نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

نئی دہلی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے 25ویں جلسۂ تقسیم اسناد سے نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 25 AUG 2023 4:05PM by PIB Delhi

یہاں سب کو میرا سلام!

اس ادارے کو قائم ہوئے تین دہائی ہوئے ہیں اس دوران اس ادارے نے بہت زیادہ اور بہت اثر انگیز سفر طے کیا ہے۔ اور اب جب ہم امرت کال میں ہیں، تو یہ ادارہ غیر معمولی چھلانگ لگانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ مجھے 25ویں جلسۂ تقسیم اسناد کے موقعے پر یہاں آکر بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ اسناد حاصل کرنے والے تمام طلبا ، آپ کے والدین اور  آپ کے دوستوں کو مبارکباد۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ آپ کے لیے، آپ کے خاندان کے افراد کے لیے بے حد فخر کا لمحہ ہے اور آپ کے لیے ان اداروں کا  تعاون کرنے کا بہترین موقع ہے جہاں سے آپ بڑی دنیا میں قدم رکھنے جا رہے ہیں۔

ان اسناد کے آپ بہتر مستحق تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے اوپر  کچھ  اہم ذمہ یاں عائد ہوتی ہیں۔ آپ کی یہ ذمہ داریاں  دوگنی ہیں، ایک  خوشحالی کی خاطر - یہ مت سمجھئے کہ یہ سیکھنے کی انتہا ہے۔ بلکہ یہ سیکھنے کی شروعات ہے لیکن یہ سیکھنا ایک مختلف نوعیت کا ہے۔ اس لیے سیکھنے سے کبھی باز نہ آئیں۔ علم حاصل کرنے سے کبھی باز نہ آئیں۔ اور دوسری بات یہ کہ یہاں سے آپ کا سفر اس باوقار ادارے کے طلبہ کے طور پر نہیں بلکہ اس کے سابق طالب علم کے طور پر  شروع ہوتا ہے۔

میں ایک طویل عرصے سے سابق طلباء کی حیثیت پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں۔ یہ واقعی میرے لیے سوچنے کا ایک موزوں موقع ہے۔ ہمارے اداروں کے سابق طلباء ٹیلنٹ کا دنیا کا سب سے زیادہ اثر انگیز، طاقتور ذخیرہ ہیں، ہمیں اس ملک میں اسے فیڈریشن کی سطح پر تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

تمام اداروں،آپ کے انسٹی ٹیوٹ، آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور دیگر یونیورسٹیوں کے  پاس اپنے سابق طلباءہیں، لیکن اگر ان کے پاس سابق طلباء کا ایک قومی کنفیڈریشن موجود ہوں، تو پالیسی سازی کے کام میں شراکت انتہائی معیاری ہو سکتی ہے۔ اس سے  جدید معلومات فراہم  ہوگی اور ملک کی تبدیلی میں مدد مل  سکتی ہے۔

دوستو، میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ سماجی تبدیلیوں کو لانے کے لیے تعلیم ہی واحد سب سے موثر ذریعہ نیز مؤثر تبدیلی کا طریقہ کار ہے۔ اچھی تعلیم حاصل کرنا ایک اعزاز کی بات ہے، جس سے آپ سب نے فائدہ اٹھایا ہے۔ آپ کے لیے سوچنے، سمجھنے اور معاشرے کو واپس دینے کا وقت ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کریں گے۔

مجھے ہر ہندوستانی کی خوشی بانٹنے دیجیے اور آپ کے چیئرمین اس کی عکاسی کر رہے تھے۔ صحیح معنی میں وہ چاند پر تھے اور واقعی ایسا ہوا بھی۔ چندریان 3 کی کامیابی کو ایک مختلف تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ ایک، سافٹ لینڈنگ اتنی باریک بینی سے ہوئی، یہ پہلی بار ہوا کہ چاند کے قطب جنوبی پر سافٹ لینڈنگ کا یہ اعزاز کسی بھی ملک کو حاصل ہوا ہے۔ ہم بڑے چار ملکوں میں شامل  ہیں، اور کچھ ہی عرصے میں ہم پہلے نمبر پر ہوں گے۔

لیکن میں پرانی یادوں میں واپس چلا جاتا ہوں۔ میں 2019 میں چندریان-2 کی لینڈنگ کے وقت مغربی بنگال کا گورنر تھا، یہ آدھی رات کے بعد ہوا تھا۔ میں وہاں سائنس سٹی میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ  موجود تھا۔

ہم نے اپنی سانس روک لی۔ یہ 96 فیصد کامیابی تھی؛ 4 فیصد وہاں کامیابی نہیں ہوئی۔بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ متاثر کن عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ میں وہاں تھا ۔ ہم اسرو کے ساتھ اسکرین پر براہ راست رابطے میں تھے۔ تب ہی ملک کے وزیر اعظم نے ڈائریکٹر اسرو کو تھپکی دیتے ہوئے 96 فیصد کامیابی پر مبارکباد دی۔ وہ ڈائریکٹر کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑے تھے اور ہم اس ملک میں یہی صورتحال چاہتے ہیں۔ جس نے اس کامیابی کی بنیاد رکھی۔

ایک اور مثال میں پیش کرنا چاہتا ہوں، ہماری خواتین کی ہاکی ٹیم نے ٹوکیو میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لڑکیاں یہ نہ کر سکیں۔ وہ سب اداس تھے۔ وزیر اعظم ان میں سے ہر ایک سے بات کرتے ہیں۔ پھر وہاں ان کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن ان کے دماغ میں کامیابی کی خواہش تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں  بھارتی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔ ہم کیوں ہر بار دیکھیں ہمارا گلاس آدھا خالی ہے، ارے آدھا بھرا ہوا ہے، اوپر تک بھرے گا۔

ہمیں منفی سوچ کو ترک کرنا ہو گا۔ ہماری کامیابیاں شاندار اور  غیر معمولی ہیں۔ اس کو ذہن میں رکھیں۔ لیکن منظر نامے کا سب سے اہم اثر - سافٹ پاور ڈپلومیسی میں بھارت کا ابھرکر آنا  تھا، دنیا کے تمام چینلز، چاہے وہ مشرق وسطیٰ میں ہوں، یورپ میں ہوں یا امریکہ اس سافٹ لینڈنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔ ہر کوئی بھارتی وزیراعظم کو مبارکباد دے رہا تھا۔ یہ ہمارے لیے خوشی کا لمحہ تھا، فخر کا لمحہ تھا۔

5000 سال کی تہذیب ہے، دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، ہم میں سے کچھ لوگوں کو پتہ نہیں اپنے راستے سے کیوں ہٹ جاتے ہیں۔ یہ نوجوان اذہان کو دیکھنے کی بات ہے۔ بھارت 2047 میں کیا ہوگا جب وہ اپنی آزادی کے 100 سال مکمل ہونے کا جشن منائے گا۔ آپ اس دور کے گواہ ہوں گے۔ ڈائس پر بیٹھے ہم میں سے زیادہ تر لوگ نیز سینئر لوگ نہیں ہوں گے لیکن ہم اپنے خالق حقیقی سے اس اعتماد کے ساتھ ملیں گے کہ ہمارا بھرپور انسانی وسائل ہمارے لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں بہترین ہیں اور وہ 2047 میں ہندوستان کواعلی ترین مقام پر لے جائیں گے۔

ہم نے دیکھا کچھ سال پہلے ہندوستان کے پاسپورٹ کی کیا سطح تھی، ہندوستانی ہونے کا کیا مطلب تھا، حالات بدل گئے ہیں، جو سوچا نہیں تھا وہ زمینی حقیقت ہے۔

شاید ہی کوئی عالمی شہرت یافتہ کارپوریشن ہو جس میں ہندوستانی ذہن موجود نہ ہو۔ آپ کو ایک ہندوستانی باصلاحیت مل جائے گا جو اس تنظیم کے عروج میں حصہ ڈال رہا ہے۔

ہم جو سافٹ سفارت کاری کےپانچ اہم عناصر ہیں، ان کو اس حد تک لے گئے ہیں کہ آج بھارت کسی کا مہتاج نہیں ہے، دنیا میں بھارت بات کرتا ہے،  عالمی امن کی عالمی سطح پر حل کی اور دنیا ایک کنبے کی مانند ہے۔ ایک کرۂ ارض ایک کنبہ جی 20 کا موضوع ہے۔

میں 1989 میں پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوا، میں وزیر تھا۔ مجھے تب کے حالات کا علم تھا۔ اپنی مالی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے، ہمیں جسمانی شکل میں اپنا سونا جہاز کے ذریعے باہر بھیجنا پڑا۔ اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ ہندوستان سرمایہ کاری اور مواقع کے لیے دنیا میں روشن مقام ہے۔

ہم نے اپنے وقار کو بہتر کیا ہے، سافٹ پاور ڈپلومیسی کا ایک پہلو، ہم نے اپنی بات چیت کی سطح کو بہتر بنایا ہے، ہم مشترکہ خوشحالی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور آپ مشترکہ خوشحالی کیوں چاہتے ہیں میں آپ کو بتاؤں گا۔ 1.3 بلین سے زیادہ لوگ کووڈ وبائی مرض کا سامنا کر رہے تھے اور پھر بھی ہمارا بھارت کوویکسن  کے ساتھ 100 ممالک کی مدد کر رہا ہے۔ یہی ہماری ثقافت ہے۔ ہم دنیا کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے مسائل کو سنبھال رہے تھے اور دوسروں کا ہاتھ تھام کر شفا بخش ٹچ دے رہے تھے۔ ہم عالمی سلامتی کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے ثقافتی تعلق کو بہتر بناتے ہیں۔

میرے نوجوان دوستو ، جو ہمارے پاس نہیں تھا وہ آپ کے پاس ہے۔ متعدد حکومتی اقدامات اور مثبت پالیسیوں کے نتیجے میں اب آپ کے پاس ایک ماحولیاتی نظام ہے، جہاں آپ کو اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مکمل طور پر پھیلانے اور اس کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ اپنے خوابوں کو حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی خواہشات کے لیے حقیقت کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ایک یونی کورن اور اسٹارٹ اپس کا گھر ہے جنہوں نے پوری دنیا کو دنگ کر دیا ہے۔

جو بڑی تبدیلی آئی ہے اور جس کے بارے میں نوجوان شاید پوری طرح سے واقف نہ ہوں، یہاں کے سینئر لوگ پوری طرح باخبر ہوں گے، ہمارے پاور کوریڈور پاور بروکرز کی زد میں تھے۔ ان پاور کوریڈورز کو سینیٹائز کر دیا گیا ہے۔ پاور بروکرز کا ادارہ مر چکا ہے۔ یہ کبھی زندہ نہیں ہو سکتا۔ شفافیت اور احتساب گورننس کی پہچان ہیں۔

یہ سب ایک اچھی وجہ سے ہوسکا ہے۔ بدعنوانی کے لیے کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے کہتا ہوں، سوچیں، اگر کسی کے خلاف قانون شکنی، بدعنوانی یا جرم کا مقدمہ چلایا جائے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ شخص سڑکوں پر آئے یا آپ چاہتے ہیں کہ وہ عدالت میں جائے؟

آپ کےپاس سوچنے والے دماغ ہیں، آپ بھارت کے مستقبل ہیں۔ آپ کو بھارت کی رہنمائی کرنی ہے، اسے اعلیٰ سطح پر لے جانا ہے۔ اس کلچر کو ختم ہونا چاہیے۔ آپ کو اس کے لیے ماحول بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا ایسا ہی ایک موقع ہے۔

میں اس بات کو اجاگرکروں گا کہ ہمارا نظام انصاف بہت مضبوط ہے اور اعلیٰ سطح پر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پوری دنیا کو ہندوستانی نظام پر فخر ہے جو وہ فراہم کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں ہماری ایگزیکٹوبہتر کام امجام دےرہی ہے۔ ہمارے پاس سڑکیں ہیں، ریلوے ہیں، ٹیکنالوجی کی رسائی ہے، ہمارے پاس عالمی معیار کے ڈھانچے ہیں۔ لیکن جب مقننہ، آپ کے نمائندوں کی بات آتی ہے تو منظر مایوس کن ہوتا ہے۔ بطور چیئرمین، راجیہ سبھا، میں بحث، مکالمہ، مذاکرات نہیں دیکھتا ہوں۔ میں خلل دیکھتا ہوں۔

آپ کو ایک ایسا نظام بنانا ہوگا کہ آپ ان لوگوں کی تعریف کریں گے جو ڈیلیور کرتے ہیں، جو اپنے حلف کو درست ثابت کرتے ہیں، جو آئینی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ آپ چاہیں گے کہ آپ کا نمائندہ ایسے طرز عمل کی مثال پیش کرے جس کی تقلید کی جا سکے، جو دوسروں کو متاثر کر سکے۔ تین سال کے لیے بنائی گئی آئین ساز اسمبلی نے ہمیں آئین دیا، ایک بار بھی خلل نہیں پڑا۔ ایک بار بھی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی اور وہ بہت مشکل مسائل، تفرقہ انگیز مسائل، متنازعہ مسائل سے نمٹتے تھے۔ اب میں آپ کو یہ چیزیں کیوں بتا رہا ہوں، میں آپ کو بتا رہا ہوں کیونکہ آپ کے سوچنے کےعمل، آپ کے تعاون، آپ کےاپنے دماغ ، آپ کے غیر جانبدارانہ گیئر سے باہر نکلنے اورآپ کی خاموشی ترک کرنے سے فرق پڑے گا۔اگر وہ اپنے طرز عمل کی مثال نہیں دیتے تو ملک کے نوجوان خوش نہیں ہیں اور اس سے بہت فرق پڑے گا۔ آپ سپریم کورٹ کی حیثیت کے بارے میں جانتے ہیں، آپ خوش ہیں کہ جتنی بھی مشکل ہو، ہماری سپریم کورٹ قوم کے مفاد میں ڈیلیور کرتی ہے۔ وزیر اعظم کی قیادت میں ایگزیکٹو آپ کے لیے کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اوور ڈرائیو میں ہے۔ مقننہ کیوں ناکام ہو؟ اس کا آپ نوٹس لیں۔

دوستو، ہمارا تعلق اس دور سے ہے، جب گاؤں میں بجلی نہیں تھی، سڑکیں نہیں تھیں، نلکے میں پانی لانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، بیت الخلاء کا بہت دباؤ تھا، ہم پیدل ہی جاتے تھے۔ گائوں میں غلطی سے گاڑی آ جائے تو لوگ بہت باتیں کرتے تھے، بتاتے تھے کہ گاؤں میں گاڑی آئی ہے۔ جب وکالت کی بات آئی تو نہ انٹرنیٹ تھا، نہ سوشل میڈیا، نہ اس طرح کے کمپیوٹر اور دستی ٹائپ رائٹر۔ ہم کہاں آگئے! ملک میں تکنیکی رسائی گاؤں تک جا پہنچی ہے۔ ہمارے لیے یہ فخر کا لمحہ ہے۔

اس ملک کے11 کروڑ کسان سال میں تین بار اور اب تک 240000 کروڑ روپئے براہ راست اپنے بینک میں حاصل کر چکےہیں۔ میں ڈیلیوری میں نہیں ہوں۔ جب میں آپ کو عالمی اعدادوشمار پر لے جاتا ہوں، 2022 میں، عالمی ڈیجیٹل لین دین کا 46 فیصد ہندوستان میں ہواتھا۔ لڑکے اور لڑکیاں براہ کرم نوٹ کریں، ہمارے لین دین، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے لین دین سے چار گنا زیادہ ہیں۔

ہم ہندوستانیوں کا دماغ کچھ عجیب ہے، ہم سیکھتے ہیں چاہے کوئی ہمیں نہ سکھائے، ہم سب میں ایکلویہ کا ایک حصہ ہے، بغیر پڑھے بھی ہم سیکھیں گے، یہ انٹرنیٹ پر فی کس ڈیٹا کی کھپت کا نتیجہ ہے، ہمارا انٹرنیٹ پر فی کس ڈیٹا کی کھپت امریکہ ہو یا چین دونوںسے زیادہ ہے یہاں تک کہ اگر ہم اسے یکجا کردیں تب بھی زیادہ ہے۔ اب ایسی حالت میں سر کو اونچا رکھنا چاہیے۔ ہمیں فخروالا ہندوستانی ہونا چاہئے، اپنے تاریخی واقعہ، بے مثال کامیابیوں پر فخر کرنا چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ قوم کو پہلے رکھنا ہے۔ یہ اختیاری نہیں ہے۔ یہ واحد راستہ ہے۔ اور ہمیں یہ کرنا چاہیے۔

دوستو، میں ستمبر 2022 کا وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا، جب ہندوستانی معیشت نے پھر کوانٹم جمپ لیا اور ہم پانچویں نمبر پر آگئے۔ اس طرح ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی عالمی معیشت بن گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ ایک اہم  سنگ میل حاصل کرنے کا کارنامہ۔ کہا جاتا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جنہوں نے ہم پر سینکڑوں سال حکومت کی تھی۔ یہ مجھ سے لے لو، اور دنیا کا کوئی ماہر معاشیات اس سے متفق نہیں ہے کہ دہائی کے آخر تک، ہمارا ملک دنیا کی تیسری سب سے بڑی عالمی معیشت ہو گا... دہائی کے آخر تک ہمارا بھارت دنیا  بھرکی تیسری سب سے بڑی معیشت ہو جائے گا۔

دوستو، چونکہ آپ نظم و نسق کے ایک خاص شعبے کے ساتھ ہیں، اس لیے یہ آپ کے لیے اہم ہے کہ نظام کس طرح سنتا ہے، یہ آپ کے لیے اہم ہے کہ وہ فیصلے کیسے کرتا ہے؟ کیا فیصلے شفاف ہیں؟ کیا وہ جوابدہ ہیں؟ کیا ان کی حکمرانی میں آسانی ہے؟ جب میں ریاست مغربی بنگال کا گورنر تھا تو میں 10 گورنروں کے گروپ کی سربراہی کر رہا تھا اور ہمارا کام حکومت کی آسانی کے بارے میں رپورٹ دینا تھا۔ لہٰذا قانون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مجھے اس میں مینجمنٹ بھی پڑھنی تھی، یہ سب آپ لوگوں کا کام ہے۔ آپ اپنے دن کے ساتھ دن رات نمٹتے ہیں۔ جو لوگ بزنس، ٹریڈ انڈسٹری مینجمنٹ میں ہیں، یہ ان کا کام ہے، جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا غیر ملکی جوائنٹ وینچر کیوں نہیں ہو سکا۔

دوستو، اگر میں اس وقت ہندوستانی اقتصادی منظر نامے کو بیان کرتا ہوں، تو اس میں مضبوط بنیادیں اور لچکدار فریم ورک ہے، مسابقت میں اضافہ، شفافیت میں اضافہ، ڈیجیٹلائزیشن کو بڑھانا اور اختراعات کو فروغ دینا ہے۔ اس نے ہندوستان کی ترقی کو ممکن بنایا ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی رفتار کو تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ اور یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ حقیقت  ہیں۔

آپ میں سے جولوگ گاؤں کے ہیں، آج کل گاؤں کے اندر کسی کی بھی ٹکٹ ہو رام سنگھ کا بیٹا کر دے گا ۔ پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنا شیام سنگھ کا پوتا کر دے گا۔ آپ کو کوئی فارم بھرنا ہے تو فوراً کر دے گا۔ ہمارے گاؤں اب واقعی اسمارٹ گاؤں بن چکے ہیں۔

حکومت کو دیکھئے، اسے امنگوں والے اضلاع اور اسمارٹ شہروں کا تصور ملا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ امنگوں والے اضلاع اور اسمارٹ شہروں کا حکومتی تصور کیا ہے، آپ سمجھ جائیں گے کہ اسمارٹ سٹی کا کیا مطلب ہے، آپ کسی بھی تیسرے درجے کے شہر میں جائیں گے ،  آپ کا انٹرنیٹ موثر طریقے سے کام کرے گا، آپ گھر بیٹھے کام کر سکیں گے۔ تو آپ کہیں گے کہ یہ ایک اسمارٹ سٹی ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسمارٹ سٹی کے تصور کو فزیکل سمارٹنس کے ساتھ دیکھتے ہیں، ایسا نہیں ہے، امنگوں والے اضلاع کا بھی یہی حال ہے۔ اس ملک میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

میری ہر ایک سے اپیل ہے کہ ہم سب کو معاشی قوم پرستی کے تصور کو سبسکرائب کرنا چاہیے۔ ہمیں وہ چیزیں پسند نہیں ہیں جو ملک میں بنیں، کسی فائدے کے لیے ہم باہر سے خریدتے ہیں، دیوالی کے لیے ہم چراغاں خریدتے ہیں، ہم موم بتیاں خریدتے ہیں، ہم پتنگیں خریدتے ہیں، ہم فرنیچر خریدتے ہیں، اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ مالیاتی فائدے کے لیے ہم ملک  کے معاشی مفادات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ جس صنعت میں آپ جائیں گے، کاروبار اور تجارت، اس کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اپنے خام مال کی قدر میں اضافہ کریں۔ ہم اپنے خام مال کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ وہ اپنا ذریعہ کسی اور کے لیے چھوڑ دیں تاکہ ان سے رقم کمائی جائے، ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔

نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، ایک نیا رجحان شروع ہوا ہے کہ میں چار کاریں رکھوں گا کیونکہ میں ان کا خرچہ برداشت کر سکتا ہوں۔ میں جتنا چاہوں پانی استعمال کروں گا۔ میں جتنا چاہوں توانائی استعمال کروں گا۔ اب ہم قدرتی وسائل کے امین اور محافظ  ہیں۔ قدرتی وسائل کا استعمال میری جیب کی طاقت پر منحصر نہیں ہو سکتا۔ ہم سب کو اپنے قدرتی وسائل کا بہترین استعمال کرنا ہے۔ قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال قومی مفاد کی سرگرمی نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کے لیے ایک کلچر تیار کرنا ہے۔ ایک بار جب آپ اسے تیار کر لیں تو آپ سمجھ جائیں گے اور آپ کے علاوہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں کر سکتا۔ یہاں موجود آپ میں سے ہر ایک اعصابی مرکز ہے، مثبت تبدیلی کا مرکز ہے۔

آپ کو پرکھنا ہے جو بھارت کی ترقی ہو رہی ہے اس میں نیوٹن کا تیسرا اصول شامل ہے۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ تمام بھارت مخالف طاقتیں، ان کی بھارت کی ترقی کی بھوک ملک اور باہر بہت کمزور ہے، ان کا ہاضمہ خراب ہو چکا ہے، وہ دن رات سوچتے ہیں کہ بھارت کی ترقی کو کیسے سیاہ کیا جائے۔ غیر ضروری ایشوز اٹھانا، بے لگام باتیں کرنا، اپنے اداروں پر تبصرہ کرنا،  ارے کھڑکی کھولو... تبدیلی کی ہوائیں چلنے دو۔ اور دیکھو ہم کہاں ہیں، ہمارے آس پڑوس کا کیا حال ہے، پوری دنیا جھکی ہوئی ہے اور پھر بھی ہم میں سے کچھ لوگ پریشان ہیں۔ سیاست کو ہندوستان کی ترقی سے کبھی نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ جو لوگ سیاست کے میدان میں ہیں، ان کو سیاست کرنے کا پورا حق ہے۔ انہیں اپنی سیاست کرنے دیجیے لیکن جب قومی ترقی، قومی مسائل کی بات ہو تو ہمیں سیاست سے اوپر اٹھنا چاہیے۔

قومی تعلیمی پالیوی... تین دہائیوں کے وسیع غور و خوض کے بعد قومی تعلیمی پالیسی بنی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اسے نافذ نہیں کریں گے، یہ کسی سیاسی پارٹی کی پالیسی نہیں ہے، یہ بھارت کی پالیسی ہے،سوچ سمجھ کر بنائی گئی ہے، کیوں بنائی گئی ہے، ہمیں یاد آتا ہے کہ نالندہ یونیورسٹی تھی ، تکشیلا یونیورسٹی تھی،  اعلیٰ ترین سطح پر پہنچنا ہے اس لیے بنائی گئی ہے۔ ڈگری تو بہت لوگوں کو مینجمنٹ اسکول میں ملتی ہے، لیکن آپ کے یہاں جس کو میں نے ڈگری دی، میڈل دیا، کوئی ڈیلائٹ میں جا رہا ہے کوئی ارنسٹ اینڈ ینگ میں جا رہا ہے،  آپ لوگوں کا جو لگاؤ ہے فکی کے ساتھ،  ایسوچیم کے ساتھ ، میں بہت خوشی تھا کیونکہ ایک لڑکا اور لڑکی اس ادارے سے باہر نکلتے ہیں اور سب سے پہلے اس کے ہاتھ بھرے ہوتے ہیں۔

میں سوامی وویکانند کے لازوال منتر کا حوالہ دے کر اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں:

‘‘اٹھو، جاگو اور اس وقت تک  نہ رکو جب تک کہ مقصد حاصل نہ ہو جائے۔’’

2047 میں بھارت - تقدیر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو بھارت میں یقین رکھتے ہیں اور ہمارے بھارت ہمیشہ  فخر دلائیں گے۔

آپ کا بہت بہت شکریہ!

*********

ش ح۔ م ع ۔  ت ح

U No.: 8830



(Release ID: 1952214) Visitor Counter : 116


Read this release in: English