جل شکتی وزارت
زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری
Posted On:
07 AUG 2023 6:50PM by PIB Delhi
جل شکتی کے وزیر مملکت جناب بشویشور ٹوڈو نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ اطلاع دی ہے کہ سنٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ (سی جی ڈبلیو بی) پورے ملک میں زمینی پانی کی سطح کی ہر سال مارچ سے مئی، اگست، نومبر اور جنوری کے مہینوں میں چار بار علاقائی پیمانے پر ضابطہ بندی اور نگرانی کرتا ہے۔
نومبر 2022 کے دوران، ملک میں نگرانی کیے جانے والے تقریباً 67.2فیصد کنوؤں میں پانی کی سطح 5 ایم بی جی ایل تک درج کی گئی ہے۔ ریاستی سطح پر پانی کی سطح کی گہرائی اور نومبر 2022 کے لیے کنوؤں کی فیصد کی تقسیم ضمیمہ میں دی گئی ہے۔ مزید برآں، زیر زمین پانی کی سطح میں طویل مدتی اتار چڑھاؤ کا اندازہ لگانے کے لیے، نومبر 2022 کے دوران سی جی ڈبلیو بی کے ذریعے جمع کیے گئے پانی کی سطح کے اعداد و شمار کا نومبر (2012-2021) کی دہائی کے اوسط سے موازنہ کیا گیا ہے۔ پانی کی سطح کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ نگرانی کیے جانے والے تقریباً 61.1فیصد کنوؤں نے زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ درج کیا ہے۔
پانی ایک ریاستی موضوع ہونے کے ناطے ملک میں اس کی سطح کو بڑھانے کے لیے بارش کے پانی کی مؤثر ذخیرہ کاری /ریچارج کرنا ریاستوں کے دائرہ کار کے تحت آتا ہے تاہم اس کے باوجود مرکزی حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں جن تک درج ذیل ویب لنک کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے:
https://cdnbbsr.s3waas.gov.in/s3a70dc40477bc2adceef4d2c90f47eb82/uploads/2023/02/2023021742.pdf
ان اقدامات میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- حکومت ہند ملک میں جل شکتی ابھیان(جے ایس اے) کو نافذ کر رہی ہے۔ پہلا جے ایس اے 2019 میں 256 اضلاع کے پانی کی قلت کے مسئلے سے دوچار بلاکس میں شروع کیا گیا تھا جو 2021 اور 2022 (پورے ملک میں دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں) جاری رہا جس کا بنیادی مقصد مصنوعی ریچارج ڈھانچے ، کھیتوں میں مینڈھیں وغیرہ کی تیاری کے ذریعے مانسون کی بارشوں سے مؤثر طریقے سے استفادہ ، انتظام، ریچارج اور دوبارہ استعمال کے ڈھانچے، شدید جنگلات اور بیداری پیدا کرنا وغیرہ تھا ۔ سال 2023 کے لیے جے ایس اے کا آغاز صدر جمہوریہ ہند نے 04 مارچ 2023 کو ‘‘پینے کے پانی کے لیے وسیلے کی ہمہ گیری ’’ کے ساتھ کیا ہے۔
- وزیر اعظم نے 24 اپریل 2022 کو امرت سروور مشن کا آغاز کیا ہے۔ اس مشن کا مقصد آزادی کا امرت مہوتسو کے جشن کے ایک حصے کے طور پر ملک کے ہر ضلع میں 75 آبی ذخائر کو ترقی دینا اور ان کی تجدید کرنا ہے۔
- III. ریاستوں کے تعاون سے، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان اور اتر پردیش کے بعض پانی کے دباؤ والے علاقوں میں 6,000 کروڑ روپے کی لاگت کے ساتھ مرکزی حکومت اٹل بھوجل یوجنا کو لاگو کر رہی ہے۔ اس اسکیم کا بنیادی مقصد سائنسی ذرائع سے مانگ کو سامنے رکھ کر کیا جانے والا بندوبست ہے جس میں گاؤں کی سطح پر مقامی کمیونٹیز کو شامل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہدف شدہ علاقوں میں زیر زمین پانی کا پائیدار انتظام ہوتا ہے۔
- سنٹرل گراؤنڈ واٹر اتھارٹی (سی جی ڈبلیو اے) کو ‘‘ماحولیات (تحفظ) ایکٹ، 1986’’ کے سیکشن 3(3) کے تحت قائم کیا گیا ہے تاکہ ملک میں صنعتوں، کان کنی کے منصوبوں، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں وغیرہ کے ذریعہ زمینی پانی کی ضابطہ بندی اور نگرانی کے ساتھ ساتھ اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں پورے ہندوستان میں نافذ کئے جانے کے حوالے سے تازہ ترین رہنما خطوط کو وزارت نے 24 ستمبر 2020 کو اور 29 مارچ 2023 کو بعد میں ترمیم کے ساتھ ان کے دائرہ اختیار اور موجودہ رہنما خطوط کے مطابق مشتہر کیا تھا ۔
- سی جی ڈبلیو بی ملک میں نیشنل ایکوفر میپنگ پروگرام(این اے کیو آئی ایم) کو نافذ کر رہا ہے اور 25.15 لاکھ مربع کلومیٹر (دستیاب قابل نقشہ بندی علاقہ ) کو این اے کیو یو آئی ایم اسٹڈیز کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ این اے کیو یو آئی ایم مطالعاتی رپورٹ انتظامی منصوبوں کے ساتھ مناسب اقدامات کے لیے ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے۔
- زمینی پانی کے لیے مصنوعی ریچارج کے لیے ماسٹر پلان –سی جی ڈبلیو بی 2020 نے ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے جس میں پروجیکٹ کا ایک وسیع خاکہ اور متوقع سرمایہ کاری کے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہے۔ ماسٹر پلان میں 185 بلین کیوبک میٹر (بی سی ایم) پانی کو استعمال کرنے کے لیے ملک میں تقریباً 1.42 کروڑ بارش کے پانی کی ذخیرہ کاری اور مصنوعی ریچارج ڈھانچے کی تعمیر کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ مناسب کارروائی کے لیے ماسٹر پلان کو ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
- ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت(ایم او ایچ یو اے) نے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے ماڈل بلڈنگ بائی لاز (ایم بی بی ایل) 2016وضع کئے ہیں، جن میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور پانی کے تحفظ کے اقدامات کی ضرورت پر کافی توجہ دی گئی ہے۔ ایم بی بی ایل کے مطابق، تمام عمارتیں جن کا پلاٹ سائز 100 مربع میٹر یا اس سے زیادہ ہے، میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی مکمل تجویز کو لازمی طور پر شامل کیا جائے گا۔ 35 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے ضمنی قوانین کی خصوصیات کو اپنایا ہے۔
وزارت نے وقتاً فوقتاً ملک میں زیر زمین پانی کے وسائل کے جائزے کی نگرانی کے لیے مختلف شراکت دار وزارتوں/تنظیموں کے اراکین کے ساتھ مل کر مرکزی سطح کے ماہرین کا گروپ تشکیل دیا ہے جس کے مقاصد میں زیر زمین پانی کی سطح کی نگرانی بھی شامل ہے۔
سی جی ڈبلیو بی کی طرف سے نومبر 2018 تک پورے ملک کے لیے زمینی پانی(جی ڈبلیو) کی سطح کا ڈیٹا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تقریباً 81.10فیصد نگرانی کیے گئے کنوؤں کی سطح سے پانی کی گہرائی 10 میٹر تک ہے جب کہ نومبر 2022 کے جی ڈبلیو سطح کے اعداد و شمار تقریباً 88.7فیصدنگرانی والے ایسے کنوؤں کو ظاہر کرتے ہیں جن میں پانی کی سطح 10میٹر تک ہے۔ پنجاب کے حوالے سے، سال 2018 اور 2022 کے لیے جی ڈبلیو سطح کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بالترتیب 43.68فیصد اور 39.7فیصد نگرانی کیے گئے کنوؤں کی سطح سے پانی کی گہرائی 10 میٹر تک ہے۔
مزید برآں ، نومبر 2022 کے زیر زمین پانی کی سطح کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چندی گڑھ، دہلی، ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اتراکھنڈ کے کچھ نگرانی کے تحت آنے والے کنوؤں میں پانی کی سطح کی گہرائی 40میٹر سے زیادہ ہے۔
2017 کی تشخیص کے مطابق، 17 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے تحت آنے والی 6881 تشخیصی اکائیوں میں سے 1186 (17فیصد) جائزہ اکائیوں کا ضرورت سے زیادہ استحصال کیا گیا۔ 2022 کی تشخیص کے مطابق، 16 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کام کرنے والے 7089 تشخیصی یونٹس میں سے 1006 (14فیصد) تشخیصی یونٹس (منڈل/بلاک/فرکوں /تعلقہ وغیرہ) کا بہت زیادہ استحصال کیا جاتا ہے جہاں زمینی پانی کا اخراج زیر زمین پانی کے ریچارج سے زیادہ ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ دہلی، ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور تمل ناڈو جیسی کچھ بڑی ریاستوں میں 25 فیصد سے زیادہ جائزہ کار اکائیوں (اسسمنٹ یونٹس) کا زیادہ استحصال کیا گیا ہے۔ پنجاب میں 76.47 فیصد زیادہ استحصال شدہ یونٹس ہیں۔
ضمیمہ
نومبر 2022 کی مدت کے لیے پانی کی سطح سے ریاستی سطح پر گہرائی اور کنوؤں کے فیصد کی تقسیم
نمبرشمار
|
ریاست کا نام
|
زیر جائزہ آنے والے کنوؤں کی تعداد
|
درج ذیل کی حد میں گہرائی سے پانی کی سطح تک (ایم بی جی ایل کو ظاہر کرنے والے کنوؤں کی تعداد اور فیصد
|
کم از کم
|
زیادہ سے زیادہ
|
0-2
|
2-5
|
5-10
|
10-20
|
20-40
|
> 40
|
تعداد
|
فیصد
|
تعداد
|
فیصد
|
تعداد
|
فیصد
|
تعداد
|
فیصد
|
تعداد
|
فیصد
|
تعداد
|
فیصد
|
1
|
انڈ مان ونکوبار
|
99
|
0.05
|
4.45
|
87
|
87.9
|
12
|
12.1
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
2
|
آندھرا پردیش
|
730
|
GL
|
37.62
|
370
|
50.7
|
226
|
31.0
|
97
|
13.3
|
29
|
4.0
|
7
|
1.0
|
1
|
0.1
|
3
|
اروناچل پردیش
|
9
|
2.67
|
7.30
|
0
|
0.0
|
4
|
44.4
|
5
|
55.6
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
4
|
آسام
|
173
|
0.10
|
18.32
|
74
|
42.8
|
82
|
47.4
|
13
|
7.5
|
4
|
2.3
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
5
|
بہار
|
638
|
0.33
|
11.30
|
105
|
16.5
|
434
|
68.0
|
96
|
15.0
|
3
|
0.5
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
6
|
چندی گڑھ
|
14
|
2.51
|
53.80
|
0
|
0.0
|
4
|
28.6
|
2
|
14.3
|
3
|
21.4
|
3
|
21.4
|
2
|
14.3
|
7
|
چھتیس گڑھ
|
774
|
0.65
|
22.95
|
157
|
20.3
|
437
|
56.5
|
142
|
18.3
|
36
|
4.7
|
2
|
0.3
|
0
|
0.0
|
8
|
دادرہ اور نگر حویلی
|
15
|
1.98
|
7.80
|
1
|
6.7
|
12
|
80.0
|
2
|
13.3
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
9
|
دمن اور دیو
|
7
|
1.45
|
6.37
|
1
|
14.3
|
4
|
57.1
|
2
|
28.6
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
10
|
دہلی
|
84
|
0.62
|
66.75
|
8
|
9.5
|
16
|
19.0
|
26
|
31.0
|
19
|
22.6
|
10
|
11.9
|
5
|
6.0
|
11
|
گوا
|
63
|
1.22
|
12.93
|
5
|
7.9
|
28
|
44.4
|
26
|
41.3
|
4
|
6.3
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
12
|
گجرات
|
709
|
0.12
|
61.42
|
125
|
17.6
|
271
|
38.2
|
198
|
27.9
|
82
|
11.6
|
29
|
4.1
|
4
|
0.6
|
13
|
ہریانہ
|
268
|
0.11
|
77.95
|
36
|
13.4
|
68
|
25.4
|
37
|
13.8
|
59
|
22.0
|
56
|
20.9
|
12
|
4.5
|
14
|
ہماچل پردیش
|
84
|
0.54
|
36.25
|
16
|
19.0
|
29
|
34.5
|
15
|
17.9
|
19
|
22.6
|
5
|
6.0
|
0
|
0.0
|
15
|
جموں و کشمیر
|
273
|
0.30
|
32.86
|
75
|
27.5
|
138
|
50.5
|
39
|
14.3
|
14
|
5.1
|
7
|
2.6
|
0
|
0.0
|
16
|
جھارکھنڈ
|
178
|
0.26
|
12.80
|
19
|
10.7
|
109
|
61.2
|
48
|
27.0
|
2
|
1.1
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
17
|
کرناٹک
|
1327
|
GL
|
27.30
|
467
|
35.2
|
495
|
37.3
|
320
|
24.1
|
43
|
3.2
|
2
|
0.2
|
0
|
0.0
|
18
|
کیرالہ
|
1412
|
0.05
|
52.82
|
281
|
19.9
|
454
|
32.2
|
539
|
38.2
|
125
|
8.9
|
12
|
0.8
|
1
|
0.1
|
19
|
مدھیہ پردیش
|
1259
|
GL
|
37.67
|
239
|
19.0
|
608
|
48.3
|
326
|
25.9
|
76
|
6.0
|
10
|
0.8
|
0
|
0.0
|
20
|
مہاراشٹر
|
1472
|
0.10
|
40.00
|
358
|
24.3
|
732
|
49.7
|
320
|
21.7
|
52
|
3.5
|
10
|
0.7
|
0
|
0.0
|
21
|
میگھالیہ
|
24
|
0.15
|
4.93
|
13
|
54.2
|
11
|
45.8
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
22
|
ناگالینڈ
|
4
|
0.63
|
6.73
|
1
|
25.0
|
0
|
0.0
|
3
|
75.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
23
|
اڑیسہ
|
1212
|
0.03
|
11.16
|
491
|
40.5
|
601
|
49.6
|
116
|
9.6
|
4
|
0.3
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
24
|
پانڈیچری
|
4
|
1.06
|
3.45
|
2
|
50.0
|
2
|
50.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
25
|
پنجاب
|
232
|
0.79
|
49.14
|
18
|
7.8
|
40
|
17.2
|
34
|
14.7
|
60
|
25.9
|
63
|
27.2
|
17
|
7.3
|
26
|
راجستھان
|
890
|
0.06
|
121.55
|
71
|
8.0
|
226
|
25.4
|
150
|
16.9
|
158
|
17.8
|
134
|
15.1
|
151
|
17.0
|
27
|
تمل ناڈو
|
621
|
0.03
|
52.83
|
216
|
34.8
|
252
|
40.6
|
110
|
17.7
|
33
|
5.3
|
5
|
0.8
|
5
|
0.8
|
28
|
تلنگانہ
|
529
|
GL
|
49.55
|
187
|
35.3
|
218
|
41.2
|
94
|
17.8
|
27
|
5.1
|
1
|
0.2
|
2
|
0.4
|
29
|
تریپورہ
|
20
|
0.98
|
6.81
|
5
|
25.0
|
12
|
60.0
|
3
|
15.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
0
|
0.0
|
30
|
اتر پردیش
|
634
|
0.15
|
44.14
|
158
|
24.9
|
250
|
39.4
|
132
|
20.8
|
72
|
11.4
|
18
|
2.8
|
4
|
0.6
|
31
|
اترانچل
|
45
|
0.20
|
55.20
|
9
|
20.0
|
11
|
24.4
|
16
|
35.6
|
6
|
13.3
|
2
|
4.4
|
1
|
2.2
|
32
|
مغربی بنگال
|
774
|
0.40
|
30.49
|
102
|
13.2
|
309
|
39.9
|
216
|
27.9
|
109
|
14.1
|
38
|
4.9
|
0
|
0.0
|
کل
|
14577
|
GL*
|
121.55
|
3697
|
25.4
|
6095
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
*************
ش ح۔ س ب۔ رض
U. No.9013
(Release ID: 1953649)
Visitor Counter : 120