سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
دور دراز کہکشاں جی این- زیڈ کی ایک حیران کن کہانی: غائب اور دوبارہ ظاہر ہونے والا دھول کا پردہ
Posted On:
13 APR 2023 7:20PM by PIB Delhi
ماہرین فلکیات جلد ہی ہماری کائنات میں ابتدائی کہکشاؤں کی تشکیل اور ارتقاء کے طریقوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ جی این- زیڈ کے تازہ ترین طیف پیما ئی سے متعلق (سپیکٹروسکوپک) نتائج - جن کی شناخت دور دراز اور ابتدائی کہکشاؤں میں سے ایک کے طور پر کی گئی ہے ، سے اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ ستارے کی تشکیل کی شرح بہت زیادہ ہونے کے باوجود ایک عبوری مدت کے لیے اس کے گردونواح سے دھول کے ذرات کی مکمل طور پر ناپید پائے گئے ہیں ۔
ستاروں کی تشکیل کا عمل اور اس کے نتیجے میں ستاروں کا ارتقا ءلامحالہ بہت زیادہ دھول پیدا کرتا ہے اور میزبان کہکشاں کو کسی حد تک مبہم بنا دیتا ہے جس کی اصل وجہ اس کے ارد گرد ایک موٹے پردے کی موجودگی ہے۔ یہ عام طور پائی جانے والی صورت حال جی این- زیڈ کے رویے میں دیکھنے میں نہیں آتی ، جس سے ماہرین فلکیات حیران رہ گئے ہیں۔
گاڑھے مادے پر مشتمل ایک ٹھوس کہکشاں، جی این- زیڈ ، پہلی بار 2015 میں ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ(ایچ ایس ٹی) نے دریافت کی تھی۔ جی این- زیڈ ایک ہائی ریڈ شفٹ (زیڈ 10.95 کے درجے کا) دکھاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمین سے تقریباً 32 بلین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگرچہ عظیم دھماکہ ( بگ بینگ) کے واقعہ کے وقت سے ہی موجود ہے،جب سے کہ کائنات کی عمر بمشکل 400 ملین سال ہوپائی ہے ، لیکن یہ حیران کن ہے کہ جی این- زیڈ نے پہلے ہی شمسی باقیات سے تقریباً ایک ارب ستارے تخلیق کئے تھے ، جو ماہرین فلکیات کے مطابق ایک غیر معمولی رویہ ہے۔ اس وقت، جی این- زیڈ کے پاس پہلے سے ہی آج ہماری اپنی کہکشاں کے پاس موجود ستاروں کے مجموعی غبار کا تقریباً تین فیصد حصہ موجود رہا ہے، جب کہ کائنات کی عمر اس وقت 14 بلین سال ہوچکی ہے۔
جی این- زیڈ 11 میں دھول کی عدم موجودگی سے متجسس ماہرین فلکیات نے اس کے پس پردہ پوشیدہ راز کو کھولنے کی کوشش کی ہے۔ رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں، جو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی(تحقیق و ترقی) ڈی ایس ٹی کے شعبہ کا ایک خود مختار ادارہ ہے، نے پرتشدد حرکیاتی واقعات کی ممکنہ جسمانی خصوصیات کا اندازہ لگایا ہے جس کے نتیجے میں مختصر وقت کہکشاں میں سے دھول کے خاتمے اوراخراج کی صورت حال سامنے آسکتی ہے جو اسے شفافی بناسکتی ہے۔
سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ مشاہدہ شدہ ستاروں کی تشکیل کی شرح کی توانائیاں 20-25 ملین برسوں پر محیط عرصے کے دوران پیمانے پر دھول سے بھرے پردے کو پھاڑ دینے کے لیے کافی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک عارضی رجحان تھا اور اس کے فوراً بعد انفجاری ستاروں( دھماکے سے پھٹنے والے ستارے) سپرنووا کے آخری دھماکے سامنے آئے ، جس کے نتیجے میں اس کے پھیلتے ہوئے خول میں سکڑاؤ کی صورت حال پیدا ہوئی، اس طرح کہکشاں کو تقریباً 5-8 ملین برس کے عرصے کے دوران دھندلا کر دیا گیا۔
‘‘یہ سوچ کر دماغ سیدھے سادے طور پر حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ جی این- زیڈ 11 نے کب اور کیسے اتنی گیس اکٹھی کی جو بالآخر ٹوٹ کر بکھری اور جس سے بڑے بڑے ستارے تشکیل پائے اور اس کے باوجود دھول سے پاک رہی۔ اور یہ سب کچھ، جب کہکشاں اس وقت وجود میں آئی جب ہماری کائنات بہت چھوٹی تھی، یعنی تقریباً 420 ملین سال،’’ یہ تبصرہ تازہ ترین مقالے کے لیڈ مصنف پروفیسر بیمن ناتھ، رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(آر آر آئی) کے سینئر فیکلٹی نے کیا، جسے شعبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔
تحقیق کے مطابق دھول کے بادلوں کے اس عارضی طور پر غائب ہونے کی کچھ ممکنہ وجوہات یہ ہیں ۔ انفجاری ستاروں( سپرنووا) کے دھماکے سے معقول جھٹکوں کے ذریعے دھول کا دبانا، انفجاری ستارے(سپرنووا) سے پیدا ہونے والے دھماکوں سے دھول کی تباہی، گیسوں کے اخراج کے ذریعے دھول کا انخلاء جس کا سبب دیگر ستاروں کی سرگرمیاں ہوتی ہیں ۔ اسی طرح، دھول کے پردے کے دوبارہ ابھرنے کو جی این- زیڈ 11 کے پاس موجود بڑے پیمانے پر کشش ثقل کی قوت سے جوڑا جا سکتا ہے۔
پروفیسر ناتھ نے اپنے روسی ساتھیوں ایو جینی ویسی لیف،سرگئی اے ڈرودوف اور یوری اے ، لیبیدیف فزیکل انسٹی ٹیویٹ سے تعلق رکھنے والے شیئکی نوف کے ساتھ، ہوائی جزائر میں مونا کیا میں واقع کیک دوربینوں سے حاصل کیے گئے پچھلے پانچ سالوں کے مشاہدات کا استعمال کیا۔ رائل فلکیاتی سوسائٹی کے ماہانہ نوٹسز میں حال ہی میں شائع ہونے والے ‘ ڈسٹ فری اسٹاربرسٹ کہکشائیں ریڈ شفٹ زیڈ اینڈ جی ٹی:1’ کے عنوان سے موجودہ مطالعہ میں، محققین نے جی این- زیڈ 11 کے ذریعہ دکھائے جانے والے غیر معمولی کہکشاں کے رویے کو سمجھنے کے لیے خصوصی کمپیوٹر سمولیشن تیار کیے تاکہ ایک نئے امکان کو ثابت کیا جا سکے۔ کہ ہائی ریڈ شفٹ والی کہکشائیں دھول سے پاک رہ سکتی ہیں۔
پروفیسرناتھ،جنہوں نے اس رجحان کی نقل سازی کی ، جس میں غبار کے بادلوں کے غائب ہونے اور دوبارہ اُبھرنے کو ایک ممکنہ طور پر وقفے وقفے سے ہونے والی سرگرمی کے طور پر پہلے کبھی معلوم نہیں تھا، نے کہا کہ 25 سے 30 ملین سالوں کے ڈیٹا کو کمپیوٹنگ اور ان کی نقل کرنا، جس کے دوران اس دور دراز کہکشاں کے گرد دھول کی سطح نہ ہونے کے برابر تھی، اس کا تقریباً صاف ً شفاف طور پر دکھائی دینا ، ایک پریشان کن معاملہ تھا ۔
ماہرین فلکیات اب یہ ماننے لگے ہیں کہ بہت سی ابتدائی کہکشائیں اسی طرح کا دھندلاپن دکھا سکتی ہیں لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے ۔ تاہم، ہائی ریڈ شفٹ کہکشاؤں کا مطالعہ حال ہی میں لانچ کی گئی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے تیار کردہ بہتر ڈیٹا کے ساتھ مستقبل قریب میں مزید پیچیدہ اور تجسس بھرا آغاز کر سکتا ہے۔
*************
ش ح ۔ س ب ۔ رض
U. No.4685
(Release ID: 1921059)
Visitor Counter : 139