نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

جموں یونیورسٹی کے تقسیم اسناد كےخصوصی جلسے میں نائب صدر کی تقریر کا متن

Posted On: 22 JUN 2023 6:50PM by PIB Delhi

آپ سب کو میرا سلام، مجھے اپنے دل كی كیفیت بتانے دیں، میں ولولے، تواناءی، حوصلے، تحریك اور امید سے بھرا ہوں،  جو یقینی طور پر بنیادی حقیقت كے حق میں نتیجہ خیز ہوگی

مجھے ہندوستان کے نائب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جموں کے اس غیر معمولی خطے کا اپنا پہلا دورہ کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ میں اسے اپنی زندگی میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ چندر بھاگا ندی، افق پر محیط شاندار شیوالک سلسلہ اور شہر كا نظارہ كرتا ماتا ویشنو دیوی کا مقدس مسکن  ایک سحر انگیز ماحول پیدا کرتا ہے جو واقعی غیر معمولی اور جذباتی ہے۔ لیکن مجھے یہ کہنے دیں کہ یہاں آکر مجھے جوذہانت حاصل ہوءی ہے وہ مجھے تدیر جسمانی طور پر فعال ركھے گی۔

معروف جموں یونیورسٹی کے اس خصوصی کانووکیشن سے وابستہ ہونا ایک اعزاز ہے جس نے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے تندہی سے فضیلت کو فروغ دیا ہے۔ مجھے اندھیرے سے روشنی کی طرف لے جاؤ کے گہرے نصب العین سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے یہ ادارہ نہ صرف شاندار پیشہ ور افراد بننے کی کوشش كی شاندار یاد دلاتا ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہمدردی اور مہربانی کی علامت بھی ہے۔ آج عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے جو منتر دیا گیا ہے وہ چشم كُشا، اختراعی اور فكر انگیز ہے۔

مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں 1989 میں ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوا كرتا تھا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں وی سی آر یا وی سی ڈی کے بغیر  کوئی بھی شادی مکمل نہیں ہوتی تھی۔ کہاں گئے وہ دن؟ غائب ہو گءے! 90 کی دہائی کے آخر تک ہم نے ٹیلی فون بوتھ کا جشن مناتے تھے۔ وہ عجائبات پیدا کر رہے تھے۔ وہ کہاں گئے؟ عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر نے درست طور پر یہ باتیں كہیں۔  میں اسی زمانے کی پیداوار ہوں جب نہ انٹرنیٹ تھا، نہ موبائل، نہ کمپیوٹر۔ ہمیں ٹائپ رائٹر پر منحصر رہنا پڑتا تھا اور اگر کوئی لفظ غلط (ٹاءپ ہو جاءے) تو وائٹنر کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ اور آج ہم کہاں آگئے؟

ایک پیشہ ور کے طور پر میں اس بات پر فخر كیا کرتا تھا کہ میرے پاس ایک لائبریری ہے جو شروع سے ہی كتابوں سے بھری تھی۔ وہ غائب ہو گءی۔ اسی لیے انہوں نے 2047 کے سورماوں کو بجا طور پر اشارہ دیا ہے کہ تیار رہیں، روایت سے ہٹ كر سوچیں، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کی تخلیقی صلاحیتوں، جدت طرازی اور سمت بند اطلاق سے راستہ ملے گا۔ عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر مصنوعی ذہانت کی ترجمانی کر رہے تھے۔ انسانیت کے ہاتھ میں اس عظیم طاقت كو ابھی اپنے عروج کو پہنچنا ہے۔ اس كا ابھی پوری حد تک کھُلنا باقی ہے۔ لیکن اسی كے ساتھ چاروں طرف سے آوازیں آرہی ہیں كہ اسے کنٹرول كیا جاءے، منضبط كیا جاءے كیونكہ آپ نہیں جانتے کہ اس کا معاشرے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اُن کا خطاب میرے نزدیك  آپ کی زندگی میں ایک اہم موڑ کی حیثیت ركھتا ہے، ان کا خطاب آپ کو حیرانی اور فكر سے ہمكنار كرتا رہے گا تاکہ آپ باہر کی دنیا میں کھلی آنکھوں کے ساتھ داخل ہوں، دماغ فعال رہے اور بڑی تبدیلی كا سامنا كرنے کے لیے آپ ہمیشہ تیار رہیں۔

دوستو، یہ یونیورسٹی توی ندی کے دوسری كنارے پر کینال روڈ پر واقع اپنے چھوٹے سے غیر منظم کیمپس سے اپنے موجودہ سرسبز و شاداب ماحول تک کافی فاصلہ طے کر چکی ہے۔

میں اس بڑی انقلاب آفرینی کے لیے چانسلر اور عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وائس چانسلر پروفیسر امیش رائے کو بھی مبارکباد دیتا ہوں، مجھے یہاں قومی تعلیمی پالیسی پر انتہائی مستند عمل کی مثال ملتی ہے۔ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے۔ فاضل واءس چانسلر كی ہی وجہ سے  مختلف اقدامات كءے گءے ہیں جو وقت کی تنگی کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکے۔ میں ان میں سے کچھ كی لوگوں کی نشاندہی کروں گا جن سے میں بہت متاثر ہوا ہوں اور ضرورت ہے كہ انہیں قومی اہمیت دی جاءے۔ میں مقامی زبان اور ثقافت پر جموں یونیورسٹی کی طرف سے متصور فکری توجہ کی بہت ستاءش کرتا ہوں۔ ڈوگری کو فروغ دینے کا اس کا اقدام دور اندیش اور دوسروں کے لیے لاءقِ تقلید ہے۔

ہم اپنی ثقافتی زبانوں سے مالال مال ملک ہیں۔ ہمیں اپنی زبانوں کی پرورش کرنی ہے۔ ہمیں نہ صرف انہیں محفوظ کرنا ہے بلكہ انہیں فعال بھی بنانا ہے۔ اس لیے مجھے بہت خوشی ہے کہ ہماری مقامی زبانوں اور ثقافت کے تحفظ اور ترویج كے لیے اس یونیورسٹی كی طرف سے اٹھایا جانے والا  قدم دوسروں کے لیے رہنماءی کرے گا۔ ایک اور اہم چیز جس نے ابھی مجھے متاثر كیا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی آئین ایک دستاویز ہے جو ہمیں راستہ دكھاتا ہے اور ہمیں کنٹرول کرتا ہے۔ ہندوستانی آئین ایک دستاویز ہے جو مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کا خیال رکھتا ہے۔ اس دستاویز کو دوسری زبانوں سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے میں یونیورسٹی کو ہندوستان کے آئین کا ڈوگری میں ترجمہ کرنے کی کوشش كرنے اور دس روزہ ملٹی آرٹس فیسٹیول "ڈگر درپن" کے انعقاد کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ انتہاءی معنی خیز اور مناسب اقدامات ہیں۔

ریاست مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے مجھے نو ریاستوں پر محیط مشرقی زون ثقافتی مرکز کا چیئرمین بننے کا موقع ملا۔ میں اس کی اہمیت کو جانتا ہوں۔ یہ دلوں کو مربوط كرتا ہے اور اس کے نتیجے میں حقیقی صلاحیتیں استعمال میں آتی ہیں۔ میری تمنا ہے كہ یہ پروگرام  کامیاب ہوں۔ میں وائس چانسلر كی اس بات كو دہرانا چاہوں گا  کہ محترم وزیر اعظم ایک وژنری ہیں۔ وہ كام انجام دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے كہ یونیورسٹی نے "لینڈ ٹو لیب" اور "لیب ٹو لینڈ" کی پكار سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے بھی اس کی پیروی کریں گے۔ بطور چیئرمین راجیہ سبھا بھی میں اپنے لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے لیے گہری فکر مند رہا ہوں۔

ہمارا ملک متحرک ہے۔ یہ اپنے لوگوں، ثقافت، زبانوں اور نقطہ نظر کی دولت کی وجہ سے كثرت میں اتحاد رکھتا ہے۔

اس لیے آپ کا پروگرام 'کالج آن وہیلز' حیرت انگیز کام کرے گا اور نتائج جیومیٹرک ہوں گے۔ یہ طلباء کو زندگی بھر کا تجربہ اور ایكسپوزر فراہم کرے گا۔

کہتے ہیں خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟

اس یونیورسٹی نے  'ڈیزائن یور ڈگری' كے رُخ پر صحیح قدم اٹھایا ہے۔ یہ آپ کی زندگی ہے، آپ کی زندگی کا سفر ہے اور آپ اسے رُخ دینے کے قابل ہیں۔ یہ سوچ عام ڈگر سے ہٹ كر ہے، یہ سوچ مثبت معنوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلے گی جس میں کوئی تباہی نہیں ہوگی بلکہ صرف تعمیر اور تعمیر نو ہوگی۔ یہ اختراعی اقدام ہے جو بہت اثر انگیز ہونے جا رہا ہے۔ یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک بہت ہی باوقار مفاہمت نامے (ایم او یو) پر دستخط كءے ہیں جن میں سے ایک قابل ذکر مفاہمت گلمرگ کے ہائی ایلٹیٹیوڈ وارفیئر اسکول آف آرمی کے ساتھ  ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نظم و ضبط میں كی گءی ہے۔ ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے فن میں کمال حاصل کیا ہے۔ آپ نے مشرقی اور مغربی ساحل پر اکثر دیکھا ہوگا، ہمارے یہاں طوفان آتے ہیں لیکن سمندروں پر شاید ہی کوئی اموات ہوتی ہیں۔ محکمہِ موسمیات کی تکنیکی معاونت دنیا بھر کے لیے باعث رشک ہے اور یہ مفاہمت نامہ ایک انسانی وسیلہ سامنے لاءے گا جو ہمیں كامیابی كے ایک طویل سفر پر لے جاءے گا۔ اس لیے میں چانسلر، لیفٹیننٹ گورنر جموں و کشمیر کی اجازت سے یہ اعلان کر رہا ہوں کہ  انڈین کونسل برائے عالمی امور جولائی کے آخر تک جموں یونیورسٹی کے ساتھ ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرے گی۔ انڈین کونسل فار ورلڈ افیئر کی ڈائرکٹر كو جو ایک بہت ہی سینئر فارن سروس آفیسر ہیں جب میں نے یہ آءیڈیا دیا تو وہ بے حد خوش ہوءیں كہ اس سے یونیورسٹی کو عالمی سطح پر ثقافتی تعلیم اور خارجہ امور میں سامنے آنے كا موقع ملے گا

تقسیم اسناد کی تقریب کسی کی زندگی میں ایک جادوئی اور اہم لمحہ رکھتی ہے جو آپ میں سے ہر ایک کو طالب علم سے لے کر جموں یونیورسٹی کے ممتاز سابق طلباء میں تبدیل کرتی ہے۔ میں ایوارڈ حاصل کرنے والوں ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ عمل كی دنیا میں قدم رکھنے كے ساتھ آپ کو ایک نقش چھوڑنا پڑے گا اور آپ اُس عہد كے ساتھ معاشرے میں واپس آئیں گے جو آپ کر سکتے ہیں، آپ اپنے اساتذہ کے پاس واپس جائیں گے اور آپ اپنے الما میٹر کی ترقی کی رفتار میں اپنا كردار ادا كرتے رہیں گے۔ اس سے آپ کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

دوستو! خوش قسمتی سے آپ کے لیے، پچھلے کچھ برسوں میں ایک ایسا ماحولیاتی نظام سامنے آیا ہے جو نوجوانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی توانائی کو مکمل طور پربروءے كار لا سکیں۔ یہ حکومتی اقدامات کے ایك سلسلے كے ذریعہ کیا گیا ہے۔ میں آپ سے اپیل کروں گا کہ کبھی بھی تناؤ یا كشیدگی کا شکار نہ ہوں، اپنے ذہن کو اپنے خیالات کے لیے صرف جمع ہونے کی جگہ نہ بننے دیں اور صرف ناکامی کے خوف سے کسی آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ ناکامی کا خوف صرف آپ کے ذہن میں ہوتا ہے دوسروں کے ساتھ نہیں۔ اگر پہلی بار کوشش کامیاب نہیں ہوتی ہے تو یہ ناکامی نہیں بلکہ ایک کوشش ہے۔ پہلی کوشش میں کوئی بھی تاریخی سنگ میل حاصل نہیں کیا گیا، کوشش کرتے رہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا مستقبل بے پناہ ترقی اور لازوال کامیابیوں سے آراستہ ہوگا۔

ہندوستان کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اب آپ سب سے اہم ذمہ دار ہیں۔ آپ بہت اہم خالق ہیں، آپ کو ان دنوں کسی خاندان یا نسب سے تعلق رکھنے یا شراکت میں اثر انداز ہونے کے لیے جانشینی کے طریقہ کار کا حصہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بات اسٹارٹ اپس، یونیكورن کی آتی ہے، تو آپ نے اپنی قابلیت اور عزم کی وجہ سے چین اور امریکہ دونوں کواپنے پیچھے پاتے ہیں، اسے جاری رکھیں!

ملک کے اس حصے میں، میں لیفٹیننٹ گورنر کو ان کی انتھک کوششوں اور صرف تعلیم کے میدان میں نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی کامیاب کوششوں پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

اب ہمارے پاس ایک ہم آہنگی کا ماحول ہے جو کبھی نہیں تھا۔یہ عظیم ترین مشنری اور سب سے کم عمر وائس چانسلر ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کو سب سے بڑا خراج عقیدت ہے جنہوں نے ایک مضبوط متحدہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے اپنی جان قربان کی۔ کل 23 جون، ڈاکٹر شیاما پرساد جی کا یوم شہادت ہے۔ اس دن 23 جون 1953 کو سرینگر جیل میں قیدی کے طور پر ان کا انتقال ہوا۔ یہ ایك ناقابل فراموش سانحہ تھا۔ لکھن پور میں گرفتاری کے چند ہی دنوں میں اس کی موت ہو گئی تھی۔ کیوں؟ اس لءے كہ انہوں نے چیلنج کیا تھا کہ ہندوستان ایک ملک ہے اور میں اپنے ملک میں پابندی کیوں برداشت کروں؟ ان لوگوں نے آئین پرستی کی حقیقی روح میں مہم جوئی کی اور انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑی بات ہے۔ تاخیر سے سہی ہم نے ان کا خواب پورا کردیا ہے۔ اب ہندوستانی اپنے ملک میں اور اِس حصے میں بھی آزادانہ سفر کر سکتے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر کے کام کاج کو کیا خراج تحسین پیش كیاجاءے ان کی کامیابیوں كو تو پوری دنیا  دیکھ رہی تھی۔ جب جی-20 کے رہنما یہاں آئے تو انہوں نے ہر لمحے كا لطف اٹھایا۔ دنیا اس سے خوب محظوظ ہوءی، یہ ہم سب کے لیے فخر کا لمحہ تھا۔

میں ذاتی طور پر بیس سال سے آرٹیکل 35 اے اور 370 کو منسوخ کرنے کی وکالت کر رہا تھا۔ یہ تخریبی نوعیت كا تھا۔ دوستو! آئین کے متن کو دیكھیں تو یہ آرٹیکل ایک عارضی آرٹیکل کے طور پر رکھا گیا تھا لیکن 70 برسوں تک جاری رہا۔

ہمیں خوشی ہے کہ اب وہ موجود نہیں ہے، اور وہ نعرہ جو ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے دیا تھا آج عمل میں آ گیا كہ  "ایک ملک میں دو ودھان، دو نشان، دو پردھان نہیں چلیں گے"۔

اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر  جس قابل ذکر ترقی اور ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے وہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے وژن اور دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے جنہوں نے اس کے لیے اپنی جان قربان كر دی۔ خطے کے قومی دھارے میں شامل ہونے سے سرمایہ کاری، ترقی اور بہتر طرز حکمرانی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ جموں تعلیم کا مرکز بنے گا۔

جو تبدیلیاں رونما ہوءی ہیں ان کو دیکھیں۔ ہمارے ملک کے تمام پروفیشنل ادارے پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ ان میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ شامل ہیں۔ چند مہینوں میں آل انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بھی ضلع سانبا میں مکمل طور پر کام کرنے لگے گا۔

دوستو میں آپ کو اس کا اثر بتاتا ہوں۔ اس کا اثر آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی ہے۔ ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تمام آرٹیکلز کا مسودہ تیار کیا لیکن انہوں نے آرٹیکل 370 کا مسودہ تیار کرنے سے انکار کردیا تھا۔ 890 مرکزی قوانین جو لاگو ہوئے، اس ریاست کو اس کا فائدہ نہیں مل رہا تھا۔ 200 سے زیادہ ریاستی قوانین کو منسوخ کر دیا گیا، آئین کے مطابق 100 سے زیادہ ریاستی قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔ زمینی حقیقت پر نظر ڈالیں تو سڑک، ریل اور ہوائی رابطوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ بانہال ٹنل اور چنانی-ناشری ٹنل کو مکمل کر کے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

اس خطے كو یہ فخر بھی حاصل ہے كہ یہاں میں دریائے چناب پر دنیا کا بلند ترین 1315 میٹر لمبا ریلوے پل ہے۔ جو مکمل ہو چکا ہے۔

میں كہنا چاہوں گا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس پر جہاں حیرت انگیز طور پر فاخر ہیں وہیں ہم نے کبھی اس کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک دہائی قبل ہم صرف 11ویں بڑی معیشت تھے۔ ستمبر 2022 میں ہمارے ملک ہندوستان کو پانچویں سب سے بڑی عالمی معیشت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس عمل میں ہم نے اپنے سابقہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں سے آگے نکل چكے ہیں۔

میں لوگوں سے كہتا رہتا ہوں کہ وہ حقائق كو دیكھیں جو جھوٹ نہیں بولتے۔ اس ملک میں ڈیجیٹل لین دین، سال 2022 میں 1.3 ٹریلین تھا۔ ایسا اسوقت تك نہیں ہو سکتا جب تك  وصول کنندہ تكنیكی طور پر قبول كرنے كو تیار نہ ہو۔ یہ کامیابی کا ایک اور سنگ میل ہے اور وہ سنگ میل یہ ہے کہ پوری دنیا میں ڈیجیٹل ٹرانسفرہو رہا ہے۔ ہماری کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ، امریکہ، جرمنی اور فرانس کی ڈیجیٹل منتقلی کو چار گنا كر دینا۔  یہ ہماری وہ ڈیجیٹل منتقلی ہے جس كا ہم نے کبھی خواب بھی نہیں دیكھا تھا۔ 2022 میں ہمارے 700 ملین انٹرنیٹ صارفین كی فی کس ڈیٹا کھپت امریکہ اور چین سے زیادہ تھی۔ یہ ہیں وہ کامیابیاں۔ جب جمہوریت کی ماں اور سب سے قدیم جمہوریت عروج پر ہو تو اس عروج كو روکا نہیں سکتا۔

میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ آپ اپنے ہندوستانی ہونے اور اپنی تاریخی کامیابیوں پر فخر کریں۔

اب سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور دنیا ہم پر رشك کر رہی ہے اورہندوستان کا جیسا احترام ہو رہا ہے  ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اب وہ دن نہیں رہے جب ہمیں دنیا میں اپنی آواز کو واضح کرنا پڑتا تھا۔ اب دنیا منتظر رہتی ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت کا لیڈر کسی خاص نکتے پر کیا کہے گا۔

ایسے میں، یہ بات موجبِ تشویش ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ، جو بہت ہی كم ہیں، ہمارے اداروں کو بد نما اور داغدار دكھانے، ان كی تحقیر كرنے اور بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے فوڈ سیکیورٹی کی بات کرتے ہیں کہ یکم اپریل 2020 سے یہ ملک 800 ملین سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، دنیا کا کوئی ملک ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔

دنیا کا کوئی بھی ملک گاؤں، پنچایت، پنچایت سمیتی، ضلع پریشد، ریاستی اور مرکزی سطحوں پرآئینی طور پر سب سے زیادہ فعال جمہوریت ہونے پر فخر نہیں کر سکتا۔ یہ ناقابل یقین سیاسی ماحولیاتی نظام ہماری انسانی ذہانت کی وجہ سے ہے۔

ہم ہندوستانیوں کے پاس مضبوط ڈی این اے ہے، ہم دنیا میں سب سے تیزی سے ہنر سیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے، دنیا کے ہر حصے میں آپ کو ایک ہندوستانی باصلاحیت شخص ملے گا جو کارپوریٹ اور اُن اداروں کی قیادت کرتا ہے جو ہندوستان کو قابل فخر بناتا ہے اور متعلقہ ممالک ہماری صلاحیتوں کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی ستم ظریفی اور فتنہ انگیزی ہے كہ  ان قوتوں کے ذریعے جو اس ملک کے دشمن ہیں جھوٹی داستانیں منظم انداز میں عام كی جاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اس پر سنجیدگی سے غورنہیں كرتے۔

دوستو میں ایک اورایپی سوڈ كا ذكر کروں گا جو تقریباً تین دہاءی پہلے كا ہے اور جس پر ٹائم میگزین کی طرف سے توجہ مرکوز كی گءی ہے۔ اگر خاموش اکثریت خاموش رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے گا۔

میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی قوم پرستی کے دفاع کے لیے اپنا دماغ استعمال کریں۔

اور ان عناصر كی خواہشات کو معمولی نہ سمجھیں جو مذموم انداز میں ہماری ترقی کی کہانی کو کم کر كے دكھانا چاہتے ہیں۔ ایک بات جو میں آپ کو بتا سکتا ہوں وہ یہ ہے كہ یہ تبدیلیاں صرف پچھلے چند برسوں میں آءی ہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ قانون کا لمبا بازو آپ تک پہنچ جائے گا۔

ملک میں کچھ لوگوں نے از خود سے یہ مان ركھا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ اگر ایکس کو کسی ریگولیٹری یا ایجنسی کی طرف سے طلب کیا گیا ہے، تو آپ ایك ایسے ملک میں بچ نكلنے کی ہمت کیسے کر سکتے ہیں جس کی عدلیہ تک رسائی ہے۔

مجھے آپ کے ساتھ یہ اشتراک بھی كرنا ہے اور آپ جانتے بھی ہوں گے كہ  بدعنوانی کے ذمہ داران فرار کا راستہ تلاش كرنے كے لیے ان تمام قوتوں کو اکٹھا کریں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب ان کے فرار کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ بدعنوانی قطعی برداشت نہیں ہے، پیغام اب پوری گونج كیساتھ واضح ہے كہ آپ کسی بھی شناخت یا کسی بھی فیملی کے ہوں، آپ قانون کے سامنے جوابدہ ہیں۔ طریقہ کار شفاف، جوابدہ، نتیجہ خیزاور موثر ہے۔

دوستو سری نگر میں جی-20 ٹورازم ورکنگ گروپ کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کرنے میں جس كی بااثر میڈیا نے ہر سطح پر خبر نگاری كی ہے،عالمی سطح پر ہمیں زبردست فاءدہ پہنچانے کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کو مبارکباد دینے میں آپ میرے ساتھ شامل ہوں۔ اور میرے نوجوان دوستو خواب دیکھنا کبھی نہ چھوڑو، ہر خواب آپ کے سوچے سمجھے عمل سے شرمندہِ تعبیر ہوگا۔ اور اگلا قدم اٹھانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرو۔

دوستو، آخر میں، میں لیفٹیننٹ گورنر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو میرے لیے پہلے سے ہی بہت زیدہ محترم ہیں لیکن آج ان کی گفتگو کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ میں آپ سب کی بڑی کامیابی كا خواہاں ہوں۔ تمنا ہے كہ آپ کا راستہ کامیابی، ترقی اور نمایاں کامیابیوں سے مزین ہو۔

*****

 

U.No:6404

ش ح۔رف۔س ا


(Release ID: 1934658) Visitor Counter : 176


Read this release in: English , Hindi