خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت

​​​​​​​بچوں کی شادیاں

Posted On: 11 AUG 2023 4:33PM by PIB Delhi

جرائم کے ریکارڈ کی قومی بیورو (این سی آر بی)، اپنی اشاعت ‘ہندوستان میں جرائم’ میں ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون 2006 (پی سی ایم اے)’ کے تحت درج بچوں کی شادی کے کیسوں کی تعداد کے اعداد و شمار کو مرتب کرتی اور شائع کرتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ، سال 2021 تک کے لیے دستیاب ہے ۔ این سی آر بی کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں یعنی 2017، 2018، 2019، 2020، 2021 کے دوران ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون 2006 (پی سی ایم اے)’ کے تحت درج مقدمات کی تعداد، بالترتیب 395، 501، 523، 785 اور 1050 رہی ہے۔ تاہم، کیسز کی زیادہ رپورٹنگ، ضروری نہیں کہ بچوں کی شادیوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق ہو، بلکہ یہ حکومت کے اقدامات اور ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ قانون کے بہتر نفاذ کی وجہ سے، ایسے واقعات کی اطلاع دینے کے لیے شہریوں کے مابین بیداری میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ پی سی ایم اے 2006 کے تحت درج ، بچوں کی شادی کی ریاست وار تفصیلات ضمیمہ میں دی گئی ہیں۔

حکومت نے بچوں کی شادیوں کی روک تھام اور بچوں کی شادیوں سے منسلک افراد کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے کے لیے، ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون 2006 (پی سی ایم اے)’ نافذ کیا ہے۔ ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون (پی سی ایم اے)’ کی دفعہ 16، ریاستی حکومت کو پوری ریاست کے لیے، یا وہاں کے ایسے حصے کے لیے، جس کی وضاحت کی جا سکتی ہے، ایک افسر یا افسر ان کو ‘بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق افسران (سی ایم پی او)’ کے نام سے معمور کرنے کا اختیار دیتا ہےجن کا نوٹیفکیشن میں بیان کردہ علاقے یا علاقوں پر دائرہ اختیار ہوگا۔ یہ دفعہ، سی ایم پی اوز کے ذریعے انجام پانے والے کاموں کی بھی وضاحت کرتا ہے، جس میں ایسی کارروائی کرکے بچوں کی شادیوں کو روکنا بھی شامل ہے جو وہ مناسب سمجھیں۔ قانون کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف موثر قانونی چارہ جوئی کے لیے ثبوت جمع کرنے کی غرض سے، افراد کو مشورہ دینا یا محلے کے رہائشیوں کو مشورہ دینا کہ وہ بچپن کی شادیوں کو فروغ دینے، مدد کرنے، سہارا دینے یا اس کی اجازت دینے میں ملوث نہ ہوں؛ بچوں کی شادیوں کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا؛ اور بچپن کی شادیوں کے معاملے پر کمیونٹی کو حساس بنانا؛ یہ اتھارٹیز، متعلقہ ریاستی حکومتوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کےانتظامیہ کے تحت کام کرتی ہیں۔ اس طرح، قانون کی دفعات کا نفاذ ان کے ذمہ ہے۔

‘پولیس’ اور ‘پبلک آرڈر’ ہندوستان کے آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت ریاستی مضامین ہیں۔ بچپن کی شادیوں پر پابندی سمیت امن و امان برقرار رکھنے، شہریوں کے جان و مال کا تحفظ، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کی ذمہ داریاں، متعلقہ ریاستی حکومتوں کے پاس ہے۔ ریاستی حکومتیں قوانین کی موجودہ دفعات کے تحت اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے لیے مجاز ہیں۔

اس کے باوجود، مرکزی حکومت اس عمل کے برے اثرات کو اجاگر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً بیداری مہم، میڈیا مہمات اور پیش رسائی کے پروگرام چلاتی ہے اور ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مشورے جاری کرتی ہے۔ وزارت نے تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو سی ایم پی اوز کی تعداد بڑھانے کے لیے بھی لکھا ہے، کیونکہ مقامی سطحوں پر قانونی افسر کی موجودگی کے نتیجے میں، اس موضوع پر اور زیادہ موثر عوامی مشغولیت اور بچپن کی شادی کی روک تھام ہوگی۔ مزید برآں، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت امبریلا اسکیم ‘مشن شکتی’ کے تحت بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ (بی بی بی پی) جزو کو نافذ کرتی ہے، جس میں صنفی مساوات سے متعلق معاملات پر بیداری پیدا کرنا اور کم عمری کی شادی کی حوصلہ شکنی، ایک اہم توجہ کا مرکز ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کا قومی کمیشن (این سی پی سی آر)، اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً آگاہی پروگرام اور متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت ہند نے شارٹ کوڈ 1098 کے ساتھ چائلڈ لائن متعارف کرائی ہے، جو بحران میں گھرے بچوں کے لیے ایک ساتوں دن 24 گھنٹے ٹیلی فون ایمرجنسی پیش رسائی کی سروس ہے جو کسی بھی قسم کی مدد کے لیے مناسب مداخلت کے ساتھ جواب دیتی ہے، جس میں پولیس، بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق افسران (سی ایم پی اوز)، اور بچوں کے تحفظ سے متعلق ضلع یونٹس وغیرہ کے ساتھ تال میل سے بچوں کی شادیوں کی روک تھام بھی شامل ہے۔

ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ معاشرے کے کچھ طبقے، رسم و رواج اور/یا مذہبی عقائد وغیرہ کے نام پر بچپن کی شادیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض کیسز میں معزز عدالتوں میں عذرداریاں بھی دائر کی گئی ہیں۔ پرسنل لاز کے تحت، ان بنیادوں پر نابالغ لڑکی کی شادی کے جواز کو برقرار رکھنے کا قانون، حکومت نے 21دسمبر2021 کو پارلیمنٹ میں بچوں کی شادی کی ممانعت (ترمیمی) بل، 2021 کے نام سے ایک بل پیش کیا ہے تاکہ خواتین کی شادی کی عمر 21 سال تک بڑھا کر اسے مردوں کے برابر بنایا جا سکے۔ مجوزہ بل میں فریقین کی شادی کی عمر سے متعلق قانون سازی میں نتیجہ خیز ترامیم کرنے کی بھی دفعات ہیں، جیسے کہ ‘دی انڈین کرسچن میرج ایکٹ 1872’، ‘دی پارسی میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ 1936’، 'دی۔ مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ 1937، 'دی اسپیشل میرج ایکٹ، 1954'، 'دی ہندو میرج ایکٹ 1955'، اور 'دی فارن میرج ایکٹ 1969'۔ اس کے بعد سے یہ بل محکمہ تعلیم، خواتین، بچوں، نوجوانوں اور کھیلوں سے متعلق پارلیمانی قائمہ کمیٹی کو جانچ کے لیے بھیجا گیا ہے۔

مزید برآں، پی سی ایم اے کے نفاذ کے بعد سے، 2006 میں بچپن کی شادی کے معاملات 47 فیصد سے نصف کم ہو کر 21-2019 (این ایف ایچ ایس -5) کے دوران 23.3 فیصد رہ گیے ہیں۔ تاہم، آندھرا پردیش، آسام، بہار، جھارکھنڈ، راجستھان، تلنگانہ، تریپورہ اور مغربی بنگال جیسی چند ریاستوں میں این ایف ایچ ایس - 5 کے مطابق قومی اوسط سے کم عمری کی شادی کی شرح زیادہ ہے۔

ملحقہ

پچھلے پانچ سالوں یعنی 2017، 2018، 2019، 2020 اور 2021 کے دوران پی سی ایم اے 2006 کے تحت درج بچوں کی شادی کی ریاستی تفصیلات۔ 

 

 

نمبر شمار

ریاست / مرکز کے زیر انتظام علاقے

2017

2018

2019

2020

2021

سی آر

سی آر

سی آر

سی آر

سی آر

1

آندھرا پردیش

15

14

4

32

19

2

اروناچل پردیش

0

0

0

0

0

3

آسام

58

88

115

138

155

4

بہار

17

35

8

5

11

5

چھتیس گڑھ

1

2

0

1

0

6

گوا

0

0

0

0

0

7

گجرات

6

8

20

15

12

8

ہریانہ

18

21

20

33

33

9

ہماچل پردیش

5

9

4

5

5

10

جھارکھنڈ

1

7

3

3

4

11

کرناٹک

65

73

111

184

273

12

کیرالہ

15

18

7

8

12

13

مدھیہ پردیش

5

3

4

5

4

14

مہاراشٹر

20

13

20

50

82

15

منی پور

0

0

0

0

2

16

میگھالیہ

0

0

0

0

0

17

میزورم

0

0

0

0

0

18

ناگالینڈ

0

0

0

0

0

19

اڈیشہ

17

22

22

24

64

20

پنجاب

8

6

6

13

8

21

راجستھان

6

11

19

3

11

22

سکم

0

0

0

0

0

23

تمل ناڈو

55

67

46

77

169

24

تلنگانہ

25

24

35

60

57

25

تریپورہ

1

1

0

4

1

26

اتر پردیش

4

4

4

12

6

27

اترا کھنڈ

1

2

2

9

12

28

مغربی بنگال

49

70

68

98

105

 

ریاستی میزان

392

498

518

779

1045

29

انڈمان و نکوبار جزائر

0

0

0

0

0

30

چنڈی گڑھ

2

2

1

1

0

31

دادرا و نگر حویلی اور دمن و دیو +

0

0

1

0

0

32

دہلی

1

1

2

4

2

33

جموں و کشمیر*

0

0

1

1

2

34

لداخ

     

0

0

35

لکشدویپ

0

0

0

0

0

36

پڈوچیری

0

0

0

0

1

 

مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا میزان

3

3

5

6

5

 

میزان (کل ہند)

395

501

523

785

1050

 

ماخذ: ہندوستان میں جرائم

یہ معلومات خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب فراہم کیں۔

*************************

ش ح۔ا ع۔ت ح

U- 8248



(Release ID: 1947842) Visitor Counter : 196


Read this release in: English