نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

چوتھے قومی واٹر ایوارڈز کے موقع پر  نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 17 JUN 2023 3:57PM by PIB Delhi

آپ سب کو میرا سلام !

میرے لیے یہ بہت خوشگوار موقع ہے، ایوارڈ لینا، ایوارڈ دینا اپنے آپ میں بہت باوقار ہے اور ان کو ایوارڈ دینا جو  مشکل حالات میں ’عام‘ کام کررہے ہیں اور ’عام‘ کام کرنے کیلئے  غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہوناضروری ہے۔

ان میں سے ہر ایک کو مبارک باد ۔

یہ ایوارڈ ریاستوں، پنچایتوں، اسکولوں، تنظیموں اور افراد کے ذریعہ آبی وسائل کے نظم و نسق کے میدان میں کئے جانے والے کاموں کا  معقول اعتراف ہے ۔

 اپنی  پیدائش سے  ہی میں نے ماں بہنوں کو کنویں سے پانی بھرتے دیکھا ہے۔ ان پر  بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔ میں نے کنویں سے پانی نکلتا ہوا  دیکھا ہے، بیل کے ذریعہ نکلتا ہوا دیکھا ہے، اونٹ کے ذریعہ نکلتا  ہوا دیکھا ہے۔ کوئی پیاؤ لگا دیتا تھا، اس کو ہم دھرماتما مانتے ہیں۔ جانوروں کے لئے پینے کے پانی کا انتظام کیا کرتے تھے، یہ بہت بڑا دھرم تھا۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرے ضلع میں پانی کا بحران ہے اور پڑوسی ضلع میں قلت ہے۔

ملک میں گزشتہ 10 سالوں میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ناقابل تصور ہے۔ جب دنیا کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ 2022 میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی میں  رقم کی براہ راست منتقلی کو اگر جمع کرکے چار سے ضرب دیا جائے تو یہ ہندوستان کے برابر ہے۔ اس سے بڑی کامیابی دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتی۔

700 بلین انٹرنیٹ صارفین! ہمارے لوگوں میں فطری صلاحیتیں ہیں۔ وہ خود سیکھتے ہیں اور ان کی فی کس ڈیٹا کی کھپت  امریکہ اور چین کو جوڑ لیں  تو بھی  اعداد و شمار ہمارے برابر نہیں ہے ۔ اور ماؤں بہنوں کی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کو میں سب سے بڑی کامیابی سمجھتا ہوں، اجولا کی طرف سے انہیں جو  گیس کنکشن دیئے گئے ہیں ، ان کے پانی کے مسائل کا حل کررہے ہیں ، یہ سب سے بڑا تعاون ہے۔ ہم ستمبر 2022 میں دنیا کی پانچویں معاشی سپر پاور بن چکے ہیں۔ میں آپ کو یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں، آپ کا تعاون بہت گہرا، بہت مضبوط ہے۔

2019 میں اس وزارت کو شروع کرکے ، وزیر اعظم نے ہماری ثقافت کے نظریات کو بہت اعلیٰ سطح تک پہنچایا ہے ۔ ہزاروں سالوں سے،  ہماری ثقافت کے اندر یہ بات تھی  کا ۔ایسی وقف وزارت کا ہونا، میرے خیال میں وقت کی ضرورت تھی۔

مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی اور اطمینان ہو رہا ہے کہ آپ سب جوش اور جذبے کے ساتھ وژن پر عمل کر رہے ہیں۔

نتیجہ زمین پر ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ نومبر 2020 میں، وزیر اعظم نے ہر گھر جل یوجنا کے بارے میں بات کی۔ عزت مآب جل شکتی  کے وزیر نے نائب صدر کی رہائش گاہ پر ایک مباحثہ رکھا ۔ میں نے فوراً ان کے سیکرٹری سے کہا کہ میرے گاؤں کے حالات بتائیں ۔

میں آپ کو انتہائی اطمینان کے ساتھ یہ بات بتا سکتا ہوں کہ انہوں نے فوریا بٹن کلک کیا ضلع جھنجھنو، پنچایت سمیتی چڈاوا، گاؤں کیٹھا نہ اور پھر اس پر آگیا کہ میرے گھر پر نل ہے۔ میں نے کہا کتنے گھروں میں نل نہیں، وہ بھی آگیا ۔ یہ کامیابی چھوٹی نہیں ہے، یہ کامیابی  آپ کی وزارت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی ہے۔ یہ آج کے ہندوستان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آج کا ہندوستان وہ ہندوستان ہے جس کا پہلے کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا، جس نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا، کہ ایسا کبھی ہوگا؟ اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے،  ہمارے یہاں کب ہو گا۔

جل جیون مشن کو  جب دیکھتا ہوں کہ اس کا مقصد کیا ہے؟ مقدار، معیار اور تسلسل، یہ تین الفاظ نہیں ہیں، یہ بہت ضروری ہے .. جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔

میں آپ لوگوں سے گزارش کروں گا کہ گلاس میں پانی کو خالی مت چھوڑیں.. خالی گلاس میں پانی اچھا نہیں لگتا۔ پورا گلاس آپ کی میز پر آتا ہے، آپ آدھا پیتے ہیں، آدھا چھوڑ دیتے ہیں، یہ کلچر ٹھیک نہیں۔ میں اتنا ڈسپلن  میں آ گیا ہوں کیونکہ میری بیوی نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اگر گلاس میں پانی ہے تو مجھے اپنے دفتر لے جا کر پینا پڑے گا۔

میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس چیز کو اپنے روزمرہ کے معمولات میں اپنا لیں۔ جسم کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں کبھی کمی نہیں ہونی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیےکہ  ہم کسی بھی پروگرام میں ہوں یا کھانا کھا رہے ہوں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ پانی پورا آئے گا اور آدھا ہی پییں گے۔ میرے خیال میں عوامی تحریک کا یہ موضوع پانی کی تحریک کو رفتار دے گا۔

ہر کوئی اس تبدیلی میں حصہ لے سکتا ہے..اس کے لیے کسی آلے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے لیے صلاحیت سازی کی ضرورت نہیں ہے، اس کیلئے صرف سوچنے کے عمل کی ضرورت ہے۔ عزت مآب وزیر نے اپنی تقریر میں بڑی تفصیل سے بتایا کہ ہم اس کو پنچایت سطح، پنچایت سمیتی سطح، ودھان سبھا سطح اور پارلیمنٹ کی سطح پر ترجیح دیں گے۔ ہمارے عوامی نمائندوں کو مثال  پیش کر کے قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے ۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے ہر رکن پارلیمنٹ سے ایک سال میں کم از کم 100 درخت لگانے اور اس کے بارے میں آگاہ کرنے کی اپیل کی۔ کچھ نے بہت اچھا کام کیا ہے اور کچھ معاملات میں میرا ہوم ورک رہ گیا ہے، لیکن آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر عوامی نمائندہ یہ کام کر لے تو حکومتی نظام کو کتنا ریلیف ملے گا، پھر ترقی ارتھمیٹک  نہیں ہوگی۔ یہ جیومیٹرک ہوگی  اور ہمیں اس کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں، ٹیلنٹ کے معاملے میں ہندوستان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ عقل، ہنر، علم، صنعت، ذہن کے استعمال کی بات ہو تو ہم کسی کے پیچھے نہیں ہوتے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے لوگ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تھوڑی سی کمی ہے مور کے پاؤں کی طرح جب مور ناچتا ہے تو خوش ہوتا ہے لیکن جب پاؤں دیکھتا ہے تو اداس ہو جاتا ہے۔ ہمارا نظام پر اعتماد کم ہے، اس کی پہلی مثال  ہے  سڑک، اب ہماری سڑکیں دنیا کا بہترین انفراسٹرکچر ہیں، لیکن سڑکوں پر قانون پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے، یہ آہستہ آہستہ آرہا ہے، عزم میں یقیناً ہوگا۔

وزیر اعظم کی جو  من کی بات اور جس کی 100ویں قسط  کا پروگرام میں نے یہاں کیا تھا ، میں نے تین دن تک ایک بڑا مطالعہ کیا کہ زمین پر اس کا کیا اثر ہوا؟ اور میں حیران تھا کہ اس کا اثر طلبہ پر بھی پڑا۔طالب علم اگر  امتحان میں اچھا  نہیں کر پایا تو وہ مایوس نہیں تھا ، یہ بڑی بات تھی۔ ہمارے کھلاڑیوں پر بھی اس کا اثر تھا ، اس موقع کو کون بھول سکتا ہے؟ ہماری خواتین ہاکی ٹیم کوئی تمغہ نہیں جیت سکی، وزیراعظم نے خود ہر کھلاڑی سے بات کی، کھیل کے تئیں ان کی کتنی حساسیت تھی ۔ من کی بات کے اندر آپ کی وزارت کا منتری جی ، وزیر اعظم نے  جن مہارتھیوں کا ذکر کیا ہے ،ان کا  انٹرویو پارلیمنٹ ٹی وی پر کروائیں گے ۔ انہوں  نے بہت بڑا تعاون دیا ہے۔ شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک، اس کام میں شریک جنگجوؤں کا تعاون ہمارا رہنما ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ ملک بھر میں آبی ذخائر اور اینی کٹس بنائے جا رہے ہیں۔ وزیر موصوف ، میں آپ سے خاص طور پر درخواست کروں گا کیونکہ آپ نے پہلے بھی  ایس کیا ہے۔وزیر اعظم کی ہدایت اور رہنمائی ہے۔ ہمارے یہاں پر جوہڑ، باوڑی، پوکھر کچھ اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں، کچھ کو زندہ کرنا پڑے گا، کچھ کا آپریشن کرنا پڑے گا۔ معزز سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے - جوہڑ، پوکھر ناقابل تبدیل  ہیں، اس زمین کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، تشویشناک بات ہے، غور وفکر کی بات ہے۔ پوکھر، چارے کی زمین جو ہر گاؤں کے پھیپھڑے تھے وہ سکڑ گئے ہیں، تجاوزات کا شکار ہو گئے ہیں۔ استحصال ہو رہا ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اس عمل میں، سپریم کورٹ کے فیصلے کی اشتعال انگیز بے توقیری ہے۔

میں آپ سے گزارش کروں گا، اس کو جنگی بنیادوں پر، غیر جانبدارانہ طور پر لیا جانا چاہیے، کیونکہ ہمارے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد ہمارا آئینی فرض ہے، جس کا ذکر ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں اور ہمارے آئین میں درج  بنیادی فرائض میں کیا گیا ہے۔

ایسے میں اگر ہر پنچایت یہ عزم کرےکہ ہم تالاب، جوہڑ، چارے کی زمین بنائیں گے، انہیں زندہ رکھیں گے، اس کے لیے محکمہ جنگلات، ماحولیات کی بھی ضرورت ہے۔ہم ضرور ایسا کریں گے۔اس کے نتائج انقلابی ، آنکھ کھولنے والے، انتہائی اثر انگیز ہوں گے، اس کا براہ راست اثر مویشیوں اور گاؤں کی معیشت پر پڑے گا۔

 آج کے دن  کہاں گئے وہ کہاں گئی وہ کیر کہاں گئی وہ سانگری ، ان کی تخلیق ہونا ہے۔

ہمارے ملک میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ہمیں سیلاب اور پانی کی کمی کا سامنا ہے، میں جانتا ہوں کہ وہاں بہت سارے انقلابی کام ہو رہے ہیں۔ عزت مآب وزیر نے جودھ پور میں 403 سال پرانی تاپی باوڑی کے احیاء کے لیے اچھا قدم اٹھایا ہے۔

لوک سبھا کے رکن کے بعد جس ضلع کا ،علاقے کا ایم ایل اے بنا ، وہاں پر باؤڑی زبردست ہے، کیا فن، کیا ڈیزائن، کیسے پانی آتا تھا.. اب پانی کیوں نہیں آتا؟ اگر ہم انہیں بنائیں گے تو ہمیں زبردست راحت ملے گی اور ہماری زندگی میں تبدیلی آئے گی۔

جوہڑ  جیسے بہت سے قدیم ثقافتی ورثے کے نظام کو محفوظ رکھنے اور بحال کرنے کے لیے، ہمیں تین آر کے منتر کو اپنانا ہوگا - اور وہ ہیں:ریڈیوس،ری سائیکل اور ری یوز۔

رگ وید میں پانی کی وضاحت کرتے ہوئے معنی خیز  انداز میں کہا گیا ہے کہ - پانی میں امرت ہے، پانی میں دوا ہے!

اس موقع پر رحیم کا دوہا ذہن میں آتا ہے ’’رحیمن  پانی راکھئے بنو پانی سب سون‘‘۔

بائیں طرف بیٹھے لوگ کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں، درمیان میں ایگزیکیوٹر ہیں، جو فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہیں، میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ ہر کوئی پانی بچا سکتا ہے، قطرہ قطرہ  کرکے سمندر بنا سکتا ہے۔

جب ہم اپنے قدرتی وسائل کا استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہماری جیب اس کا خرچ برداشت کر سکتی ہے۔ ٹھیک ہے، آپ کی جیب اس کو برداشت کر سکتی ہے، لیکن قدرتی وسائل نہیں، قدرتی وسائل کا استعمال ضرورت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے،  یہ نہیں کہ میں پانی کی ہزار بوتلیں پڑی رہیں گی ،اسی سے نہا لوں گا،نا،ضرورت کے مطابق پانی کا استعمال کرنا  ہماری ثقافت کا سرچشمہ ہے، ہم لوگوں کا دھرم ہے اور یہی طریقہ ہے، اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو نتائج درست نہیں ہوں گے۔

آخر میں میں کہوں گا ،کسی نے کہا ہے،

’’زخم خشک اور زمین ہری ہونی چاہیے، پانی آنکھ سے نہیں دریاؤں میں بہنا چاہیے ۔‘‘

آخر میں میں میڈیا اہلکاروں ، عوامی نمائندوں، سول سوسائٹی، این جی اوز سے ایک اپیل کروں گا کہ وہ ہماری بیوروکریسی کے ساتھ تعاون کریں، وہ مشکل کام کر رہے ہیں، آپ اس کو تھوڑا کم مشکل کرنے کی کوشش کریں کہ نہ کی  ان کے کام زیادہ مشکل بنائیں۔ میں مان کر چلتا ہوں کہ ملک میں جو مہم چلی ہے اور جو تبدیلی آئی ہے، اور دنیا میں ہندوستان کا ڈنکا بج رہا ہے اور ہندوستان آج ایک سپر پاور ہے، 2047 میں یقینی طور پر ہندوستان دنیا میں سرفہرست ہوگا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات!

جے بھارت۔

******

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.6235



(Release ID: 1933156) Visitor Counter : 169


Read this release in: English , Hindi