصوف نے کہا کہ گرین ہائیڈروجن اور گرین امونیا کے حصول کے لیے ہندوستان جاپان کے لیے ترجیحی منزل ہو سکتا ہے۔ ‘‘ہم ایک پی ایل آئی لے کر آئے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے پاس بھارت میں تقریباً 48,000 میگاواٹ مینوفیکچرنگ کی صلاحیت ہے، پولی سیلیکون سے لے کر ماڈیولز تک۔سبزہائیڈروجن پر، ہم دنیا کے سب سے بڑے مینوفیکچررز میں سے ایک کے طور پر ابھرے ہیں۔ ہمارے پاس مختلف مراحل میں 7.8 ملین ٹن  سبز  ہائیڈروجن کی گنجائش ہے۔ ہماری قیمتیں سب سے زیادہ مسابقتی ہوں گی، شمسی صلاحیت کے 1 میگاواٹ کے قیام پر تقریباً 6 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی، جو کہ دنیا میں سب سے سستا ہے۔ ہمارے پاس ایک بہت بڑا اور مضبوط گرڈ ہے جو 116,000 میگاواٹ بجلی کو ایک کونے سے ملک کے کسی دوسرے کونے میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جاپان بہت زیادہ سبز ہائیڈروجن اور گرین امونیاکی تلاش میں ہوگا ، ہمیں اس کے لئے  ترجیحی ملک ہونا چاہیے کیونکہ وہ کہیں اور سستا نہیں ملے گا۔ ہمارے ڈویلپرز پوری دنیا میں آرڈرز  حاصل کر  رہے ہیں۔  سبز ائیڈروجن اور گرین امونیا میں تجارت کے لیے  یو این ایف سی سی سی کی شق 6.2 کے تحت معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ اس کو حتمی شکل دینے کے بعد، وہ ممالک جو ہم سےسبز ہائیڈروجن یا گرین امونیا خریدیں گے، انہیں کاربن کریڈٹ کا ایک حصہ ملے گا، اس سے جاپان کو کاربن کریڈٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہماری معیشت بڑھ رہی ہے، ہماری مانگ بڑھ رہی ہے، ہماری معیشت اگلی دو دہائیوں تک 7 فیصد کے قریب تک  ترقی کرتی رہے گی۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے اور جو ماڈیول تیار کیے جا رہے ہیں وہ 24فیصد یا اس سے زیادہ کارکردگی کے ساتھ سب سے زیادہ جدید ہوں گے۔

’’India-Japan@2030’’ کے موضوع پر ایک دن تک جاری رہنے والے اس کانکلیو میں دونوں ممالک کے سیاسی اور اقتصادی میدانوں سے تعلق رکھنے والے سینئر لیڈروں کے ساتھ ساتھ صنعت کے ارکان، خاص طور پر جاپانی کمپنیاں ، جو ہندوستان میں اپنا وجوود رکھتی ہیں ،اس پروگرام میں شرکت کریں گی۔ اس کانکلیو میں  دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات کا جائزہ  لیا جائے گا  اور مینوفیکچرنگ اور مالیاتی ٹکنالوجی سے لے کر سبز  ہائیڈروجن اور جیو پولیٹکس تک مختلف شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے کے حوالے سے آگے کی راہ پر غور  کیا جائے گا۔

انڈیا ٹوڈے میگزین کے ایڈیٹوریل ڈائرکٹر (پبلشنگ)  جناب  راج چنگاپا اور انڈیا ٹوڈے کے ڈپٹی ایڈیٹر جناب  انلیش ایس مہاجن افتتاحی سیشن میں وزیر موصوف کے ساتھ بات چیت میں شامل ہوئے۔

افتتاحی اجلاس یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004VDKM.jpg

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005MYTI.jpg

*************

ش ح۔ س ب۔ رض

U. No.1627



(Release ID: 1981448) Visitor Counter : 121


Read this release in: Hindi , English