نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

نائب صدر جمہوریہ سے ملنے آئے زیر تربیت آئی آر ایس  افسران کے 76 ویں بیچ سے ان کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 13 MAR 2023 7:29PM by PIB Delhi

ہم ایک ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب ہمارا بھارت امرت کال، آزادی کے 75 ویں سال، میں ہے۔ ہمارے سامنے ایک عظیم وژن ہے۔ جو مجھ سے پہلے ہیں وہ 2047 کے جنگجو ہیں۔ 2047 میں، آپ اس عظیم قوم کی ریڑھ کی ہڈی کا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیں گے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ بھارت کو اس بلندی پر لے جائیں گے جس کا وہ حقدار ہے۔

مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ میں سے 40 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ اب جب کہ آپ 40 فیصد سے اوپر ہیں، آپ کسی کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ میں یہ تجربے سے کہہ رہا ہوں، کیونکہ میری صرف ایک بیٹی ہے۔ میں آپ کی طاقت جانتا ہوں۔ 40 فیصد سے زیادہ اس ملک کے خوشگوار بدلتے ہوئے پروفائل کی نشاد دہی کرتے ہیں جو ہمیں بلندیوں تک لے جائے گا۔

اگر آپ تاریخی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اچھے استاد یا ٹرینر کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اب اپنی زندگی کے ہر پہلو کے لیے ایک ٹرینر کی ضرورت ہے۔ ہم اس نئے طرز زندگی کے طریقہ کار کو اختیار کررہے ہیں۔ لیکن یہ ایک پیشہ ور شعبے میں بہت ضروری ہے، جس سے آپ کا تعلق ہے۔ کسی ملک کا عروج صرف بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد معیاری تعلیم اور بھرپور انسانی وسائل پر ہوتی ہے، باقی چیزیں خود بخود چلتی ہیں۔

مجھے بہت خوشی اور مسرت ہوئی جب کیرئیر کے آغاز میں ٹرینی آفیسر (اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے) اس بات کی نشان دہی کررہے تھے کہ ایک منظم طریقے سے آمدنی میں اضافہ ایک چیلنج ہے جس سے  ہم سب نمٹیں گے۔ ہر منتخب لفظ بہت اہم تھا۔

آپ معاشرے کی تعلیمی اشرافیہ ہیں۔ میں نے آپ کے پروفائلز دیکھے ہیں، آپ کہیں بھی اپنا کیریئر بنا سکتے تھے، آپ زیادہ منافع بخش نوکریاں لے سکتے تھے، لیکن پھر قوم جیسی چیز ہے، انسانیت سے وابستگی جیسی چیز ہے۔ اور آپ کو اس مقام پر ہمیشہ فخر رہے گا جس پر آپ فائز ہیں۔

میں خاص طور پر بھوٹان رائل سروس سے تعلق رکھنے والے دو افسروں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور انھیں سلام کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ 2 اہلکار باہمی تعامل کی خوشگوار یادیں گھر واپس لے کر جائیں گے اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ اس تربیت کے ذریعے گہرے پیشہ ورانہ تجربات اور مہارت کا اشتراک کریں گے۔

میں آپ کو یہ بات ضرور بتا؎نا چاہوں  گا کہ عصر حاضر میں، جب آپ زیر تربیت تھے، تو دنیا نے ایک بدترین وبا دیکھی، جس نے دنیا کے ہر حصے کو متاثر کیا ہے۔ لیکن بھارت اب دنیا میں ایک روشن مثال بن چکا ہے۔ موبائل پر دستیاب ڈیجیٹل سرٹیفکیٹس پر ہمارے لوگوں کو 220 کروڑ ٹیکے مفت دیئے گئے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ امتیاز حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا، جو حکومت کے بصیرت انگیز اقدامات کی عکاسی کرتا ہے۔

دنیا کا کوئی بھی حصہ اس طرح کے امتیاز کا دعویٰ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارا بھارت اس وقت عروج پر ہے جیسا کہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ ہمارا عروج نہ رکنے والا ہے۔ جس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا، اپنے دور میں جس طرح کا عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ اور جس طرح کی ترقی کا منظرنامہ اب ہمارے پاس ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آپ سب معاشرے کی تعلیمی اشرافیہ تشکیل دیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کس طرح ترقی،مواقع اور سرمایہ کاری کی پسندیدہ منزل ہے۔ یہ سب ایک وجہ سے ہے، ہمارے پرعزم خوش حال انسانی وسائل کے سبب۔ اس ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی ہندوستان کی آواز اتنی نہیں سنی گئی جتنی اب سنی جاتی ہے۔

ابھی ہمارے پاس جی 20 کی صدارت ہے۔ وسیع پیمانے پر شراکت داری ہے، یہ انتہائی اثر انگیز ثابت ہو رہی ہے۔ آپ بطور نوجوان باخبر لوگ ہیں۔ اپنے کیریئر میں، آپ معیشت کی ترقی، پائیدار معیشت، معیشت کی پرورش سے متعلق ہوں گے۔ آپ کو لوگوں میں ایمانداری کا عنصر پیدا کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا اور آپ شفافیت اور احتساب پر توجہ دیں گے۔ یہ کوئی چھوٹا چیلنج نہیں ہے، کیونکہ فطرتاً ہمارے لوگ ایماندار ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ریگولیٹری ریجم انہیں پریشان کردے گی۔

ہمارےیہاں وہ ہے جو فیس لیس اسیسمنٹ سے بنا ہے۔ یہ ایک منفرد، مکمل جوابدہ، شفاف اور اعتماد سازی کا طریقہ کار ہے جسے تیار کیا گیا ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ستمبر 2022 میں کیا ہوا؟ ہم دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئے۔ کتنی اہم پیش رفت ہے! ہم نے اس معیشت کو پیچھے چھوڑ دیا جس نے ہم پر صدیوں حکومت کی۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اس دہائی کے آخر تک ہم دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے۔ یہ آپ کے پاس موجود ہنر، کسان، کام کرنے والے مزدور اور حکومت کی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اپنے دنوں میں مجھے اپنی لائبریری کے لیے کچھ رقم تلاش کرنے کی کوشش میں ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے صرف روپے کی ضرورت تھی، چھ ہزار۔ مجھے آج بھی بینک مینیجر کا سب سے بڑا اشارہ یاد ہے جو مجھے بغیر سکیورٹی کے 6000 روپے دے سکتا تھا۔ دیکھئے اب کیا ہوا ہے۔ آپ کو ایک بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، پیسہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے یونیکورن کے ساتھ اپنے اسٹارٹ اپ کے ساتھ دنیا کی قیادت کر رہے ہیں۔ مجھے بہت خوشی اور مسرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ اسٹارٹ اپ میں صنعت کے بڑے لیڈر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

میں مضبوطی کے ساتھ گزارش کروں گا - کبھی بھی ایسی لالچ میں نہ آئیں جو غیرقانونی ہیں، کیونکہ اگر ہندوستان کو عروج پر پہنچنا ہے تو اسے ایک ثقافت کے نتیجے میں عروج پر پہنچنا ہوگا۔

میں آپ کو تین مثالیں دوں گا۔

مہاتما گاندھی نے سوچھ بھارت پر بہت زور دیا، لیکن ہم نے ہمیشہ اسے اپنا حق سمجھا، اگر ہم کیلا چھیل لے ہوتے اور گاڑی میں کیلے کا مزہ لے رہے ہوتے تھے، تو ہم سمجھتے تھے کہ سڑک میری کچرا گاہ ہے۔ مجھے اسے فوراً کھڑکی سے نیچے پھینکنا ہے۔ لیکن میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ جب ہم بیرون ملک ہوتے ہیں تو ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرتا۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم مجبوری میں نظم و ضبط اپناتے ہیں۔ اس ملک میں، ہمیں اختیاری طور پر زیادہ نظم و ضبط کی ضرورت ہے، رضاکارانہ طور پر نظم و ضبط۔ 2 اکتوبر 2014 کو، وزیر اعظم نے سوچھ بھارت مہم کا آغاز کیا، بہت سے لوگوں نے کہا - وہ کیا کر رہے ہیں؟ اور دیکھئے ہم کہاں پہنچے ہیں۔ دیہی گھروں میں بیت الخلاء – اب ہم اسے ہر جگہ دیکھتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ یہ اتنی بڑی مشق ہے کہ ہم اسے کبھی پورا نہیں کر پائیں گے۔ سوچھتا بھی ایک بڑی صنعت بن گئی ہے، کیونکہ گاندھی جی کی ایک سوچ کو وزیر اعظم کے وژن اور عمل نے حقیقت میں بدل دیا۔ آپ کو اس طرح کے بہت سے رجحانات کو حرکت میں لانا پڑے گا، کیونکہ آپ ان پوزیشنوں پر ہوں گے جہاں لوگ آپ کی طرف دیکھیں گے اور یہ ایک چیز ہے۔

دوسرا، جب کووڈ آیا، وزیر اعظم نے سب سے عوامی کرفیو لگانے کی اپیل کی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ کوئی کووڈ نہیں ہے۔ جب ہمیں اپنی ویکسین ملیں تو لوگوں نے کہا کہ یہ ویکسین کیسے کام کریں گی، ہمیں ان ممالک سے ویکسین لینا چاہیے....

ہمارے پاس عالمی اشاریے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق بات کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے کچھ لوگ ہماری کامیابیوں کو کم کرنے کی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ سب سمجھدار ہیں۔ آپ سب ہوشیار ہیں۔ آپ کو سمجھنا اور سوچنا ہوگا۔ ہم اپنی کھیر کو کچھ ایسے لوگوں کے ذریعے خراب نہیں ہونے دے سکتے جو اس ملک کی ترقی کی کہانی نہیں دیکھ سکتے۔

سوشل میڈیا بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسے اس طریقے سے استعمال کی ضرورت ہے تاکہ ہم ہندوستان کا سر فخر سے بلند کرسکیں۔ ہمیں ہمیشہ ہندوستانیوں پر فخر کرنا چاہئے اور اپنی تاریخی کامیابیوں پر فخر کرنا چاہئے۔ میں تین سال ریاست مغربی بنگال کا گورنر رہا۔ میں چونک جاتا ہوں جب لوگ ہمارے جیسے ملک میں فوڈ سکیورٹی کی بات کرتے ہیں!

لال بہادر شاشتری جی نے کہا تھا ’’جئے جوان جئے کسان‘‘۔ انھوں نے لوگوں کو ہر ہفتے ایک خاص کھانے سے پرہیز کرنے پر آمادہ کیا۔ یہاں پر میری عمر کے کچھ لوگ جانتے ہوں گے – ہم امریکہ سے گندم لاتے تھے۔ اب نہیں!

اس کا تصور کریں – یکم اپریل 2020 سے اس ملک میں 800 ملین لوگوں کو چاول، اناج اور دال مل رہی ہے۔ ہم اس کا تصور کیسے کر سکتے ہیں!

1989 میں، میں پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوا۔ میرا اختیار ایک سال میں 50 گیس کنکشن دینے کا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا اختیار تھا -  ہر سال کسی کو 50 گیس کنکشن دینے کے لیے۔ اور دیکھیں جس سطح پر وزیر اعظم نے سوچا اور اس پر عمل کیا – 150 ملین سے زیادہ گیس کنکشن غریب ترین لوگوں کو دیئے گئے۔

اگر آپ پورے ملک میں نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے، انفرا اسٹرکچر اور سڑکوں کو دیکھیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ چیزوں کی منصوبہ بندی اور کم سے کم وقت میں ان پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب اس لیے کہ ہماری نوجوانوں کی طاقت دنیا میں بے مثال ہے۔ یہ آپ کے اوپر ہے، آپ کے کندھوں پر ہے، اور مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ 2047 میں، ہندوستان دنیا کی نمبر ایک معیشت ہوگا۔ ایسا ہو گا۔

مجھے آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ جب میں نوجوان ذہنوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ ہندوستان اپنے نوجوانوں کی وجہ سے، ان کے عزم کی وجہ سے سب سے محفوظ پوزیشن میں ہے۔

لیکن جب آپ کے پاس اس قسم کی ترقی ہوتی ہے تو چیلنجز آتے ہیں اور چیلنجز اندر اور باہر سے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان چیلنجوں کو بے اثر کرنا ہے۔ ہمیں ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم بطور پابند قوم پرست ہندوستانی، کسی کو بھی ہماری فعال جمہوریت، اپنے اداروں، ہماری پارلیمنٹ کو داغدار کرنے اور نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

آپ کو زمین پر ایسی عدلیہ کہاں ملتی ہے جو بجلی کی رفتار سے کام کرتی ہو؟ کیا ہم کبھی اپنی عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھا سکتے ہیں؟ ہماری سپریم کورٹ بہترین عدالت ہے جس کا انتظام باصلاحیت لوگوں سے ہوتا ہے۔ ہماری جمہوریت میں ہمیشہ مسائل ہوتے رہیں گے۔ مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان مسائل ہوں گے، کیونکہ ہم ایک متحرک معاشرے میں ہیں۔ مسائل آتے رہیں گے۔ ان مسائل کا تعین ضروری ہے۔ جو لوگ ان اداروں کی چوٹی پر ہیں، میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر ایک پر ہوں، ہم شکایت کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ ہمیں شراکت دار بننا ہے۔ ہم ردعمل کے موڈ یا مخالف موڈ میں نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ریزولیوشن موڈ میں ہونا چاہیے۔ ہمیں حل تلاش کرنا ہوں گے۔

اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہماری جمہوری قوتوں، جمہوری اقدار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں اپنی حیثیت میں سیاست میں حصص دار نہیں ہوں، لیکن سیاست دانوں کو اپنی سیاست ضرور کھیلنی چاہیے اور انہیں پوری آزادی ہونی چاہیے، لیکن جب بات قوم کی ہو، آئین پرستی کی ہو، اداروں کے کام کرنے کی ہو، میں خاموشی اختیار نہیں کرسکتا۔

جب ایک غلط بنیاد پر، دنیا کو ایک خیال بیچنے کے لیے ایک بیانیہ تیار کیا جاتا ہے.... اور ہندوستان وہ نہیں ہے جو وہ ہے، ہم اس قسم کے بیانیے کو ہلکے میں نہیں لے سکتے۔ اور یاد رکھیں، اس ملک کا کوئی فرد، اس ملک کو چلانے کے لیے اپنی حیثیت یا قد کاٹھ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے اور مجھے یقین ہے، آپ اسے کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ اپنے طریقے سے، آپ اس سمت میں کام کر رہے ہوں گے۔

دوستو، جب میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں، اور مجھے دنیا کے بارے میں بہت اچھی طرح سے پتہ چلتا ہے - میں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں پیرس میں بین الاقوامی ثالثی عدالت سمیت دو عالمی اداروں میں رہا ہوں، میں آپ کو بتا سکتا ہوں، ہمارے ڈی این اے میں کچھ خاص ہے۔ بھارت کی مٹی میں کچھ بات ہے، بھارت کی مٹی میں کچھ خاص ہے، بھارت کی مٹی میں وہ ثقافت ہے، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔ میرے سامنے ایک نمائندہ ہندوستان ہے۔ میرے سامنے ایک ایسا ہندوستان ہے جو متنوع لیکن متحد ہے۔ اس اتحاد کی عکاسی ہمارے آئین کے دیباچے میں ہوتی ہے، لیکن اس کا سلسلہ ہزاروں سال پہلے تک پہنچتا ہے۔

پیارے دوستو، میرا آپ سب کو مشورہ ہے کہ کبھی بھی تناؤ نہ رکھیں، کبھی تناؤ نہ لیں۔ کبھی بھی ٹینشن میں نہ آئیں۔ ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو صلاح و مشورے کا راستہ ہو، مناسبیت کی قربانی کے بغیر ایک آرام دہ راستہ ہو۔

****

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.2634



(Release ID: 1906618) Visitor Counter : 120


Read this release in: English , Hindi