قانون اور انصاف کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

عدالتی نظام کو ڈیجیٹل پر مبنی بنانےکے عمل کی حفاظت

Posted On: 24 MAR 2023 6:14PM by PIB Delhi

قانون اور انصاف کے مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ اطلاع فراہم کی ہے۔

حکومت نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کے مقصد سے ضلع اور ماتحت عدالتوں کو کمپیوٹرائز کرنے یااس عمل کو کمپیوٹر پر مبنی بنانے کے لیے ملک میں ای کورٹس انٹیگریٹڈ مشن موڈ پروجیکٹ شروع کیا ہے۔نیشنل ای گورننس پلان  یعنی قومی ای حکمرانی منصوبےکے ایک حصے کے طور پر، یہ پروجیکٹ، 2007 سے ہندوستانی عدلیہ کے آئی سی ٹی کو فعال کرنے کے لیے ہندوستانی عدلیہ میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے نفاذ کے لیے قومی پالیسی اور ایکشن پلان کی بنیاد پرنافذ کیا جارہا ہے۔ ای کورٹس پروجیکٹ کو ای-کمیٹی سپریم کورٹ آف انڈیا اور محکمہ انصاف کے اشتراک سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کا پہلا مرحلہ15-2011 کے دوران نافذ کیا گیا تھا۔ پروجیکٹ کا دوسرا مرحلہ 2015 میں شروع ہوا اور دوسرے مرحلے کے اختتام تک 18,735 ضلعی اور ماتحت عدالتوں کو کمپیوٹرپر مبنی بنایا جا چکا ہے۔ حکومت نے ای کورٹس پروجیکٹ کے تحت درج ذیل ڈیجیٹل اقدامات کیے ہیں تاکہ انصاف کو سب کے لیے قابل رسائی اور دستیاب بنایا جا سکے۔

  1. وائیڈ ایریا نیٹ ورک (ڈبلیو اے این) پروجیکٹ کے تحت، ہندوستان بھر کے کل کورٹ کمپلیکس  یعنی عدالتی احاطوں کے 99.4فیصد (2994 میں سے 2976) کو 10 ایم بی پی ایس سے100 ایم بی پی ایس بینڈوتھ کی رفتار کے ساتھ کنیکٹیویٹی فراہم کی گئی ہے۔
  2. نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ (این جے ڈی جی) ،احکامات، فیصلوں اور مقدمات کا ایک ڈیٹا بیس ہے، جسے ای کورٹس پروجیکٹ کے تحت ایک آن لائن پلیٹ فارم کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ یہ ملک کی تمام کمپیوٹرائزڈ ضلعی اور ماتحت عدالتوں کی عدالتی کارروائیوں/فیصلوں سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔مدعی، 22.38 کروڑ سے زیادہ مقدمات اور 20.83 کروڑ سے زیادہ احکامات / فیصلوں (01.03.2023 تک) کے سلسلے میں کیس کی صورتحال کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
  3. اپنی مرضی کے مطابق فری اور اوپن سورس سافٹ ویئر (ایف او ایس ایس) پر مبنی کیس انفارمیشن سافٹ ویئر (سی آئی ایس) تیار کیا گیا ہے۔ فی الحال ضلعی عدالتوں میں  سی آئی ایس نیشنل کور ورژن 3.2 لاگو کیا جا رہا ہے جبکہ ہائی کورٹس میں سی آئی ایس نیشنل کور ورژن 1.0 کو لاگو کیا جا رہا ہے۔
  4. ای کورٹس پروجیکٹ کے حصے کے طور پر، ایس ایم ایس پش اینڈ پل (2,00,000 ایس ایم ایس روزانہ بھیجے جاتے ہیں)، ای میل (2,50,000 بھیجے گئے) کے ذریعے وکلاء/مقدمات کو کیس کی  موجودہ صورتحال یا حیثیت، کاز لسٹ، فیصلوں وغیرہ کے بارے میں بروقت معلومات فراہم کرنے کے لیے 7 پلیٹ فارم بنائے گئے ہیں۔اس کے علاوہ  کثیر لسانی اور ٹیکٹائل ای کورٹس سروسز پورٹل (روزانہ 35 لاکھ ہٹس)،جے ایس سی (عدالتی خدمات مراکز)  کی خدمات بھی فراہم کی جارہی ہیں اوراس کے علاوہ، وکلاء کے لیے موبائل ایپ کے ساتھ الیکٹرانک کیس مینجمنٹ ٹولز (ای سی ایم ٹی) بنائے گئے ہیں (31 جنوری 2023 تک کل 1.64 کروڑ ڈاؤن لوڈ) اور ججز کے لیے جسٹ آئی ایس ایپ (31 دسمبر 2022 تک 18,407 ڈاؤن لوڈز)۔جسٹ آئی ایس موبائل ایپ اب آئی او ایس پر بھی دستیاب ہے۔
  5. ہندوستان ،ویڈیو کانفرنسنگ میں ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھراہے۔ ہائی کورٹس (77,67,596 مقدمات اور ماتحت عدالتوں میں 1,84,95,235 مقدمات) نے 31.01.2023 تک 2.63 کروڑ مجازی یعنی ورچوئل سماعتیں کیں۔ہندوستان کی معزز سپریم کورٹ نے 31.01.2023 تک ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 4,02,937 سماعتیں کیں۔ 3240 کورٹ کمپلیکس یعنی عدالتی احاطوں اور اسی طرح کی 1272 جیلوں کے درمیان وی سی کی سہولیات بھی فعال کی گئی ہیں۔ 2506 وی سی کیبنز اور 14,443 کورٹ رومز کے وی سی آلات کے لیے بھی فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ ورچوئل سماعتوں کو فروغ دینے کے لیے 1500  وی سی لائسنس حاصل کیے گئے ہیں۔
  6. 17 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 21 مجازی عدالتیں ٹریفک چالان کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے کام کررہی ہیں۔ 21 ورچوئل عدالتوں کے ذریعہ 2.53 کروڑ سے زیادہ مقدمات نمٹائے گئے ہیں اور 33 لاکھ (33,57,972) سے زیادہ مقدمات میں 359.34کروڑروپے سے زیادہ کا آن لائن جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ 31.01.2023 تک 359.34 کروڑ کی وصولی ہوئی ہے۔
  7. نئے ای فائلنگ سسٹم (ورژن 3.0) کو جدید ترین خصوصیات کے ساتھ قانونی کاغذات کی الیکٹرانک فائلنگ کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ ای فائلنگ کے قوانین کا مسودہ تیار کیا گیا ہے اور اسے اپنانے کے لیے ہائی کورٹس کو بھیج دیا گیا ہے۔ 31 جنوری 2023 تک کل 19 ہائی کورٹس نے ای فائلنگ کے ماڈل رولز کو اپنایا ہے۔
  8. مقدمات کی ای فائلنگ کے لیے فیس کی الیکٹرانک ادائیگی کا طریقہ کار اختیارکرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کورٹ فیس، جرمانے اور جرمانے شامل ہوتے ہیں جو براہ راست کنسولیڈیٹڈ فنڈ کے لئے قابل ادائیگی ہوتے ہیں۔ کل 20 ہائی کورٹس نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ای پیمنٹ کو لاگو کیا ہے۔ 31 دسمبر 2023 تک کورٹ فیس ایکٹ میں 22 ہائی کورٹس میں ترمیم کی گئی ہے۔
  9.   ڈیجیٹل خامی کودور کرنے کے لیے، 689ای سیوا مراکز ،ان وکیل یا مدعی حضرات  کو سہولت فراہم کرنے کے ارادے سے شروع کیے گئے ہیں جنہیں معلومات سے لے کر سہولت اور ای فائلنگ تک کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔
  10. نیشنل سروس اینڈ ٹریکنگ آف الیکٹرانک پروسیسز (این ایس ٹی ای پی) کوٹیکنالوجی سے چلنے والے عمل کو پیش کرنے اور سمن جاری کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ اسے فی الحال 28 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں نافذ کیا گیا ہے۔
  11. بینچ کی تلاش،مقدمہ  یعنی کیس کی قسم، کیس نمبر، سال، درخواست گزار/ مدعی کا نام، جج کا نام، ایکٹ، سیکشن، فیصلہ: تاریخ سے تاریخ تک اور مکمل متن کی تلاش جیسی خصوصیات کے ساتھ ایک نیا "ججمنٹ سرچ" پورٹل شروع کیا گیا ہے۔ یہ سہولت سب کو مفت فراہم کی جا رہی ہے۔
  12. ای فائلنگ اور ای کورٹس کی خدمات کے بارے میں وسیع پیمانے پر بیداری اور واقفیت پیدا کرنے اور ’’ہنر مندی کی تقسیم‘‘ سے نمٹنے کے لیے، ای فائلنگ سے متعلق ایک دستی اور ’’ای فائلنگ کے لیے رجسٹریشن کیسے کریں‘‘کے بارے میں ایک کتابچہ انگریزی، ہندی اور 11 علاقائی زبانوں میں دستیاب کرایا گیا ہے۔ وکلاء ای کورٹ سروسز کے نام سے ایک یوٹیوب چینل بنایا گیا ہے جس میں ای فائلنگ پر ویڈیو ٹیوٹوریل ہیں۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کی ای کمیٹی نے  آئی سی ٹی خدمات کے بارے میں تربیت اور بیداری  پیدا کرنےسے متعلق بہت سے  پروگرام منعقد کیے ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ تقریباً 5,13,080 متعلقہ فریقوں کا احاطہ کیاگیا ہے، جن میں ہائی کورٹ کے ججز، ضلعی عدلیہ کے ججز، کورٹ اسٹاف، ججز/ڈی ایس اے کے درمیان ماسٹر ٹرینرز، ہائی کورٹس کا ٹیکنیکل اسٹاف، اور ایڈووکیٹ شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے جسٹس کے ایس پتّاسوامی (ریٹائرڈ) بمقابلہ یونین آف انڈیا میں اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پرائیویسی کے حق کودفعہ 21 کے تحت ، زندگی اور ذاتی آزادی کے بنیادی حصے کے طور پر اور ان آزادیوں کے ایک حصے کے طور پر تحفظ حاصل ہے۔ آئین کا حصہ سوئم۔ رازداری کے حق، معلومات کے حق اور ڈیٹا کی حفاظت کے حق میں توازن پیدا کرنے کے لیے، ہائی کورٹس کے چھ ججوں پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی، جس میں قانونی امورکے ماہرین  شامل ہیں ،تکنیکی ورکنگ گروپ کے اراکین کی مدد سے ای-کمیٹی کے صدر نشین نے تشکیل دی ہے۔ رازداری کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے محفوظ کنیکٹیویٹی اور تصدیق کے طریقہ کار کی تجویز/تجویز کریں۔ ذیلی کمیٹی کو ڈیٹا سیکیورٹی کو مضبوط بنانے اور شہریوں کی رازداری کے تحفظ کے لیے ای کورٹس پروجیکٹ کے تحت بنائے گئے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے، نیٹ ورک اور سروس ڈیلیوری کے حل کا تنقیدی جائزہ لینے اور ان کا جائزہ لینے کا پابند بنایا گیا ہے۔

کووڈ عالمی وباکی مدت کے دوران، سی آئی ایس میں ایک کووڈ-19 مینجمنٹ پیچ تیار کیا گیا تھا تاکہ مقدمات کے خوش اسلوبی سے پروگرام بنانے میں مدد ملے۔ جس سے  عدالتی افسران کو فوری مقدمات کو برقرار رکھنے اور فوری طور پر نہ ہونے والے مقدمات کو کاز لسٹ پر ملتوی کرنے کے قابل بنایا جائے۔ مذکورہ بالا اقدامات کے علاوہ محکمہ انصاف نے ، سپریم کورٹ آف انڈیا  کی ای کمیٹی کے ساتھ مل کر  کووڈ کے بعد مقدمات سے نمٹنے میں عدالتوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ای کورٹس پروجیکٹ کے تحت شروع کیے گئے اقدامات کے استعمال پر زور دیا ہے۔

ورچوئل سماعت  کی بدولت انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کا ایک اہم مقصد پورا کیاگیا  ہے۔ اگرچہ ورچوئل سماعت سے متعلق کچھ چیلنجزاور چنوتیاں  ہیں لیکن درج ذیل فوائد ان چیلنجوں سے کہیں زیادہ ہیں:

 

  • وکلاء اور مدعی، اپنی اپنی پسند کے کسی بھی مقام (دور دراز علاقوں) سے عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔
  • وقت اور پیسے کی کافی بچت ہوتی ہے اس طرح غیر مراعات  یافتہ فریقین  اورپسماندہ اور کمزور طبقات کی مدد ہوتی ہے۔
  • وکلاء مختصر نوٹس پر متعدد مقامات پر سماعتوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔
  • گواہوں کوعدالتوں میں پیش کرنےکے عمل میں آسانی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے محفوظ مقامات پر ہو سکتے ہیں۔
  • زیر سماعت قیدیوں کی نقل و حرکت بہت کم خرچ پر اور آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

اس طرح آن لائن سماعت، مقدمات کا تیزی سے فیصلہ کرنے کا باعث بنتی ہے جس سے مقدمات کے التوا میں کمی آتی ہے۔

جہاں تک عدلیہ کا اختیار بڑھانے کے اقدامات/تجویز کا تعلق ہے، مرکزی حکومت کا ضلع اور ماتحت عدلیہ میں عدالتی افسران کے انتخاب، تقرری اور/یا اختیار میں اضافے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ جہاں تک ریاستوں میں عدالتی افسروں کی بھرتی کا تعلق ہے، متعلقہ ہائی کورٹس بعض ریاستوں میں یہ کام کرتی ہیں، جب کہ ہائی کورٹس دیگر ریاستوں میں ریاستی پبلک سروس کمیشن کے ساتھ مشاورت سے یہ کام کرتی ہیں۔ جیسا کہ آئین کی دفعہ 233 اور 234 کے ساتھ پڑھے جانے والے دفعہ 309 کے تحت کہا گیا ہے جو متعلقہ ریاستی حکومت کو ہائی کورٹ کے مشورے سے اختیار میں اضافے اور/یا عدالتی افسران کی ریاستی جوڈیشل سروس میں تقرری کے معاملے سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

مقدمات کی سماعت کی غرض سے تیزی سے کارروائی کے لیے اقدامات/تجاویز کے حوالے سے، مقدمات کا نمٹانا خصوصی طور پر عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ مرکزی حکومت کا اس معاملے میں براہ راست کوئی کردار نہیں ہے۔ تاہم، حکومت نے عدلیہ کے ذریعے مقدمات کو بروقت نمٹانے کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

عدالتی بنیادی ڈھانچہ کے لیے مرکزی طور پر اسپانسر شدہ اسکیم کے تحت، ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو کورٹ ہال، عدالتی افسران کے لیے رہائشی کوارٹرز، وکلاء کے ہال،بیت الخلا کمپلیکس اور ڈیجیٹل کمپیوٹر روم کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں جو وکلاء کے کام کو آسان بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچہ فراہم کریں گے۔ اور قانونی چارہ جوئی اور انصاف کی فراہمی میں مدد کریں۔سال94-1993 میں عدلیہ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی ترقی کے لیے مرکزی اسپانسرڈ اسکیم (سی ایس ایس) کے آغاز سے اب تک 9755.51 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔30 جون 2014 میں  کورٹ ہالز کی تعداد 15,818 تھی جو 28 فروری 2023 تک بڑھ کر 21,271 ہو گئی ہے، جبکہ 30 جون 2014 کو رہائشی یونٹوں  یعنی مکانوں کی تعداد 10,211 تھی جو28 فروری 2023 کو بڑھ کر 18,734  تک پہنچ گئی ہے۔

  1. مزید برآں، ای کورٹس مشن موڈ پروجیکٹ کے تحت، ضلعی اور ماتحت عدالتوں کے اطلاعاتی ٹیکنالوجی یعنی  آئی ٹی نظام  کو فعال کرنے کے لیے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ کمپیوٹرائزڈ ضلعی اور ماتحت عدالتوں کی تعداد اب تک بڑھ کر 18,735 ہو گئی ہے۔ 99.4فیصد کورٹ احاطوں  کوڈبلیو اے این کنیکٹیویٹی فراہم کی گئی ہے۔ 3,240 کورٹ احاطوں اور 1,272 متعلقہ جیلوں کے درمیان ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت کو فعال کیا گیا ہے۔ عدالتی احاطے میں 689 ای-سیوا کیندرز قائم کیے گئے ہیں تاکہ وکلاء اور مدعیان کی مدد کی جا سکے جن میں کیس کی حیثیت، فیصلے/حکم، عدالت/مقدمہ سے متعلق معلومات، اور فائلنگ کی سہولیات شامل ہیں۔ 17 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 21 مجازی  یعنی ورچوئل عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ 31.01.2023 تک، ان عدالتوں نے 2.53 کروڑ سے زیادہ مقدمات کو نمٹا دیا ہے اورجرمانے کی شکل میں359  کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی کی ہے۔ ای کورٹس مرحلہ سوئم شروع ہونے والا ہے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت (اے آئی)اور بلاک چین کو شامل کرنے کا  پروگرام ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کو مزیدمستحکم ، آسان اور تمام متعلقہ فریقوں کے لیے قابل رسائی بنایا جا سکے۔
  2. حکومت، اعلیٰ عدالتوں میں خالی آسامیوں کو باقاعدگی سے پر کر رہی ہے۔یکم جولائی 2014 سے یکم مارچ2023 تک سپریم کورٹ میں 54 ججوں کی تقرری کی گئی۔ ہائی کورٹس میں 887 نئے ججز کی تقرری  کی گئی ہےجبکہ 646 ایڈیشنل ججز کو مستقل کیا گیا۔ ہائی کورٹس کے ججوں کی منظور شدہ تعداد مئی 2014 میں 906 سے بڑھا کر فی الحال 1114 کر دی گئی ہے۔ ضلعی اور ماتحت عدالتوں میں جوڈیشل افسران کی منظور شدہ اور کام کرنے والے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔ضلع اور ذیلی عدالتو ں میں عدالتی عہدیداروں کی تقرری ، منظوری اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا گیا جو کہ درج ذیل ہے:

 

As on

Sanctioned Strength

Working Strength

31.12.2013

19,518

15,115

20.03.2023

25,189

19,522

 

تاہم، ماتحت عدالتوں میں خالی آسامیوں کو پُر کرنا ریاستی حکومتوں اور متعلقہ ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

 

  1. اپریل 2015 میں منعقدہ چیف جسٹس صاحبان کی کانفرنس میں منظور کردہ قرارداد کے مطابق، تمام 25 ہائی کورٹس میں بقایا جات کام نمٹانے والی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں تاکہ پانچ سال سے زائد عرصے سے زیر التوا مقدمات کو نمٹا دیا جا سکے۔ ضلعی عدالتوں کے تحت بقایا جات کام نمٹانے والی کمیٹیاں بھی قائم کر دی گئی ہیں۔
  2. چودھویں مالیاتی کمیشن کے تحت، حکومت نے گھناؤنے جرائم کے مقدمات نمٹانے کے لیے تیزی سے سماعت کرنے والی فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی ہیں۔ بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں وغیرہ کے مقدمات، جس کے تحت 31 جنوری2023 تک، گھناؤنے جرائم، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم وغیرہ کے لیے نو (9) ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں  843 فاسٹ ٹریک عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ مزید برآں، مرکزی حکومت نے آئی پی سی کے تحت عصمت دری کے زیر التواء مقدمات اور پی او سی ایس او- پوکسو قانون کے تحت جرائم کو تیزی سے نمٹانے کے لیے ملک بھر میں 1023 فاسٹ ٹریک خصوصی عدالتیں (ایف ٹی ایس سی) قائم کرنے کی اسکیم کو منظوری دی ہے۔ آج تک، 28 ریاستیں/ مرکز کے زیر انتظام علاقے اس اسکیم میں شامل ہو چکے ہیں۔
  3. عدالتوں  میں زیر  التوا مقدمات کی  تعداد کم کرنے اور ان کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کے مقصد سے، حکومت نے حال ہی میں مختلف قوانین میں ترمیم کی ہے جیسے نیگوشی ایبل انسٹرومنٹس (ترمیمی) ایکٹ، 2018، کمرشل کورٹس (ترمیمی) ایکٹ، 2018، مخصوص ریلیف (ترمیمی) ایکٹ، 2018، ثالثی اور مفاہمت (ترمیمی) ایکٹ، 2019 اور فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ، 2018۔
  4. تنازعات کے حل کے متبادل طورطریقوں کو پوری دلجمعی سے فروغ دیا گیا ہے۔اسی کے مطابق، کمرشل کورٹس ایکٹ، 2015 میں 20 اگست 2018 کو ترمیم کی گئی تھی جس میں تجارتی تنازعات کی صورت میں پری انسٹی ٹیوشن میڈیشن اینڈ سیٹلمنٹ (پی آئی ایم ایس) کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ثالثی اور مفاہمت ایکٹ، 1996 میں ترمیم ثالثی اور مفاہمت (ترمیمی) ایکٹ 2015 کے ذریعے کی گئی ہے تاکہ مقررہ وقت کے دوران مقدمات کے فیصلوں کا تعین کرکے تنازعات کے فوری حل کے عمل کویقینی بنایا جا سکے۔
  5. لوک عدالت ،تنازعات کے حل کے طریقہ کار کاایک اہم متبادل ہے جو عام لوگوں کے لیے دستیاب ہے۔ یہ ایک ایسا فورم ہے جہاں عدالت میں زیر التوا تنازعات/مقدمات یا قانونی چارہ جوئی سے پہلے کے مرحلے پر خوش اسلوبی سے حل/سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔قانونی خدمات سے متعلق اتھارٹیز (ایل ایس اے) قانون مجریہ، 1987 کے تحت، لوک عدالت کے ذریعے دیا گیا ایک ایوارڈ یا فیصلہ دیوانی عدالت کا حکم نامہ سمجھا جاتا ہے اور یہ  فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور تمام فریقوں کے لیے پابند ہوتا ہے اور اس کے خلاف کسی عدالت میں کوئی اپیل نہیں ہوتی۔ لوک عدالت کوئی مستقل ادارہ نہیں ہے۔ پہلے سے طے شدہ تاریخ پر تمام تعلقہ، اضلاع اور ہائی کورٹس میں قومی لوک عدالتیں بیک وقت منعقد کی جاتی ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران لوک عدالتوں میں نمٹائے گئے مقدمات کیس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:-

 

Years

Pre-litigation Cases

Pending Cases

Grand Total

2021

72,06,294

55,81,743

1,27,88,037

2022

3,10,15,215

1,09,10,795

4,19,26,010

2023 (till Feb)

1,75,98,095

30,25,724

2,06,23,819

Total

5,58,19,604

1,95,18,262

7,53,37,866

 

  1. حکومت نے 2017 میں ٹیلی –لاء یعنی ٹیلی فون پرقانونی خدمات سے متعلق  پروگرام کا آغاز کیا، جس نے ایک موثر اور قابل اعتماد ای-انٹرفیس پلیٹ فارم فراہم کیا جوان تمام ضرورت مند اور پسماندہ طبقوں کو جوڑتا ہے جو کامن سروس سینٹرز پر دستیاب ویڈیو کانفرنسنگ، ٹیلی فون اور چیٹ کی سہولیات کے ذریعے قانونی مشورے اور پینل وکلاء سے مشورے کے خواہاں ہیں۔گرام پنچایت میں واقع کومن سروس سینٹر س (سی ایس سیز) میں اور ٹیلی- لاء موبائل ایپ کے توسط سے یہ سہولیات دستیاب ہے۔

 

*Percentage Wise break-up of Tele – Law Data

Till 28th Feb, 2023

Cases Registered

% Wise Break Up

Advice Enabled

% Wise Break Up

Gender Wise

Female

11,46,046

33.43

11,23,504

33.49

Male

22,82,642

66.57

22,31,041

66.51

Caste Category Wise

General

7,31,346

21.33

7,12,646

21.24

OBC

10,08,050

29.40

9,83,336

29.31

SC

10,86,611

31.69

10,66,037

31.78

ST

6,02,681

17.58

5,92,526

17.66

Total

34,28,688

 

33,54,545

 

 

  1. ملک میں عوامی فلاح و بہبود کے طرز عمل اور فلاحی مقاصد پر مبنی کالونی پیروکاری کو ادارہ جاتی بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ایک تکنیکی فریم ورک قائم کیا گیا ہے جہاں عوامی فلاح وبہبود کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی غرض سے اپنا وقت اور خدمات دینے والے وکیل نیا ئےبندھو (اینڈورائیڈ اور آئی او ایس اور ایپس) پر فلاحی مقاصد کے لئے کام کرنے والے وکیل کے طور پراپنا اندراج کراسکتے ہیں ۔ نیائے بندھو خدمات، اُمنگ پلیٹ فارم پر بھی دستیاب ہیں۔وکیلوں کےفلاحی مقاصد کے لئے کام کرنے والے  ایک پینل کوریاستی سطح پر 21 ہائی کورٹس میں شروع کیا گیا ہے۔ ابھرتے ہوئے ہونہار وکیلوں میں عوامی فلاح و بہبود اور فلاحی مقاصد کے لئے طرز عمل پیدا کرنے کی غرض سے 69 منتخبہ قانونی اسکولوں میں پرو بونویعنی فلاحی مقاصد سے متعلق مفت قانونی پیروکاری کرنے والے   کلب قائم کیے گئے ہیں۔

 

 

***********

 

ش ح ۔  ع م  - م ش

U. No.6203


(Release ID: 1932856) Visitor Counter : 237


Read this release in: English