نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

نَوم سنکلپ وکھیان مالا میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 30 SEP 2023 4:41PM by PIB Delhi

قابل احترام جناب مدھو بھائی کلکرنی جی ، جسٹس آدرش گوئل جی سنکلپ فاؤنڈیشن  کے صدر جناب  سنتوش تنیجا جی ، یہاں پر موجود معززین ، میرے پیارے لڑکے اور لڑکیوں سنکلپ فاؤنڈیشن، سابق سول سروس آفیسر کے ذریعہ  منعقدہ اس پروگرام  میں آپ تمام معزز حضرات کے  درمیان آکر میں بہت خوش ہوں۔سنکلپ اپنے عزم پر کھرا اترا ہے۔ سنکلپ کو  میں مبارکباد دیتا ہوں۔

سینئر سماجی کارکن جناب  مادھو ونائک کلکرنی ’مدھو بھائی‘ کو رشی سمان سے نوازنے کا موقع ملا۔ ایسا میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ مدھو بھائی کی زندگی قابل تعظیم اور  قابل تکلید  ہے۔ مکمل طور پر ملک کے نام وقف۔ وہ عظمت اور فضیلت کی مثال ہیں۔

آدرش گوئل جی نے کہا پرچارک  کے بارے میں کہا۔ پرچارک ایک منفرد اہمیت ہے، بے مثال قدر ہے، دنیا میں  اس سے زیادہ طاقتور  باوقار برانڈنگ نہیں  ہوسکتی، پرچارک قوم پرستی اور عالمی فلاح و بہبود کا سب سے زیادہ بااثر  سفیر ہوتا ہے۔ اس  موقع  منعقدہ اور پروگرام  سے میں بہت متاثر ہوا  ہوں، یہ لمحہ مجھے ہمیشہ یاد رہے  گا۔

آج جب ملک اپنی آزادی کے امرت میں ہے، ایسی عظیم شخصیات ہمارے لیے تحریک کا معیار ہیں۔

ان کی موجودگی ہمیں حوصلہ دیتی ہے  اور  ہمیں قوم کی خدمت کے لیے  تحریک ملتی ہے۔

ایسی عظیم شخصیات کا اعزاز بہترین معیار کا اعزاز ہے۔ معاشرہ جس اچھائی پر  قائم ہے، اس کا اعزاز ہے۔

مدھو بھائی کی زندگی سادگی، ایثار اور بہترین اخلاق کی مثال ہے۔ اس انعام کےلئے ہر معیار پر  وہ  اہل ہیں۔ آپ کے ساتھ میں بھی ان کی لمبی اور صحت مند زندگی کے لیے دعا کرتا ہوں تاکہ ہمیں رہنمائی ملتی رہے۔

اس پروگرام کا اہتمام کرنے کے لئے میں سنکلپ فاؤنڈیشن اور سابق سول سروسز آفیسرز ایسوسی ایشن کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے  ’’بھارت کے نوجان:  امیدیں اور مواقع‘‘ کے اہم موضوع پر اپنے خیالات ان لوگوں کےسامنے پیش کرنے کا موقع دیا  جو زیادہ  سرگرم ہیں اور علم والے ہیں۔

آئندہ 25 برسوں میں  جب ملک  2047 میں اپنی آزادی کا صد سالہ جشن منائے گا، یہ مدت  آج کے نوجوانوں کی نئی امنگوں اور انہیں حاصل کرنے کے نئے مواقع سے پُر ہوگی۔

مجھے امرت کال سے بھارت @2047  تک کے سفر کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ بلندیوں پر  پہنچنے کے لئے ہمارے لئے معاون ثابت ہو گا۔ دنیا میں ہمارا جو غلبہ تھا وہ  واپس لوٹے گا۔ ہمارے نوجوان بھارت @  2047 کے  فوجی سپہ سالار ہیں۔

نوجوان جمہوری، حکمرانی اور  ترقی  میں سب سے  اہم  حیثیت رکھتے ہیں۔، نوجوان حکمرانی اور جمہوری اقدار میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ آنے والا وقت آج کے نوجوانوں کا ہوگا۔ آج کا منظر نامہ  جو سوچا نہیں تھا، جس کا تصور نہیں کیا تھا، 1989 میں لوک سبھا کا رکن بننے کا موقع ملا، ملک کی خدمت کرتے ہوئے ملک کے حالات  دیکھے۔  سونے کی چڑیا کہلانا وقت ملک، ہوائی جہاز میں اپنا سونا بھیجا، غیر ملکی  بینکوں میں گروی رکھا تاکہ ہماری معاشی ساکھ برقرار رہے۔ فارن ایکسچنج ریزرو اس وقت  15 سے زیادہ  کا نہیں تھا اور آج دیکھئے۔

اور آج کے اقتدار کے حالات  سمجھئے، ہندوستان  کہاں پہنچ گیا ہے، خوابوں کے پارپہنچ گیا ہے، دنیا ہندوستان کی ترقی کو تسلیم کرتی ہے۔ جی 20 کے کامیاب اور موثر  اہتمام کی پوری دنیا نے تعریف کی اور ملک کا کوئی صوبہ نہیں بچا، کوئی مرکز کے زیر انتظام خطہ  نہیں بچا جہاں پر  جی 20 کی میٹنگیں نہ ہوئی ہوں۔ 58 مقامات اور 200 ملاقاتیں دنیا نے ہندوستان کو دیکھا، دنیا نے ہندوستان کا لوہا مانا، دنیا نے ہندوستان کی ثقافت کو دیکھا، خوش ہوکر اور  متاثر ہوکر دیکھا، میرے سامنے انہوں نے  اپنے خیالات رکھے۔

دیکھئے تو  اقتدار میں کیا ہوا، 23 اگست کو چندریان 3 چاند پر چلاگیا، وہ وہاں  گیا جہاں دنیا کا کوئی بھی  ملک نہیں جا سکا، وہ  چاند کے قطب جنوبی پر اترا۔ ہم چاند کے جنوبی قطب پر اترنے والا پہلا ملک  بن گئےہیں۔

پوچھا جائے گا کہ ترنگا پوائنٹ کہاں ہے - چندریان 2  جہاں گیا وہاں  ہے، شیو شکتی پوائنٹ کہاں ہے، لوگ اندازہ ہورہا ہے  کہ ہمارا اسرو کہاں ہے، کہاں  ہم نے شروعات کی تھی، ہمارا سیٹلائٹ دوسرے ملک سے لانچ ہو گا اور اب ہم  دنیا کے  ترقی یافتہ ملکوں کے سیٹلائٹ لانچ کر رہے ہیں امریکہ سے  لے کر سنگاپور تک کے کام آرہے ہیں۔ تین دن پہلے میں نے اسرو کے چیئرمین سے بات چیت کی تھی مجھے وہ دن یاد  آتاہے جب مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے میں اور میری اہلیہ  کولکتہ کے سائنس سٹی میں گئے تھے۔ دو بجے کے آس پاس چندریان 2 کو لینڈ کرنا تھا۔  میں مدعو کیا تھا پانچ سو لڑکوں اور لڑکیوں کو ۔ اس وقت ہماری سانسیں رکی ہوئی تھیں۔ چندریان تو  وہاں پہنچ گیا لیکن چند میٹر کے اندر وہ سافٹ  لینڈنگ نہ کر پایااور وہاں سناٹا  چھا گیا۔ جب میں نے لڑکوں اور لڑکیوں کو بتایا کہ ہم 96 فیصد کامیاب رہے ہیں۔  تو  سبھی جوش و جذبے سے پُر ہو گئے۔

اور اس سے زیادہ دیکھئے  ہندوستان کے وزیر اعظم نے  اسرو کے چیئرمین سے کیا کہا، انہوں نے انہیں مبارکباد دی کہ ہم اگلی بار کامیاب ہوں گے اس بار بھی ہماری کامیابی شاندار رہی ہے۔ یہ ہماری تہذیبی اخلاقیات کا عکاس ہے، ہم کبھی بیک فٹ پر نہیں ہوتے۔ ہر قدم کامیابی کی سیڑھی ہے۔

ہندوستانی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوگیا ہے اور کیا شاندار ہے ۔ کووڈ کے باوجود نہ صرف عمارت 30 ماہ کے اندر تعمیر ہوئی ہے بلکہ اندرونی سجاوٹ اور ٹیکنولوجیک انٹی گریشن  بھی ہوا ہے۔ بھارت منڈپم دنیا کے 10 کنونشن سینٹروں میں سے ایک ہے۔ دنیا کا ہر بڑا لیڈر حیران رہ گیا، اور ایک مہینے میں بھارت منڈپم سے زیادہ یشو بھومی کا افتتاح ہوا ہے، کہنے کا مطلب ہے کہ ہندوستان ترقی کررہا ہے  ہندوستان جتنی ترقی اب کررہا ہے اتنی پہلے کبھی نہیں کی  تھی، ہندوستان کی  عروج نہ رکنے والا ہے، دنیا اس بات کو مان چکی ہے۔

سال2030 تک ہندوستان میں کام کاجی طبقے کی آبادی ایک بلین  کےقریب ہوگی ، اتنا بڑا سرمایہ دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس دستیاب نہیں ہے۔ ہمارا یہ آبادیاتی فائدہ ہماری طاقت بنے گا اور  ہندوستان  ہماری  بہترین توقعات کے مطابق  عروج حاصل کےر گا اور  دنیا ہماری حیثیت کو تسلیم کرے گی۔ دنیا پر نظر ڈالئے کونسا ملک کہہ سکتا ہے کہ اس کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب ہے، ثقافت ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا۔

ہمارے  ثقافتی نظریئے میں علم کا ذخیرہ  ہے، چاہے وہ وید ہو یا اپنشد یا  اور کوئی  موضوع لے لیجئے، ایسا  علم ملے گا  جس سے دنیا  حیران ہوجائے گی۔ 5000 سال کی ثقافت  والا  نوجوان ملک دنیا میں ڈنکا بجائے گا۔ ہندوستان کی ترقی کے معنی ہیں، ہندوستان کی ترقی کا مطلب صرف ہندوستان کی ترقی نہیں ہے، یہ دنیا کی ترقی ہے۔ ہم نے  جی 20 کو کیا  اصول دیا؟ ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل، یہ ہمارے واسودھیو کٹمبکم کی علامت ہے۔

جب دنیا کووڈ کی صورتحال سے نبردآزما تھی تو  140 کروڑ کا ملک بھی پریشان تھا۔ اس وقت بھی ہندوستان نے 100 سے زیادہ ممالک کو کووڈ ویکسین فراہم کرکے مدد کی تھی۔ یہ ہماری ثقافت ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے اور  دوسرے کی مدد کرکے ایک  مثال قائم کی۔ ملک میں بھی امیر اور غریب سب نے ایک دوسرے کی مدد کی۔ ہماری وراثت کا تو مقابلہ کسی  ملک میں  ہے ہی نہیں، سنکلپ فاؤنڈیشن اس  بڑی  مہم  میں تعاون کرررہا  ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ میں تنیجہ جی سے کہہ رہا تھا، شروعات میں جو  سوچا تھا وہ  آج  زمینی  حقیقت ہے۔ میں کہنا چاہوں گا کہ وہ مبارکباد کے  مستحق ہیں۔

موضوع پر نظر ڈالیں تو جتنا کچھ آج کل ہو رہا ہے اس کا براہ راست اثر آج کے نوجوانوں پر پڑرہا ہے۔ یہ ان کی امنگوں کا آئینہ دار ہے اور انہیں ان کے لئےمواقع فراہم کراتا ہے۔ میں آگے کچھ کہوں، آج صبح مجھے بڑی تکلیف ہوئی، ہم نے خواتین کے  ریزرویشن بل کو قانون بنا یا۔ پوری پارلیمنٹ متفق تھی۔ جوش اور  ولولے  کا ماحول تھا۔ اس دن  راجیہ سبھا میں 17 خاتون ارکان  پارلیمنٹ نے  پریزائیڈنگ آفیسر کے طور پر کام کیا۔ آج میں نے دیکھا، راجیہ سبھا کے سینئر رکن پارلیمنٹ، جو مرکز میں وزیر رہ چکے ہیں، اور جنہوں بیرون ملک  میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ   کیا کہتے ہیں؟

’’ ایسے قانون کا کیا فائدہ ہے، جس کو  کئی سالوں تک لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ یقیناً 2029 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے  تو بالکل نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا  ’’یہ  قانون ایک پریشان کرنے  والا  مغالطہ ہے، بالکل ایسا ہی جس طرح پانی کے کٹورے میں چاند کا عکس اور آسمان میں پائی۔‘‘ کتنی مسخ شدہ سوچ ہے، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس تکلیف کا اظہار کروں۔ آج درخت لگائیں گے تو کیا وہ آج ہی پھل دے گا؟  آج کسی  انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیں گے  تو کیا آج ہی ڈگری مل جائے گی؟ میں آپ سب کے سامنے  کہنا چاہتا ہوں کہ یہ انسانیت کے  خلاف  ایک برا کام  ہے جہاں ایک باخبر ذہن دوسرے کی کمزوری کو اپنے فائدے میں بدلنا چاہتا ہے۔

عوام کی جہالت کو سیاسی مساوات میں بدلنا شرمناک ہے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ آج کے نوجوانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ہو گا، آج کا نوجوان ذہین ہے، معلومات تک آسان رسائی ہے، سوشل میڈیا کے مؤثر پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ میں یہاں دیکھ رہا تھا کہ جب میں اس پروگرام میں آؤں گا تو کتنا مثبت ماحول ہوگا، روشن ہندوستان کی تصویر ہمارے سامنے ہوگی، ترقی کا راستہ ہمیں نظر آرہا ہے۔ لوگوں کی لاعلمی سے سیاسی برابری کرنا خطرناک ہے۔ ایسا کرنے والے جمہوریت کے دوست نہیں ہیں۔ وہ جمہوری اقدار پر یقین نہیں رکھتے۔

آج ہمارے سامنے کیا ہے؟ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومتی اقدامات اور مثبت پالیسیوں کی وجہ سے ایک ایسا ایکو سسٹم تیار ہوا  ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں آج ہمارے پاس ایک ایکو سسٹم ہے جو نوجوانوں کو اپنی توانائی اور ہنر کو پوری طرح سے اُجاگر کرنے، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے، اپنے خوابوں اور خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔ بدعنوانی برابری کے مواقع کو تباہ کر دیتی ہے۔ بدعنوانی سب سے پہلے کس کو متاثر کرتی ہے؟ اس  کو کرتی ہے جو باصلاحیت ہے، اس   کو کرتی ہے جو  حب الوطنی سے سرشار ہے، اس کو کرتی ہے جو  صحیح راستے پر چلتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اقتدار کی راہداریوں کو اقتدار  کے دلالوں سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ پاور کوریڈورز کو ان مذموم عناصر سے مکمل طور پر صاف کر دیا گیا ہے، جنہوں نے فیصلہ سازی کا قانونی  دائروں سے باہر  فائدہ اٹھایا۔ بدعنوانی کے لئے آج کوئی  جگہ نہیں ہے۔ شفافیت اور  جوابدہی حکمرانی کے  نئے معیارات ہیں۔ شفافیت اور جوابدہی ہمیں چاروں  طرف  نظر آتی ہے ۔ کوئی کچھ بھی کہے، آج اس حکومت پر ایک بھی الزام نہیں ہے۔

آج حکومت کم ہے زیادہ حکمرانی زیادہ  ہے۔ مکمل شفافیت اور  جوابدہی  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آج انفراسٹرکچر کی ترقی دیکھ رہا ہے جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایسا ماحول ہمارے نوجوانوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ وہ اپنی توانائی کو صحیح سمت میں لگا سکتے ہیں۔ ہمارے دور میں چھوٹے موٹے کام کرنا پہاڑ کی طرح مشکل تھا۔ لائبریری کے لیے 6000 روپے کا قرض لینا مشکل تھا۔ آج کی دنیا کچھ بھی نہیں ۔ نوجوان کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں، حکومتی نظام مددگار ہے، معاشرے کے اعلیٰ مقام پر قائم افراد بھی شریک ہونے جا رہے ہیں۔

کچھ چیلنجز آرہے ہیں۔ کہتے ہیں نہ  کہ سوتے ہوئے کو جگا سکتے ہیں لیکن جو جاگتے ہوئے سو رہا ہے اس  کو جگانا مشکل ہے۔ ہمیں ایسےلوگوں  سےچیلنجز کا سامنا  پڑ رہا ہے جو یہ سب جانتے ہیں، اس لئے یہ  بہت خطرناک ہے۔ ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، اور ہمارے نوجوان اس کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔ ہماری آئینی اداروں کو داغدار کرنے،ان کے مقام کو کم کرنے اور  ان کی توہین  کرنے کے لیے ملک مخالف کہانیاں  پھیلائی جاتی ہیں۔  ملک دشمن   بیانیہ پھیلایا جارہا ہے۔ دیکھئے دماغ کتنا  مسخ ہو گا، ملک کی ترقی کے لئے ہاضمہ کتنا کمزور  ہو گا جو ہمارے آئینی اداروں کی امیج خراب کرنے  کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

میں نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اسے بے اثر بنائیں۔ آپ  میں صلاحیت ہے، دانش مندی ہے اور توانای ہے کہ  ایسے منفی رجحانات کو ابتدا میں ہی ختم کردیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، جو ماحول بنا ہے اس کا نتیجہ زمین پر ہے۔ 10 برسوں میں ہندوستان میں اسٹارٹ اپس کی تعداد میں 225 گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بذات خود اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نوجوانوں کے لیے کتنے مواقع ہیں۔ کوئی ملک ہمارا مقابلہ نہیں کر پا رہ اہے۔ حالیہ دنوں میں آپ نے 100 سے زیادہ یونیکارن یکھی ہیں۔ اس سارے معاملے میں نوجوانوں کا بہت بڑا رول ہے۔

آج ہندوستان اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس مواقع ہیں اور نوجوان اپنی خواہشات کو پورا کرسکتے ہیں۔ آج  کے دن دنیا کے کسی بھی کونے میں دیکھئے، نوجوانوں کو جو مواقع یہاں ملتے ہیں، اپنی خواہشات  اور خوابوں کو پور اکرنے، اختراعی خیالات کو عملی شکل دینے کے  جو مواقع ملتے ہیں، وہ دنیا میں کہیں اور نہیں ملتے۔ آج ہندوستان کے نوجوان نوکریاں نہیں لے رہے ہیں بلکہ دے رہے ہیں۔ اور صحیح طریقے سے دے رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپس کے بارے میں دیکھو، چھوٹے شہروں میں زیادہ ہیں، خواتین کی شرکت زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ سماجی، معاشی، ثقافتی طور پر، یہ ایکو سسٹم گیم چینجر اور بہتر ی کے لیے ایک  گیم چینجر ہے۔ حکومت کی پالیسیاں کاغذ پر نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہیں۔

اسٹارٹ اپ انڈیا اسٹینڈ اپ انڈیا، مدرا اسکیم کے بارے میں جان کر  میں حیران رہ گیا۔ کتنا پیسہ اس میں  گیا ہے، کتنا بامعنی استعمال ہوا ہے، اور اس نے کس طرح روزگار فراہم کیا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ محترم وزیر اعظم  جی نے میرا تعارف ایک کسان کے بیٹے کے طور پر کرایا تھا، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو سال میں تین بار براہ راست رقم دی جائے گی۔

یہ  رقم بڑھ کر 225000 کروڑ روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔اس کا اثر کسان خاندان کے نوجوانوں پر پڑتا ہے۔ حکومت قابل ہو سکتی ہے، حکومت دے سکتی ہے، لیکن کسان لینے کے لیے تیار ہے، ٹیکنالوجیکل اکویپڈ ہے، ٹیکنالوجی کی  رسائی بامعنی انداز میں گاؤوں تک پہنچ رہی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس کا فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ اسی لیے عالمی بینک کےچیئرمین نے کہا کہ ہندوستان نے 6 سال میں ڈیجیٹائزیشن میں جو کیا وہ 47 برسوں میں بھی ممکن نہیں تھا۔

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ملک  اس قسم کی تاریخی ترقی کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ میں نوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اختراعی طور پر ، غیر روایتی طور پر  سوچیں اور  اختراعی خیالات پیدا کریں۔ ناکامی کا خوف ترقی کا دشمن ہے۔ ناکامی کا خوف ترقی کے خلاف ہے۔ پہلی بار میں  کامیابی حاصل کرنا موقع کی بات ہے۔ مسلسل کوشش کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا ایک بہت ہی مثبت رویہ ہے۔

میری نوجوان ساتھیوں سے خصوصی گزارش ہے کہ اگر آپ کے ذہن میں کوئی خیال آئے تو اپنے دماغ کو پارکنگ کی جگہ نہ بنائیں، اگر آپ کے پاس کوئی اچھا خیال آئے اور آپ اس پر عمل نہیں کریں گے کیونکہ ناکامی کا اندیشہ ہے، تو وہ خیال آپ کے ذہن میں  ہی رہ جاتا ہے۔ آپ کا  ذہن عمل کرنے کا مقام ہے پارکنگ کی جگہ نہیں۔ آپ آگے بڑھیں گے، کوئی اور آپ سے تحریک لے کر کامیاب ہوگا۔ نائب صدر کے طور پر اپنے دور میں، میں نے ہندوستانی اور مرکزی خدمات کے بہت سے زیر تربیت  افراد سے ملاقات کی۔ ان سے طویل گفتگو کی۔ مجھے یہ بہت پسند آیا۔ ان کے اندر ایک جذبہ اور ملک کے لیے کچھ کرنے کی خواہش ہے۔ سول سروسز میں ہر کوئی آنا چاہتا ہے، کوئی بھی ایسا نہیں جو اس میں نہ آنا چاہے، یہ کرہ ارض کا سب سے مشکل مقابلہ ہے۔ آپ کو دوسری جگہ  10 گنا پیسہ  مل سکتا ہے۔  بھارت ماں کی خدمت  کرنے کا جو اچھا موقع آپ کو  سول سروس میں  ،ملتا ہے وہ کہیں نہیں ملتا۔

معاشرے میں تبدیلی کب آئے گی جب ہم ثقافتی اقدار کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ ہمارے  والدین، ہمارے  سینئر اساتذہ کا احترام کرنا ہماری  ذمہ داری نہیں ہے بلکہ  اس سے کافی بڑھ کر ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں، میں آج کے نوجوانوں کو بتاؤں گا کہ ہندوستانیت اور ہندوستان ہمارے لئے سب سے اوپر ہیں۔ ہم ہندوستانی ہیں، یہ ہمارے لیے بڑے وقار کی بات ہے۔ ہمیں ہمیشہ ہندوستان کا شہری  ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔

سال 2022 میں ہم نے کتنا ریکارڈ قائم کیا، ہمارا ڈیجیٹل لین دین عالمی لین دین کا 46 فیصد تھا۔ یہاں تک کہ اگر ہم امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی چاروں کو  اکٹھا کرلیں اور چار سے ضرب کرلیں تو بھی ہمارے ٹرانزکشن  ان سے زیادہ ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟سرکاری نظام ٹھیک ہے اور ہمارا عام شہری بھی بہت چوکنا ہے۔ جہاں اسکل اورلرننگ کی بات آتی ہے تو ہمارا عام شہری ایکلویہ ہے۔ کوئی سکھائے نہ سکھائے، وہ اپنے آپ سیکھ جاتے ہیں۔

جب  2022 میں معاملہ         آیا کہ فی کس ڈیٹا کی کھپت میں ہندوستان کہاں ہے؟ ہمارے پاس 70 کروڑ سے زیادہ انٹرنیٹ یوزرز ہیں۔ امریکہ اور چین دونوں کا  فی کس ڈیٹا کی کھپت کو شامل کردیں، تو بھی  ہمارا زیادہ ہے۔ یہ کبھی سوچا تھا  کسی نے ؟ آج  کے وقت امرت کال میں  جہاں وہ لوگ جو ہم کو رائے دیتے تھے اور دہائیوں سے دے رہے ہیں، آج ہماری رائے کا انتظار کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی خاتون صدر کا کیا کہتی ہیں،  ہندوستان عالمی معیشت میں ایک  چمکتا ہوا ستارہ ہے، ہندوستان سرمایہ کاری کے لیے چوتھا پسندیدہ مقام  ہے۔ یہ  اپنے آپ میں دکھاتا ہے  کہ آپ کے سامنے مواقع کا لامحدود ذخیرہ ہے، مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ تیار ہو، آپ یقیناً اس میں کامیابی حاصل کریں گے۔

اگر بہت تیزی سے ترقی ہو تی ہے تو جو لوگ سائنس کے طالب علم ہیں وہ جانتے ہیں نیوٹن کے تیسرا اصول، اگر ایکشن  مثبت ہے ، اثر انگیز ہے، موثر ہے اور انسانوں کی زندگیوں کو فائدہ مند انداز میں تبدیل کررہا ہے، تو کچھ قوتیں کچھ بھی کہیں گی،  کسی بھی حد تک جائیں گی۔ میں سیاست کا اسٹیک ہولڈر نہیں ہوں۔ سیاست کون اور کیسے کرتا ہے اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ لوگ اپنی مرضی اور اپنے نظریے کے مطابق سیاست کرتے ہیں، لیکن جن کو آئینی نظام کے تحت کام دیا گیا ہے، وہ اس کام من نہیں موڑ سکتے، وہ آئی ٹی سے بچ نہیں سکتے۔

میں آپ سے  اپنی تکلیف شیئر کروں گا، میں  نائب صدر ہونے کے ناطے  راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوں۔ پارلیمنٹ سے آپ کی کیا توقع ہے کہ وہ بحث، مذاکرات، بات چیت اور  فیصلہ کرنے کے کام میں شامل ہوں، آپ کبھی نہیں چاہوں کے کہ اس میں رخنہ پڑے۔ ہمیں دنیا کا  سب سے اچھا  آئین ملا، 3 سال  کے اندر بات چیت ہوئی ، ایک بار  بھی رخنہ نہیں پڑا،  ایک بار بھی ڈسرپشن نہیں ہوا، کسی نے نعرے نہیں لگائے، کسی نے بائیکاٹ نہیں کیا اور ان کا کام آسان نہیں تھا، ان کا کام مشکل تھا۔

انہوں نے  زیادہ تر مواد اور  اختلافی معاملات پر بحث و مباحثۃ اور بات چیت کی۔ آج وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں، آج اگر سب سے زیادہ  جمہوریت میں کسی کا مفاد ہے تو وہ میرے نوجوان ساتھیوں کا، آپ جمہوریت کے سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہو۔ اگر آپ  ٹھان لوگے  کہ منتخبہ رکن  پارلیمنٹ آئین کے مطابق اپنے فرض  کو ادا کرے گا تو  یقینی طور پر ایسا ہی  ہو گا۔آپ کے ٹھان لینے  کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس تکنیک  نے  بہت بڑا ہتھیار دے  رکھا ہے، سوشل میڈیا!

آپ کے پاس  طاقت ہے  غلط کو صحیح کرنے کی اور صحیح کو  صحیح  تسلیم کرانے کی ۔ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ فیکٹری نہیں ہے، انفراسٹرکچر نہیں ہے، انسانی وسائل  ہیں، سرکار نے انسانی وسائل کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی تبدیلی کی اصل وجہ ہے، یہ ایک انقلابی قدم ہے،  یہ  نوجوانوں کو موقع  دیتی  ہے کہ آپ ڈگری اورینٹیشن سے ایک ساتھ کئی پروگرام کر سکتے ہیں، یہ گیم چینجر ہے اور میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کا واحد موثر ترین طریقہ کار ہے۔

ہمارے کلچر کی  بات کرنا اس لئے  ضروری ہے کہ دنیا میں آپ کی طاقت، مامل مضبوطی، دفاع میں مضبوط ہونا،  پر کلچرل  طاقت بھی بہت بڑی ہے۔ یہ ایک عظیم سافٹ پاور  ہے۔  ہندوستان اب اس کو بخوبی آگے بڑھا رہا ہے۔

جی 20 نے دکھایا ہے کہ 58 جگہوں پر 200 میٹنگیں ہوئیں،  جو بھی  غیر ملکی آیا اپنے ذہن میں ایک ہی بات  لے کر آیا کہ قسمت نے اس پر مہربانی کی کہ ا س نے ہندوستان کو دیکھا۔ میں نے اسرو کے چیئرمین سے پوچھا کہ آپ کو کیسا لگ رہا  ہے، انہوں نے کہا کہ آج لاکھوں نوجوان سائنس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کو اب پتہ لگ رہا ہے  کہ سائنس کا مطلب کیا ہے۔

یہ کشش اپنے آپ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا مرکز ہے نوجوانوں کے لیے۔ یہ آپ کو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے مواقع فراہم کراتی ہیں۔ سوامی وویکانند جی نے نوجوانوں کے بارے میں کیا کہا تھا، ایک  شخص جس نے شکاگو میں پوری دنیا کو  ہندوستان کی ثقافت کو سمجھانے کی ہمت کی، چھوٹی تقریر۔ وہ کیا کہتے ہیں اٹھو ،  جاگو اور  اس وقت تک نہ روکو جب تک کہ مقصد حاصل نہ ہوجائے۔ آج کے نوجوانوں کے سامنے اس پر عمل کرنے کے  علاوہ  کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ کیونکہ سرکاری  نظام اور پالیسیوں سے جو مثبت ماحول پیدا ہورہاہے وہ آپ کے لیے فائدہ مند ہے۔

آپ اپنی خواہشات کو پورا کرسکوگےاور گاندھی جی نے نوجوانوں سے ایک بات کہی ’’آپ  دنیا میں جس  تبدیلی کو دیکھنا چاہتے ہو، وہ تبدیلی اپنے آپ میں لاؤ۔‘‘ گاندھی جی کی ایک بات یاد رکھیں ’’صبر  کا دامن چھوڑنا جنگ ہارنا ہے‘‘۔ جب  ہم نے مخالات میں  جب کچھ نہیں تھا،  چاروں طرف  بحران تھا، ہار نہیں مانی تو آپ آج کیوں صبر کو ہاتھ سے جانے دیں گے۔ آخر میں، میں یہ حوالہ دینا چاہتا ہوں کہ ’’عزت اپنے مقصد تک پہنچنے کی کوشش میں ہے  اسے  حاصل کرنے میں نہیں۔ لڑکو اور لڑکیوں کئی بار کئی لوگ ہمیں آگاہ  کرتے ہیں کہ آسمان گر جائے گا، لیکن آسمان  تاریخی طور پر کبھی نہیں گرتا،  تو وہ  آپ پر نہیں گرے گا۔‘‘

بہت بہت شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U-10161

                         


(Release ID: 1962508) Visitor Counter : 155


Read this release in: English