وزارات ثقافت

آئی جی این سی اے میں کتابوں کے میپنگ کا آغاز کیا گیا


’’ہندوستان، ثقافت کے متحرک اور تابناک امتزاج کے طور پر دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے‘‘: جناب ہیزی کیل دلامینی، مشیر یونیسکو

Posted On: 23 NOV 2023 9:35PM by PIB Delhi

اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس (آئی جی این سی اے)، کلانیدھی ڈویژن نے آج سموت آڈیٹوریم میں’’میپنگ آف دی آرکائیوز ان انڈیا‘‘  نامی کتاب  کی رونمائی کی اور بحث کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر ’آگم- تنتر- منتر- ینتر، کھنڈ- 3، بھاگ- 1-5‘کا وضاحتی ای-کیٹلاگ  کابھی آغاز کیا گیا۔ یہ کتاب پروفیسر رمیش چندر گوڑ اور وسمے باسو کی تصنیف ہے اور اسے آئی جی این سی اے اور یو این ای ایس سی او نے شائع کیا ہے۔ کتاب کے اجراء کے اجلاس کی صدارت آئی جی این سی اے ٹرسٹ کے صدر جناب رام بہادر رائے نے کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی جناب ستیہ نند مشرا، چیف انفارمیشن کمشنر آف انڈیا اور مواصلات اور اطلاعات برائے جنوبی ایشیا یونیسکو ،نئی دہلی آفس کے مشیر جناب ہیزی کیل دلامینی موجود تھے۔ تقریب کے معزز مقررین میں ڈاکٹر سچیدانند جوشی، ممبر سکریٹری، آئی جی این سی اے، پروفیسر ڈاکٹر رمیش چندر گوڑ، ڈائریکٹر(ایل اینڈ آئی) اور کالاندھی ڈویژن، آئی جی این سی اے اور ڈاکٹر سنجے گرگ، ڈپٹی ڈائریکٹر، نیشنل آرکائیوز آف انڈیا  شامل تھے۔

جناب  ہیزی کیل دلامینی نے اپنی تقریر میں کہا کہ یونیسکو کے لیے آئی جی این سی اےمیں آنا ہمیشہ خوشی کی بات  رہی ہے کیونکہ یو این ای ایس سی او اور آئی جی این سی اے، دونوں اپنی اجتماعی کوششوں میں شراکت دار ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ زمانہ قدیم سے آرکائیوز نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور تاریخ، علم کی ثقافت کے زیر اثر ہے۔ جناب  ہیزی کیل دلامینی نے تبصرہ کیا ’’ہندوستان، ثقافت کے ایک متحرک اور تابناک امتزاج کے طور پر دنیا کو اپنی جانب  متوجہ کرتا ہے‘‘ ۔ انہوں نے کہا، ’’دنیا ثقافت کے تنوع میں دلچسپی رکھتی ہے اور یہ ملک کے طول و عرض میں موجود ہے اور اسی وجہ سے یونیسکو، ہندوستان میں دلچسپی رکھتا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتامی کلمات کہے  کہ آرکائیوز ،علم کا ذخیرہ ہیں اور ادارہ جاتی اور خصوصی آرکائیونگ پروگرام، یونیسکو کے لیے دلچسپی کا باعث ہے اور یہ ہندوستان میں رائج ہے۔ یہ مسائل کا معقول حل بھی فراہم کرے گا۔

پروفیسر رمیش چندر گوڑ نے موجود معززین کا تہہ دل سے خیرمقدم کیا اور آئی جی این سی اے اور یونیسکو کی کتاب ’میپنگ آف دی آرکائیوز ان انڈیا‘ کی مشترکہ اشاعت پر اور ’آگم- تنتر- منتر- ینتر، کھنڈ- 3، بھاگ- 1-5‘کےوضاحتی ای-کیٹلاگ کی اشاعت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے سامعین کو آگاہ کیا کہ یہ منصوبہ 2018 میں شروع ہوا تھا، تاہم باضابطہ طور پراسے  2019 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کووڈ  کا دور شروع ہوا جس نے کام کا عمل سست کر دیا۔ ادبی سروے کے بعد ملک کے 600 اداروں میں آرکائیوز پائے گئے۔ اس کتاب میں ہندوستان کے آرکائیوز کی 424 ڈائریکٹریاں شامل ہیں۔ کتاب میں موجود آرکائیوز کی مکمل پروفائل موجود ہے۔ کتاب تحفظ، ڈیجیٹائزیشن، اور آرکائیوائزیشن کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی وراثت کے فخر کے احساس کے تناظر میں، وزیر اعظم ہند کے ’پنچ پران‘ کا بھی ذکر کیا اور اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہمیں اپنی وراثت کو ذہن میں رکھنا چاہئے اور یہ ہماری وراثت کو محفوظ کرنے سے ہوگا۔

ڈاکٹر سنجے گرگ نے اپنی تقریر کے دوران اس ملک میں آرکائیوز کی تاریخ پر زور دیا اور کہا کہ آرکائیوز کی نقشہ سازی میں مسلسل اور مستعد کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آرکائیوز کے منتشر طریقہ کار کی بھی وضاحت کی اور مزید کہا کہ کس طرح مذہبی ادارے، تعلیمی اور پرنسلی اسٹیٹس، اسٹیٹ آرکائیوز، کارپوریٹ آرکائیوز منتشر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بینکوں کے اپنے آرکائیوز ہیں، عدالتی آرکائیوز اور کسٹوڈیل آرکائیوز بھی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بہت بڑا ورثہ ہے جسے ہم کھونے کے خطرے سے دوچار ہیں اور یہ کتاب اس ملک کے ورثے اور وراثت کے تحفظ کی ایک شاندار کوشش ہے۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ اس تناظر میں ’’ ایک قوم ایک پورٹل‘‘ فائدہ مند ہوگا۔

ڈاکٹر سچیدانند جوشی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کووڈ کی وجہ سے درپیش رکاوٹوں کے باوجود ان اشاعتوں کے ذریعے اس سے باہر آنے پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کیا اور یہ اس میں شامل لوگوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمارے پاس طلباء اور عام لوگوں میں اس شعبے کے بارے میں بیداری کی کمی ہے اور اس لیے سائنس کو زیادہ سے زیادہ ترقی کرنی چاہیے۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کو ستائش کی جانی چاہئے نیز ان کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ ان کی وجہ سے ہمارے پاس مہابھارت، رامائن اور بھگود گیتا جیسے ادب کے متنی ثبوت موجود ہیں۔

جناب ستیہ نند مشرا نے اپنے خطاب کے دوران زور دے کر کہا کہ آرکائیوز کا تحفظ اور سرپرستی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آرکائیول مواد کا استعمال کرتے ہوئے تاریخ کا مطالعہ ہمارے لیے ماضی کو زندہ کرتا ہے‘‘۔ یہ کتاب ایک مناسب اقدام ہے جو اس شعبے کے لوگوں اور محققین کو صحیح سمت میں لے جاتا ہے۔

جناب  رام بہادر رائے پروگرام کی صدارت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رمیش گوڑ کو مبارکباد دیتے ہوئے انھوں نے  کہا کہ انہوں نے بہت ہی قابل ستائش کام کیا ہے۔ اس کتاب میں بہترین معلومات ہیں۔ اسے پڑھنا چاہیے۔ رام بہادر رائے نے مزید کہا کہ جو لائبریریاں بند ہیں انہیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ کیا عجائب گھروں میں معلومات تک رسائی ممکن ہے؟ لوگ آسانی سے معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جو کام آج ہو رہا ہے وہ پہلے ہی شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ آخر میں اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا ا نھوں نے کہا  کہ شروعات اچھی ہے، اسے تحریک بھی بنایا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔اع    ۔ر ا

 (U.No. 1354)



(Release ID: 1979335) Visitor Counter : 73


Read this release in: English , Hindi