وزارت خزانہ
کالا دھن کی ضبطی
Posted On:
13 FEB 2023 6:27PM by PIB Delhi
انکم ٹیکس ایکٹ، 1961، کسٹمز ایکٹ، 1962، سی جی ایس ٹی ایکٹ، 2017، سینٹرل ایکسائز ایکٹ، 1944 اور فنانس ایکٹ، 2017 کے سابقہ باب V (سروس ٹیکس سے متعلق) کے تحت لفظ ’کالا دھن‘ کی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ یہ بات مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ جناب پنکج چودھری نے آج لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہی۔
جہاں تک انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ (آئی ٹی ڈی) کا تعلق ہے، وزیر موصوف نے کہا کہ جب بھی ’براہ راست ٹیکس‘ چوری کی کوئی قابل اعتماد معلومات اس کے علم میں آتی ہے، تو وہ تلاش اور ضبطی کی کارروائیوں سمیت مناسب کارروائی کرتا ہے، تاکہ غیر ظاہر شدہ آمدنی کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جاسکے۔ تلاشی اور ضبطی کی کارروائیوں کے دوران ضبط کیے گئے اثاثوں کی تفصیلات ضمیمہ (ANNEXURE) میں فراہم کی گئی ہیں۔
مزید برآں، ڈائریکٹوریٹ آف ریوینیو انٹیلی جنس (ڈی آر آئی) سمیت سنٹرل بورڈ آف اِن ڈائریکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز (سی بی آئی سی) کی فیلڈ فارمیشنوں کے ذریعے کی گئی نقدی کی ضبطی کی تفصیلات ضمیمہ (ANNEXURE) میں فراہم کی گئی ہیں۔
ای ڈی کی طرف سے کی گئی کارروائیوں کی تفصیلات ضمیمہ (ANNEXURE) میں شامل ہیں۔
مزید معلومات دیتے ہوئے، وزیر موصوف نے کہا کہ حکومت نے ایک جامع اور سخت نیا قانون نافذ کیا، یعنی بلیک منی (غیر ظاہر شدہ غیر ملکی آمدنی اور اثاثے) اور ٹیکس ایکٹ، 2015 (بی ایم اے، 2015) جو کہ 01.07.2015 سے نافذ العمل ہے۔ غیر ظاہر شدہ غیر ملکی آمدنی/ اثاثوں کے سلسلے میں جان بوجھ کر ٹیکس سے بچنے کی کوشش وغیرہ کا جرم منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ 2002 (پی ایم ایل اے) کے تحت ایک طے شدہ جرم ہے، جس کے بارے میں ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ (ای ڈی) کی طرف سے مناسب کارروائی کی جاتی ہے۔ جرائم سے حاصل ہونے والی آمدنی کی نشان دہی، عارضی اٹیچمنٹ اور مناسب مقدمات میں استغاثہ کی شکایات درج کرنا وغیرہ اس میں شامل ہیں۔
بی ایم اے، 2015 کے تحت آئی ٹی ڈی کی طرف سے کی گئی کارروائیوں کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
• 648 انکشافات جن میں روپے کے غیر ظاہر شدہ غیر ملکی اثاثے شامل ہیں۔ بی ایم اے، 2015 کے تحت 30 ستمبر 2015 کو بند ہوئے تین مہینے پر مشتمل یک وقتی تعمیل کے تحت 4,164 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔ ایسے معاملات جن میں ٹیکس اور جرمانہ کے ذریعہ رقم جمع کی گئی وہ رقم تقریباً 2476 کروڑ روپئے تھی۔
• 30.11.2022 تک، بی ایم اے، 2015 کے تحت 394 معاملات میں اسسمنٹ مکمل ہو چکے ہیں، جس سے 15570 کروڑ روپئے سے زیادہ کے ٹیکس ڈیمانڈ پیدا ہوئی ہے۔ مزید برآں، بی ایم اے، 2015 کے دفعات کے تحت 125 استغاثہ کی شکایات (پروزیکیوشن کمپلینٹ) درج کی گئی ہیں۔ ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے متعلق تفصیلات الگ الگ نہیں رکھی گئی ہیں۔
بی ایم اے، 2015 سے متعلق خلاف ورزیوں سے متلق معاملات میں ای ڈی کی طرف سے کی گئی کارروائیوں کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
• بی ایم اے، 2015 سے متعلق خلاف ورزیوں پر مشتمل پیش گوئی کے جرائم (پریڈیکیٹ اوفینسز) کے سلسلے میں 13 پی ایم ایل اے معاملات میں تفتیش کے دوران، جرم سے متعلق 42.57 کروڑ روپے کی رقم اٹیچ / ضبط کی گئی ہے اور استغاثہ کی 03 شکایات درج کی گئی ہیں۔
• مزید برآں، پانچ معاملات میں فیما کی دفعہ 37 اے کے تحت 93.07 کروڑ روپے کی اثاثہ جات ضبط کی گئی ہیں۔
وزیر موصوف نے کہا کہ حکومت ہند نے دوسرے ممالک کے ساتھ دوہرے ٹیکس سے بچاؤ کے معاہدوں/ٹیکس معلومات کے تبادلے کے معاہدے/ٹیکس معاملات میں باہمی انتظامی مدد پر کثیر الجہتی کنونشن/سارک کثیر جہتی معاہدہ (’’ٹیکس معاہدے‘‘) کیا ہے، جو معلومات کے تبادلے کی سہولت فراہم کرتا ہے اور جو ٹیکسوں سے متعلق گھریلو قوانین کے انتظام و انصرام اور نفاذ سے ممکنہ طور پر جڑا ہوا ہے۔ ہندوستان ان ٹیکس معاہدوں کے تحت معلومات کے تبادلے کے لیے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہا ہے۔
وزیر موصوف نے مزید کہا کہ ایف آئی یو – انڈیا ایگمونٹ گروپ کا ایک رکن ہے، جو کہ مالیاتی انٹیلی جنس یونٹس (ایف آئی یو) کے درمیان معلومات کے تبادلے اور تعاون کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اس گروپ میں آج تک 167 ممبران شامل ہیں۔ ایگمونٹ گروپ کے اراکین کے طور پر، ایف آئی یو اپنے کردار اور افعال کے مطابق مختلف معاملات پر ایک انتہائی محفوظ نیٹ ورک – ایگمونٹ سکیورڈ ویب (ای ایس ڈبلیو) کے ذریعے حقیقی وقت کی بنیاد پر آزادانہ طور پر معلومات کا تبادلہ کر سکتا ہے۔ ایف آئی یو- انڈیا نے انٹیلی جنس کے تبادلے کے لیے 2008 سے لے کر 2022 تک اپنے غیر ملکی ہم منصبوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے 48 ممالک کے ساتھ مفاہمت ناموں (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں۔
مزید معلومات دیتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ ملک میں کالے دھن کی مقدار کی وضاحت/پیمانے کے لیے کوئی سرکاری تخمینہ یا طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ تاہم، حکومت نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی (این آئی پی ایف پی)، نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ (این سی اے ای آر) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فنانشیل منیجمنٹ (این آئی ایف ایم) کے ذریعے ملک کے اندر اور باہر غیر محسوب آمدنی اور دولت کے تخمینے سے متلق ایک مطالعہ کرایا تھا۔ رپورٹس اور ان پر حکومت کا تفصیلی جواب لوک سبھا سکریٹریٹ کو ارسال کر دیا گیا، تاکہ انہیں خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے رکھا جاسکے۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے مناسب غور و خوض اور ضروری زبانی ثبوت لینے کے بعد 28.03.2019 کو اس معاملے پر ایک ابتدائی رپورٹ (یعنی مالیات پر قائمہ کمیٹی کی 73 ویں رپورٹ) اسپیکر لوک سبھا کو پیش کی اور اس رپورٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ ’’ ملک کے اندر اور باہر غیر محسوب آمدنی اور دولت ہندوستان کے تناظر میں قابل اعتبار اندازے کے لائق نہیں دکھائی دیتی ہے۔‘‘
******
ش ح۔ م م۔ م ر
U-NO.1608
(Release ID: 1898982)