جل شکتی وزارت
قومی آبی فریم ورک بل، 2016 کی کیفیت
Posted On:
27 MAR 2023 6:25PM by PIB Delhi
جل شکتی کے وزیر مملکت جناب بشویشور ٹوڈو نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ پانی ریاست کا موضوع ہونے کی وجہ سے،ضرورت سے زیادہ زیر زمین پانی کے اخراج کو منظم کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھانا ریاستوں کی ذمہ داری ہے،تاہم مرکزی حکومت کی جانب سے اس سمت میں متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن کو دیکھا جا سکتا ہے:
i. مرکزی حکومت مختلف پالیسی اقدامات/ اسکیموں کے ذریعہ زراعت، پینے کے پانی اور دیگر ایپلی کیشنز وغیرہ میں زمینی اور سطحی پانی کے مشترکہ استعمال کو فروغ دے رہی ہے۔
ii. مرکزی حکومت نےسال 97-1996 میں جامع آبپاشی کے فوائد کے پروگرام (اے آئی بی پی) کی شروات کی تھی تاکہ زمینی پانی پر انحصار کم کرنے کے لیے ملک میں بڑے/درمیانے درجے کے آبپاشی منصوبوں کے لیے ریاستوں کو مالی مدد فراہم کی جا سکے۔ اس کے علاوہ سال 16-2015 کے درمیان،پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا (پی ایم کے ایس وائی) شروع کی گئی تھی جس کا مقصد کھیت میں پانی کی فیزیکل رسائی کو بڑھانا اور یقینی آبپاشی کے تحت قابل کاشت رقبہ کو بڑھانا، کھیتی کے پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانا، دیرپاپانی کے تحفظ کے طورطریقوں کو متعارف کرانا تھا۔جامع آبپاشی کے فوائد کے پروگرام (اےآئی بی پی) کوبھی اس میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس اسکیم کے تحت مختلف مقامات پر سطح آب کے ماخذ کے ذریعہ بڑے اور درمیانی درجے کےآبپاشی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔
iii. 24 اکتوبر 2020 کو وزارت کی طرف سے ملک میں زیر زمین پانی نکالنے کے ضابطے اور کنٹرول کے لیے رہنما خطوط (کل ہند سطح پر قابل اطلاق کے ساتھ) کو نوٹیفائی کیا گیا۔ پانی ایک ریاست کا موضوع ہونے کے ناطے،رہنما خطوط زرعی شعبے میں پائیدار زمینی پانی کے انتظام کے لیے شراکتی نقطہ نظر کی وکالت کرتی ہے جس میں فصلوں کی گردش، تنوع اور زمینی پانی پر زیادہ انحصار کو کم کرنے کے لیے دیگر اقدامات شامل ہیں۔
iv. 6,000 کروڑ روپے کی مرکزی شعبہ کی اسکیم اٹل بھوجل یوجنا (اٹل جل) کو وزارت کی طرف سے زمینی وسائل کے دیرپا بندوبست کے لئے نافذ کیا جارہا ہےجس میں دستیاب زیر زمین پانی اور سطحی پانی کو موثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے کمیونٹیوں کو شامل کرکے شراکتی انداز میں گرام پنچایت کی سطح پر آبی تحفظ کے منصوبوں کی تیاری جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔ اس اسکیم کو منتخب علاقوں میں شروع کیا جا رہا ہے جس میں 80 اضلاع، 229 انتظامی بلاکس اورپانچ سال کی مدت کے لئے یکم اپریل 2020 سے پانی کی کمی سے متاثر 7 ریاستوں یعنی ہریانہ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان اور اتر پردیش کی 8,220 گرام پنچایتیں شامل ہیں۔
v. زراعت اور کسانوں کی بہبود کا محکمہ (ڈی اے اور ایف ڈبلیو) زمینی پانی کو نکالنے کے عمل کو کم کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے پر (ڈرپ اور سپرنکلر اریگیشن سسٹم) کے ذریعے کھیت کی سطح پر پانی کے استعمال کی کارکردگی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فی ڈراپ مور کراپ کا نفاذ کر رہا ہے۔
فی الحال سی جی ڈبلیو اے 19 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں موجودہ رہنما خطوط کے مطابق زمینی پانی کے اخراج کو منظم کر رہا ہے اور باقی ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں یہ ضابطہ متعلقہ ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ خود قابل اطلاق دفعات/رہنمائی خطوط کے مطابق نافذ کیا جا رہا ہے۔یکم جنوری 2017 اور28 فروری 2023 کے درمیان سی جی ڈبلیو اے تیار ضابطے کے مطابق ریاستوں میں مرکزی زمینی پانی اتھارٹی (سی جی ڈبلیو اے)کی جانب سے 31,746 این او سیز/رعایتیں جاری کی گئی ہیں۔ ریاست وار تفصیلات ضمیمہ میں دی گئی ہیں۔
وزارت نے ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے ایک جامع ماڈل بل کا مسودہ تیار کرنے کے لیے کارروائی کی ہے جس میں پانی کے شعبے سے متعلق تمام امور/معاملات شامل ہیں تاکہ ریاستوں کے ذریعے آبی حکمرانی کو آسان بنایا جا سکے۔
ضمیمہ
یکم جنوری 2017 سے 28 فروری 2023 کےدرمیان سی جی ڈبلیو اے کی جانب سے جاری کردہ ریاست وار این او سی / رعایتیں/ تجدید
نمبر شمار
|
ریاست
|
کل جاری کی گئی این او سی - رعایتیں
|
1
|
انڈمان اور نکوبار جزائر
|
15
|
2
|
اروناچل پردیش
|
28
|
3
|
آسام
|
1,478
|
4
|
بہار
|
828
|
5
|
چھتیس گڑھ
|
5,587
|
6
|
دمن اور دیو اور دادراور نگر حویلی
|
837
|
7
|
گجرات
|
4,196
|
8
|
ہریانہ**
|
26
|
9
|
جھارکھنڈ
|
647
|
10
|
مدھیہ پردیش
|
783
|
11
|
مہاراشٹر
|
7,584
|
12
|
منی پور
|
11
|
13
|
میگھالیہ
|
52
|
14
|
میزورم
|
0
|
15
|
ناگالینڈ
|
10
|
16
|
اوڈیشہ
|
2,897
|
17
|
پنجاب**
|
30
|
18
|
راجستھان
|
3,878
|
19
|
سکم
|
30
|
20
|
تریپورہ
|
96
|
21
|
اتر پردیش**
|
1,690
|
22
|
اتراکھنڈ
|
1,043
|
|
میزان
|
31,746
|
** نوٹ - ان ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں زمینی پانی کا ضابطہ اب متعلقہ ریاستیں خود تیارکر رہی ہیں۔ پہلے یہ سی جی ڈبلیو اے کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔
***********
ش ح ۔ ع ح ۔ م ش
U. No.3391
(Release ID: 1911364)
Visitor Counter : 120