نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

 راجستھان کے کوٹا میں مختلف اداروں  کے طلباء سے نائب صدرجمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 05 SEP 2023 7:26PM by PIB Delhi

سب کو سہ پہر بخیر!

میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ میرے لیے زندگی بھر کا موقع ہے کہ میں ان لوگوں سے روبہ رو ہوں جو ہندوستان کا چہرہ بدل دیں گے۔ دنیا ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کے بارے میں بات کر رہی ہے، آپ اس ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمارا ہندوستان اس سے مالا مال ہے۔

کوٹا کا نام ہی الگ ہے، اس کا نام آتے ہی ذہن میں ایک ساتھ بہت سی باتیں آتی ہیں۔ علم کا شہر، وہ شہر جوعلم کے حصول میں نوجوان اذہان اور   شاندار دماغ سے بھرا ہو اہے ۔اپنی خواہشات کے حصول کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ آپ سب کو میرا سلام۔

مجھے واپس جانے دیں جب میں آپ کی طرح طالب علم تھا، میرے ساتھ کیا ہوا، میں نے کیا دیکھا، کتنی مشکلات آئیں اور اچانک میری ساری زندگی بدل گئی..  اہم عنصر تعلیم تھا۔ میں گاؤں کے ایک چھوٹے سے اسکول میں پڑھتا تھا، وہاں انگریزی نہیں پڑھائی جاتی تھی.. میں انگریزی پر زیادہ زور نہیں دیتا.. جو طاقت ہماری ہندوستانی زبانوں میں ہے وہ انگریزی میں نہیں ہے۔ جب ہم اپنی زبان میں خواب دیکھتے ہیں تو ہم کوئی دوسری زبان کیوں بولیں؟ ہندوستانی آئین کو پڑھیں، آئین بنانے والوں نے کہا.. کہ ایک کمیشن بنا دیا گیا ہے جو فیصلہ کرے گا.. کہ انگریزی کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے اور ہندی کو بتدریج بڑھایا جائے۔ کام کامیاب ہو گیا، امرت  کال بھی آ گیا… جیسا سوچا تھا ویسا تو نہیں  ہوا لیکن ہم صحیح راستے پر ہیں۔

آپ لوگ اتنے سخت مقابلے میں ، اتنے تناؤ اور ٹینشن  میں ہو.. نتائج کا اتنا جنون ہے.. کیا آپ کا سارا دماغی نظام سے متاثر ہے؟ ہمارے دور میں کیا ہوا کرتا تھا... بچہ پیدا نہیں ہوتا تھاکہ تمام رشتہ دارطے کرلیتے تھےکہ وہ آئی اے ایس بنے گا، آئی پی ایس بنے گا، ڈاکٹر بنے گا، انجینئر بنے گا، انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ سائنسدان یا کرکٹر کون بنے گا ؟ فٹبالرکون بنے گا ؟ جس سے دنیا کا نظریہ بدل جائے گا۔

آج میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ٹرینی مجھ سے ملنے آتے ہیں، جب انہیں اپنی خدمت میں شامل کیا جاتا ہے تو انہیں پروبیشنر کہا جاتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں پس منظر کیا ہے؟ کوئی  ڈاکٹر، کوئی  انجینئر... کوئی  IIT ہے... کوئی  IIM سے ہے۔ لیکن اب ہندوستان بدل چکا ہے۔ آپ بھارت کے خوش قسمت بچے ہیں کیونکہ آپ ایک ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جب ماحولیاتی نظام آپ کی صلاحیتوں، آپ کی توانائی یا آپ کے خوابوں اور خواہشات کو پورا کرنے کی صلاحیت کا مکمل فائدہ اٹھانے میں آپ کی مدد کر رہا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔

ہاتھ کنگن کو  آر سی کیا  اور پڑھے لکھے کو  فارسی کیا.. یہی کہتے ہیں نا.. آپ سٹارٹ اپس کی تعداد دیکھیں، ہمارے سٹارٹ اپس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

وہ کن کا نظارہ  ہے؟ آپ لوگوں  کے عمر کے بچے اور بچیوں ۔

بھارت میں یونیکارنس  کی سب سے زیادہ تعداد ہے، دنیا آج حیران ہے، وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ آج بھارت کا کیا نظریہ ہے! ہم میں سے کچھ پریشان ہیں کہ وہ ایک مضبوط ہندوستان کو کیوں مجبور کرنا چاہتے ہیں؟ جب ہماری انسانی مساوات، انسانی سرمایہ، ثقافتی گہرائی دنیا میں بے مثال ہے تو پھر ہم بیک فٹ پر کیوں رہیں؟ ہندوستان کے پاس آپ جیسے نوجوان اذہان کا سب سے زیادہ متحرک اور باصلاحیت وسیلہ ہے۔ لیکن آپ کو اور مجھے ایک فکر ہے، جب میں پڑھتا تھا تو ڈر لگتا تھا، اگر میں دوسرے نمبر پر آیا تو کیا ہوگا؟ میں اس خوف کے ساتھ جی رہا تھا، اور ہمیشہ ٹاپر رہا۔ زندگی میں بہت بعد میں پتہ چلا کہ نمبر-2 آتا تو کیا ہوتا؟کچھ نہ ہوتا! جو نمبر ون آئے گا اسے خوشی ملے گی۔ لہٰذا ایک بنیادی بات کا خیال رکھیں،  کبھی فرقہ کی نوعیت  نہیں ہوگی، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ لہذا کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ یہ سڑک کا اختتام ہے۔ کبھی یہ نہ سوچیں کہ یہ آخری موقع ہے۔ کبھی ناکامی کا خوف نہ کھائیں۔ ناکامی کا خوف ایک بیماری کی بدترین قسم ہے، یہ کووڈ سے زیادہ خطرناک ہے.. ناکامی کا مطلب ہے کہ آپ میں کوشش کرنے کی ہمت اور یقین تھا! آپ ان لوگوں سے زیادہ مضبوط ہیں جو بہت خوفزدہ ہیں اور کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں۔ کم از کم آپ کوشش تو کر رہے ہیں۔

انسانی ذہانت کا تقاضا ہے کہ وہ کوئی آئیڈیا رکھے، اس آئیڈیا کو ایجاد کرے اور اس پر عمل کرے۔ ناکامی کو بھول جائیں۔ دنیا میں کوئی کراماتی کام پہلی کوشش میں نہیں ہوتا۔ یہ ہمیشہ خوفناک ناکامیوں کے بعد رہا ہے۔ 2019 میں، میں مغربی بنگال کا گورنر تھا، میں نے آپ کی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کو سائنس سٹی، کولکتہ میں مدعو کیا، وہ بہت بڑی تعداد میں چندریان 2 کی لینڈنگ کو  دیکھنا چاہتے تھے۔ میں وہاں اپنی بیوی کے ساتھ تقریباً 1:00 بجے تھا۔ سافٹ  لینڈنگ نہیں ہوئی، سب کو دھچکا لگا۔ سب کو لگا کہ ہماری بہت  بڑی شکست ہوئی ہے۔چاروں طرف افسردگی، ناامیدی اور مایوسی چھاگئی۔ یہ وزیر اعظم نریندر مودی تھے، جو اگلی صبح اسرو کے دفتر پہنچے  وہ اسرو کے ڈائریکٹر کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑے ہوئے اور ڈائریکٹر سے کہا کہ ہم اگلی بار کامیاب ہوں گے۔ ملک کے وزیر اعظم نے پیش گوئی کی اور چندریان-3 چاند پر اترا۔ اگر چندریان 2 نہ ہوا ہوتا تو چندریان 3 کامیاب نہ ہوتا۔ یہ چندریان 2 کی ناکامی نہیں تھی، چندریان 2 96 فیصد سے زیادہ کامیاب تھا۔ چندریان 3 100 فیصد کامیاب تھا۔ اس لیے کبھی ناکامی سے نہ ڈریں، کبھی ترقی میں رکاوٹ سے نہ گھبرائیں ۔

دریا جیسا سلوک کرو، نہر نہ بنو۔ ایک نہر  کوپختہ بنایا جاتا  ہے، لیکن ایک دریا ایسا  نہیں  ہوتا اور بڑے پیمانے پر معاشرے کی خدمت کرتا ہے۔ یہ زمین کی بڑی مقدار کو متاثر کرتا ہے اور تہذیبوں کی نشوونما کا باعث بنتا ہے۔ اپنی اہلیت اور رویہ کے مطابق عمل کریں۔ خاندان، دوستوں، پڑوسیوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی توقع  نہ کریں ... کہ اگر اس نے کرشمہ کیا ہے، تو میں بھی کروں گا. نہیں. تقدیر آپ کو وہاں لے جائے گی جہاں آپ کو جانا ہے، لیکن آپ کو صحیح  سمت  میں آگے بڑھنا ہوگا۔

کیا آپ نے سٹیو جابز کا نام سنا ہے؟ کالج میں اسے کیا ہوا؟ اس نے پہلے سمسٹر کے بعد ہی تعلیم   چھوڑدی ۔اپنے یہاں یہ نہیں جانتے کہ جو ڈراپ آؤٹ کر رہا ہے وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر رہا ہے۔ اگر اس وقت اسٹیو جابز پر دباؤ  میں ہوتا کہ  دل کی سنیں  یا نہ سنیں  ، گھر والے کیا سوچیں  گے، استاد ، دوست اورسماج کیا سوچے گا، تو یہ ایپل اپنے سے دور ہو جاتا۔  اس نے یہ پہل اس لیے کی کہ اس نے اپنے جھکاؤ، اپنی اہلیت پرعمل کیا۔ دوسروں کو اپنے طرز عمل کا حکم دینے کی اجازت نہ دیں۔ کیا آپ نے بل گیٹس کا نام سنا ہے؟ وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہیں۔ وہ مطلوبہ معیار کے لیے نصابی دباؤ کا سامنا نہیں کر سکے، اور ہمیں مائیکروسافٹ مل گیا۔ مائیکروسافٹ ایک مشترکہ وینچر تھا، ان کی حمایت پال ایلن نے کی۔ وہ بھی واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہیں ۔

کہنے  کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی قابلیت، آپ کا یقین، آپ کی سمت پر مبنی نقطہ نظر آپ کی ڈگری میں طے نہیں ہے۔ میں کسی ڈگری کا مذاق نہیں اڑانا چاہتا۔ لیکن آپ کا  دل کیا کہتا ہے؟ اگر آپ کا دل  آپ کو شطرنج کھیلنے کو کہے اور میں کرکٹ کھیلنے جاؤں تو کیا ہوگا؟

ڈیل کمپیوٹرز کی بنیاد مائیکل ڈیل نے رکھی تھی، وہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے ڈراپ آؤٹ تھے۔ فیس بک ، واٹس ایپ اوراوبر کو دیکھ لو، ان کے بنانے والوں نے کیا شاندار کام کیا ہے۔ آج میں آپ کو بتاتا ہوں، آپ کے اختیار میں پوری دنیا ہے۔ کچھ منفرد سوچیں۔ ہندوستان 1.4 ارب  لوگوں کا گھر ہے، وہ آپ کے صارفین ہیں، آپ کے گاہک ہیں۔ ہماری آبادی ہمارا اثاثہ ہے، چیلنج نہیں۔ آپ کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی زندگی کو کس طرح آسان بنایا جا سکتا ہے۔

میں آپ کے ساتھ دو مثالیں شیئر کرنا چاہتا ہوں، آپ زیادہ بہتر جانیں گے کیونکہ یہ واقعات سے باخبر سامعین ہیں۔ ایک ہندوستانی کی فی کس ڈیٹا کی کھپت امریکہ اور چین سے زیادہ ہے۔ یہ ہماری کامیابی ہے۔ جب ہنر کی بات آتی ہے، جب سیکھنے کی بات آتی ہے، تو ہر ہندوستانی لڑکا اور لڑکی ایکلویہ کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ کوئی اسے سکھائے یا نہ سکھائے، وہ خود ہی سیکھتا ہے۔ اور یہ کرشمہ اب زمین پر نظر آرہا ہے۔

آپ میں سے کتنے لوگ  گاؤں کے ہیں؟ دیکھئے پہلے بجلی کے بل کے لیے لمبی قطاریں لگتی تھیں، اور بل جمع کرانے کے لیے آدھے دن کی چھٹی لینی پڑتی تھی، پانی کا مسئلہ تھا، ریلوے کے ٹکٹ کا بھی یہی حال تھا۔پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنے کا طریقہ پتہ نہیں تھا۔

آج کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں‘ کوئی نہ کوئی آپ کو ریلوے کا ٹکٹ دے دے گا، روڈ ویز اور ریلوے دونوں کے لیے پاسپورٹ کے معاملات بھی آسانی سے طے ہو جائیں گے۔ سروس ڈیلیوری اب ٹیکنالوجی پر مبنی بن چکی ہے۔ اب سب کچھ آپ کی مٹھی میں ہے۔ یہ ترقی ہندوستان میں ہوئی ہے۔ یہ ترقی جو آپ کہتے ہیں کہ آپ کے اسمارٹ فون کے ساتھ نہیں ہوئی، حکومت کی جانب سے ایک جامع فریم ورک تیار کیا گیا ہے تاکہ آپ کا آلہ کام کر سکے۔

جب میں 1989 میں لوک سبھا کا ممبر بنا تو آپ میں سے اکثر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے… ہندوستان کی حالت خستہ تھی۔ ہمارا مالی استحکام اور ساکھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 2 ارب ڈالر سے کم ہو گئے تھے۔ ہماری ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارا سونا ہوائی جہاز میں ڈال کر بیرون ملک بھیجنا پڑا۔ آج زرمبادلہ کے ذخائر 600 ارب ڈالر ہیں۔ ایسا موقع بھی آتا ہے کہ ہم پندرہ دنوں میں چار سے پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہی ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی طاقت ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2013 میں، دنیا کے پانچ ممالک کو فریجل (کمزور )فائیو کہا جاتا تھا: برازیل، ترکی، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ اور ہندوستان ۔ ہندوستان بھی ان پانچوں میں سے ایک تھا۔ آج جب آپ امرت کال میں رہ رہے ہیں، بھارت دنیا کی پانچ اعلیٰ عالمی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ اس غیر معمولی ترقی کو حاصل کرتے ہوئے ہم نے انگریزوں کو شکست دی جنہوں نے ہم پر صدیوں حکومت کی۔ میں پوری ذمہ داری کے احساس  کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ  آئی ایم ایف بہت صحیح ہوتا ہے، جب کہتا ہے کہ ہندوستان عالمی معیشت میں ایک روشن ستارہ ہے۔ مواقع اور سرمایہ کاری کے لیے ہندوستان پسندیدہ مقام ہے۔ دہائی کے آخر تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ بدعنوانی  نے ہمارے نظام کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیا تھا۔ اقتدار کی راہداریوں میں پاور  کے دلال تھے، دلالوں کا راج تھا۔ بدعنوانی اپنے عروج پر تھی۔ اب پاور کوریڈور کو پاور بروکرز سے صاف کر دیا گیا ہے۔ اب آپ کو کرپشن کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا۔ ایک ایسا نظام تھا جہاں فیصلہ سازی میں ماورائے قانونی فائدہ اٹھانا آج کا حکم تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔

شفافیت اور احتساب- اس حکومت نے اچھا کام کیا ہے، اس نے پاور بروکرز کا خاتمہ کیا ہے، یہ صنعت ختم ہو چکی ہے۔ آج پاور کوریڈورز میں پاور بروکرز نہیں ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے شفافیت، حکمرانی میں آسانی اور جوابدہی آتی ہے۔ میں ایک کسان خاندان سے آتا ہوں؛  ہر سال 3 بار11 کروڑ سے زیادہ کسان کو  ان کے بینک میں براہ راست رقم بھجی جاتی ہے۔ میرا پوائنٹ 11 کروڑ کسانوں کے بارے میں نہیں ہے، میرا پوائنٹ ان کے 2.5 لاکھ کروڑ سے زیادہ فائدے  کے حصول کے بارے میں نہیں ہے.. بڑی تبدیلی دیکھیں کہ دونوں حکومت پیسہ ڈیجیٹل طور پر بھیجنے کے لئے تیار ہے اور لوگ ڈیجیٹل طریقے سے پیسہ حاصل  کرنے کے لئے تیار ہیں. ہمارے نظام کو بااختیار بنایا گیا ہے، یہی ترقی ہے۔

ہندوستان  میں 2022 میں عالمی ڈیجیٹل لین دین کا 46 فیصد رہا،  جو کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی کے ڈیجیٹل لین دین سے چار گنا زیادہ ہے۔ مُدرا اسکیم کے بارے میں جانیں، یہ آپ کو روزگار کے تخلیق کار بننے، کاروباری بننے کے لیے رقم فراہم کرتی ہے۔ اس سارے معاملے میں مجھے نوجوان اذہان، آپ جیسے نوجوان پیشہ ور افراد سے کچھ توقعات ہیں۔ آپ مستقبل ہیں، آپ ہندوستان کے پیدل سپاہی ہیں جو بھارت کو 2047 کو عروج پر لے جائیں گے۔ براہ کرم بدعنوانی کے لئے صفر رویہّ اپنائیں۔آپ کو کیسا لگتا ہے کہ آدمی کو نوٹس ملتے ہی وہ سڑک پر نکل آئے؟ یہ کوئی طریقہ ہے۔ آپ  راحت حاصل کرنے کےلئے عدالت جائیں، اس کے لیے اپنا سوشل میڈیا استعمال کریں۔ اگر کوئی شخص سسٹم سے متاثر ہے اور  اسے ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس... کسی بھی ادارے سے نوٹس ملا ہے... تو آپ سڑکوں پر آ گئے؟

ہم اسے کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس ایک مضبوط عدالتی نظام ہے۔ میں راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوں، ملک کا نائب صدر ہونے کی وجہ سے، آپ راجیہ سبھا میں کیا چاہتے ہیں؟ مکالمہ، بحث، گفت و شنید، ہم یہ سب نہیں کرتے۔ جن کو آپ منتخب کر کے بھیجتے ہیں، جو ملک کی تقدیر بنانے والے ہیں، جو قانون بناتے ہیں، اگر وہ بحث، گفت و شنید، غوروفکر اور مکالمہ میں شامل نہ ہوں تو آپ کو برا لگے گا کہ وہ ہمارا کام نہیں کر رہیں۔

ہماری دستور ساز اسمبلی نے آئین بنانے کے لیے تین سال تک میٹنگ کی۔ کسی بھی طر ح اسمبلی میں رخنہ اندازی کے واقعات پیش نہیں آئے ۔ ایک بار بھی  ایوان زیریں  میں لوگ  نہیں  پہنچے ، ایک بار بھی  تیز آواز میں نعرے نہیں لگائے، ایک بار بھی پلے کارڈ نہیں دکھائے۔ ہم ان کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟ آپ میں سے ہر ایک  کی خصوصی اہمیت ہے، آپ مطالبہ کر سکتے ہیں۔ آپ کے نمائندے بحث و مباحثہ میں کیسے جصہ  نہیں لےسکتے ہیں؟

میں آپ سب سے کہوں گا، دوسروں کے نقطہ نظر کو رد نہ کریں، آپ اسے سنیں، اسے سمجھیں، آپ کے لیے اسے قبول کرنا ضروری نہیں ہے۔ ایک مسئلہ آیا ون نیشن ون الیکشن، وہ کہتے ہیں ہم اس پر بحث نہیں کریں گے! بحث کرنا آپ کا کام ہے۔ اتفاق کرنا یا اختلاف کرنا آپ کی صوابدید ہے۔

جمہوریت میں بحث نہیں ہوگی تو جمہوریت کہاں ہے؟ جمہوری اقدار، جمہوری جوہر کے لیے غور و خوض اور بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر  وہ  ایسا نہیں کریں گے تو آپ کا کیرئیر کیسے بہتر ہوگا؟ ہمیں اس انداز میں کام کرنا ہے کہ آپ کا مستقبل روشن ہو۔

آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے ملک پر ہمیشہ فخر کرنا چاہیے۔ ہمیں فخر ہے کہ  ہم  ہندوستانی ہیں اور ہمیں اپنی غیر معمولی ترقی پر فخر کرنا چاہیے۔ ہماری ترقی دنیا کو حیران کر  رہی ہے۔ آج  کے دن دنیا میں ہندوستانی ہونا آپ کے لیے اعزاز کی بات ہے، یہ آپ کے لیے ایک موقع ہے۔ آخر میں، ہمارے بنیادی حقوق ہیں، وہ قیمتی حقوق ہیں۔ ہمارے بھی بنیادی فرائض ہیں، آپ فرائض پر توجہ دیں اور ایسا کام کریں کہ ان کے بارے میں بتانا شروع کر دیں.. زبردست تبدیلی آئے گی.. بڑی تبدیلی ہمیشہ چھوٹے کام سے آتی ہے. جب وزیر اعظم نے جھاڑو لے کرکہا کہ سووچھ بھارت  .. تو آپ  نے  کرشمہ  دیکھ لیا، ہر گھر میں بیت الخلا، ہر گھر میں نل.. اس میں پانی!

جمہوریت آپ کی جیب یا اپنے بینک اکاؤنٹ میں پیسہ ڈالنے کے لیے نہیں ہے اور آپ میرے پیروکار، میرے پرستار بن جائیں۔ میں تم پر بڑا ظلم کر رہا ہوں۔ مجھے آپ کی جیب کو بااختیار نہیں بنانا چاہئے۔ بلکہ، مجھے آپ کو بااختیار بنانا چاہیے، مجھے آپ میں اپنی مدد کرنے کی خواہش پیدا کرنی چاہیے۔ یہ جو نظام چل رہا ہے وہ خطرناک ہے، دنیا کے کئی ممالک اسے آزما چکے ہیں اور بڑی قیمت چکا چکے ہیں۔ اگر سرمایہ خرچ نہ ہو تو کیا ترقی ہو سکتی ہے؟ ممکن نہیں۔ سرمائے کے اخراجات اثاثے اور انفراسٹرکچر بناتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بجائے اگر کوئی حکومت یا حکومتی مشینری عوام کی جیبیں گرم کرتی ہے، انہیں متاثر کرتا ہے، ان کو  قلیل مدتی فائدے کے لیے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے تو یہ ملک کا  طویل المدتی نقصان ہے۔

آپ سب کے لیے میری نیک خواہشات۔

*************

  ش ح۔ع ح۔رم

U-9229


(Release ID: 1955065) Visitor Counter : 199


Read this release in: English