دیہی ترقیات کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

زمینی سطح پر کوششوں کو مربوط کرنے کے لئے ڈی اے وائی –این آر ایل ایم نے کارپوریٹس کے ساتھ سی ایس آر کنکلیو کا انعقاد کیا

Posted On: 02 MAR 2023 7:48PM by PIB Delhi

دیہاتوں میں تبدیلی لانے کے لیے ڈی اے وائی-این آر ایل ایم کی پہل اور دیہی علاقوں میں کارپوریٹ گھرانوں کی سی ایس آر کوششوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے،آج نئی دہلی میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت دیہی روزگار (آر ایل)کے ایڈیشنل سکریٹری جناب چرنجیت سنگھ نے کی۔ دیہی گھرانوں کو بہتر روزی روزگار کی سہولت فراہم کرنے کےمقصد سے وزارت، این ایم ایم یوریاستی دیہی روزی روٹی مشن اور کارپوریٹ گھرانوں کے سینئر افسران نے کانفرنس میں حصہ لیا۔

اپنے کلیدی خطاب میں آر ایل کے ایڈیشنل سیکریٹری  جناب چرنجیت سنگھ نے کہا کہ ڈی اے وائی-این آر ایل ایم کا مقصد ملک کے آخری حصے میں رہنے والے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنا ہے اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ حصص داروں کو اکٹھا کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نقطہ نظر کو ’مکمل حکومت‘ سے ’مکمل سماج‘ اورآگے ’انتودیہ‘ تک بڑھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تصور کیا ہے۔

محترمہ نیتا کیجریوال،جوائنٹ سکریٹری،دیہی معاش (جے ایس،آر ایل)نے زمینی تبدیلی کو متاثر کرنے میں چیلنجوں اور مواقع کے ذریعے حکومتی پالیسیوں کے درمیان ہم آہنگی کے بے پناہ امکانات کے بارے میں بات کی۔

جناب رمن وادھوا،ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈی اے وائی-این آر ایل ایم نے کانفرنس کا کوآرڈینیشن کرتے ہوئے ڈی اے وائی-این آر ایل ایم فریم ورک کے بارے میں وضاحت کی اور کانفرنس کے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔

حصہ لینے والے کارپوریٹ گھرانوں نے دیہی علاقوں میں اپنے موجودہ کام کی مثالیں دے کر دیہی ترقی کی وزارت کی اس اسکیم کی حمایت کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

اس سلسلے کی یہ پہلی کانفرنس ہے،جس کا مقصد کارپوریٹ گھرانوں کے سی ایس آر ونگز کے اہم ایگزیکٹوز کو حکومت کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے،تاکہ دیہی علاقوں میں فلاحی اقدامات کو ہموار کیا جا سکے۔

پس منظر:سی ایس آراخراجات میں دیہی ترقی کا حصہ

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سی ایس  آر بجٹ کا خرچ ضروری نہیں کہ کمپنی کے سی ایس آراقدامات کی تاثیر یا اثر کو ظاہر کرے۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ کمپنیاں لازمی اخراجات کو پورا کرنے یا سی ایس آر کی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے برائے نام عطیات دے رہی ہیں،جن میں اسٹریٹیجک منصوبہ بندی اور اثرات کی تشخیص کا فقدان ہے۔ مزید برآں، ہندوستان میں سی ایس آراقدامات کے نفاذ میں زیادہ شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت ہے۔ ذیل کا گراف مالی سال2020-21 میں سی ایس آر بجٹ کی تعمیل کی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے:

صنعتوں کی سماجی ذمہ داری کی تعمیل 2021

کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر)کے اقدامات کو ان کے نفاذ میں کئی مشکلات یا چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،ان میں سے کچھ یہ ہیں:

  • علاقائی تفاوت: کاروبار کی جگہ پر فنڈز کے خرچ پر ضابطے کی رکاوٹوں کی وجہ سے،یہ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی تنظیمیں ایک ہی جغرافیائی علاقے میں کام کر رہی ہیں،جبکہ کچھ علاقوں میں بہت کم خرچ ہوپاتا ہے۔ یہ علاقائی تفاوت کا باعث بنتا ہے جہاں کچھ برادریوں کوکچھ بھی مدد نہیں مل  پارہی ہے۔
  • سیکٹر سے متعلق تفاوت:سی ایس آر ایکٹ کے مطابق،ہر تنظیم کے پاس ایس ڈی جی کے مطابق متعین شعبوں پر خرچ کرنے کا سی ایس آرمینڈیٹ ہے۔ چونکہ ہر ادارہ اپنے اخراجات کے بارےمیں آزادانہ طور پر فیصلہ کر سکتا ہے،اس لیے یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ شعبوں کو بہت زیادہ رقم مل رہی ہے،جبکہ دیگر شعبوں کوخاطر خواہ رقم نہیں مل پا رہی ہے۔
  • بجٹ میں مختص رقم کے خرچ نہ ہوپانے کے مسئلے کا حل: ایکٹ میں تازہ ترین ترمیم کے مطابق، کمپنیوں کو مالی سال کے اختتام پر غیر استعمال شدہ فنڈز کو شیڈول VII کے تحت قائم کردہ فنڈ میں جمع کرنے کی ضرورت ہے۔
  • نفاذ کے لیے صحیح شراکت دار کا حصول:عمل درآمد کرنے والی صحیح ایجنسی تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ کمپنیاں اپنے حصص داروں، جیسے کمیونٹیز، این جی اوز اور دیگر تنظیموں کے ساتھ مؤثر طریقے سے برسرعمل نہیں ہو سکتیں۔
  • ایک ہی پروجیکٹ کے شعبے میں سرگرمیوں کا دوہراؤ:کمپنیوں کے پاس تمام استفادہ کنندگان کے بارے میں معلومات اور مختلف سی ایس آر اقدامات سے انہیں ملنے والی مدد کے بارے میں معلومات نہیں ہوسکتی ہیں، اس لیے پروجیکٹ کے شعبے میں اخراجات کے دوہراؤ کا بہت زیادہ امکان ہے
  • محدود پائیداری: کمپنیاں طویل مدتی اثرات پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل نہیں ہوسکتی ہیں اور زیادہ اثر حاصل کرنے کے لیے اپنے  سی ایس آراقدامات کو بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔
  • اثر کے بجائے تعمیل پر زور: کمپنیاں اپنا زیادہ زورسی ایس آر اقدامات کے اثرات کی بجائے ضوابط کی تعمیل پر مرکوز کر سکتی ہیں۔
  • ٹوکن عطیات: کمپنیاں لازمی اخراجات کو پورا کرنے یا سی ایس آرسرگرمیاں شروع کرنے کے لیے صرف برائے نام عطیات دے سکتی ہیں،جن میں اسٹریٹیجک منصوبہ بندی اور اثرات کی تشخیص کا فقدان ہوتاہے۔
  • کمیونٹی شراکت داری کا فقدان:زیادہ تر کمپنیاں اخراجات پر توجہ مرکوز کرتی ہیں،لیکن نظام کی کمی کی وجہ سے کمیونٹی کی شراکت داری کو یقینی بنانے میں ناکام ہو سکتی ہیں۔

پس منظر:ڈی اے وائی-این آر ایل ایم

دین دیال انتودیہ یوجنا-قومی دیہی روزی روٹی مشن (ڈی اے وائی-این آر ایل ایم) غریبی کے خاتمے کا ایک اہم پروگرام ہے جس کا مقصد غریب گھرانوں کو فائدہ مند خود روزگار اور ہنر مندانہ روزگار کے ذریعے آمدنی کے مواقع تک رسائی کے قابل بنانا ہے،تاکہ غریبوں کوپائیداراورمتنوع ذریعہ معاش کے مواقع دستیاب ہوسکیں۔یہ غریبوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے اقدامات میں سے ایک ہے۔ مشن چار اہم اجزاء میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے،جو یہ ہیں (اے) دیہی غریب خواتین کے اپنے ذریعے منظم اور مالی اعتبار سےپائیدار کمیونٹی اداروں کو فروغ دینا اور مضبوطی و سماجی نقل و حرکت فراہم کرنا (بی) مالی شمولیت (سی) پائیدار معاش اور (ڈی) سماجی شمولیت،سماجی ترقی کے توسط سے حقوق تک رسائی۔

مشن نے ایک گہری حکمت عملی کے تحت تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (سوائے دہلی اور چندی گڑھ) کے 709 اضلاع میں پھیلے 6811 بلاکوں کا احاطہ کیا ہے۔

8.33 کروڑ خواتین کو 76.5 لاکھ سیلف ہیلپ گروپس (ایس ایچ جی) میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، پروگرام کے تحت 1951 ماڈل سی ایل ایف میں عمل درآمد شروع کیا گیا ہے۔

ڈی اے وائی-ان آر ایل ایم گھنی آبادی والے بلاکوں میں کھیتی باڑی ، مویشی پروری اور  این ٹی ایف ٹی سے متعلق اقدامات کو فروغ دیتا ہے۔ ان اقدامات کا فوکس تربیت اور صلاحیت سازی کی تعمیر اور زرعی ماحولیاتی طریقہ کار کے ساتھ ساتھ جانوروں کی تعداد کو بڑھانے کے  طورطریقوں کو فروغ دینا ہے۔ ان اقدامات میں اب تک 3.10 کروڑ خواتین کسانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 14 لاکھ سے زیادہ خواتین کو پروڈیوسر گروپوں؍پروڈیوسر کمپنیوں سے منسلک کیا گیا ہے اور تقریباً 3.86 لاکھ ایس ایچ جی ممبران کو 183 پروڈیوسر کمپنیوں سے جوڑا گیا ہے۔

*************

 

ش ح-م م–ن ع

U. No.2276


(Release ID: 1903851) Visitor Counter : 114


Read this release in: English , Hindi