زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنا

Posted On: 03 FEB 2023 7:32PM by PIB Delhi

حکومت نے زراعت پر ان پٹ لاگت کو کم کرنے، زیادہ پیداوار اور کسانوں کے لیے زیادہ آمدنی کے حصول کے لیے کئی ترقیاتی پروگرام، اسکیمیں، اصلاحات اور پالیسیاں اپنائیں/ نافذ کی ہیں۔ان میں درج ذیل  شامل ہیں:

  1. بجٹ مختص کرنے میں بے مثال اضافہ

سال 14-2013 میں زراعت کی وزارت (بشمول ڈی اے آر ای) اور ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کی وزارت کی بجٹ مختص رقم صرف 30223.88 کروڑ روپےتھی۔ یہ 2022-23 میں 4.59 گنا سے زیادہ بڑھ کر 138920.93 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔

  1. پی ایم کسان کے ذریعے کسانوں کو انکم سپورٹ

سن2019 میں پی ایم -کسان کا آغاز - ایک انکم سپورٹ اسکیم جو کہ 6000 سالانہ 3 مساوی قسطوں میں فراہم کرتی ہے۔  اب تک 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو 2.24 لاکھ کروڑ روپے سے زائدجاری کیے جا چکے ہیں۔

  1. پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی بائی)

چھ سال پی ایم ایف بی وائی کا آغاز 2016 میں کسانوں کے لیے اعلیٰ پریمیم کی شرح اور کیپنگ کی وجہ سے بیمہ کی رقم میں کمی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نفاذ کے پچھلے 6 سالوں میں - 38 کروڑ کسانوں کی درخواستوں کا اندراج کیا گیا ہے اور 12.37 کروڑ (عارضی) کسان درخواست دہندگان نے دعوے وصول کیے ہیں۔ اس عرصے کے دوران تقریباً 25252 کروڑ روپے کسانوں نے پریمیم کے اپنے حصے کے طور پر ادا کیے جس کے خلاف انہیں 130015 کروڑ روپے (عارضی) سے زیادہ کے دعوے ادا کیے گئے ہیں۔ اس طرح کسانوں کی طرف سے ادا کیے گئے پریمیم کے ہر 100 روپے کے بدلے، انہیں تقریباً 514 روپے دعوے کے طور پر موصول ہوئے ہیں۔

  1. زرعی شعبے کے لیے ادارہ جاتی قرض
  1. سال 14-2013 میں 7.3 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ  23-2022 میں 18.5 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچنے کے ہدف کے ساتھ۔
  2. اے سی سی کے ذریعے  4 فیصد سالانہ سود پر رعایتی ادارہ جاتی قرض کا فائدہ بھی ، اب مویشی پروری اور ماہی پروری کے کشانوں کو، ان کی قلیل مدتی فعال سرمایے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے  بڑھا دیا گیا ہے۔
  • iii. کسان کریڈٹس کارڈز (اے سی سی) کے ذریعے، پی ایم کسان استفادہ کنندگان کا احاطہ کرنے پر توجہ دینے کے ساتھ ، رعایتی ادارہ جاتی قرض فراہم کرنے کے لیے 2020 سے خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ 23 دسمبر 2022 تک 387.87 لاکھ کے سی سی کی نئی درخواستوں کو منظوری دی گئی ہے۔ منظورہ شدہ ترمیمی حد ،مہم کے ایک حصے کے طور پر ،449443 کروڑ روپئے ہے۔
  • iv. پیداواری لاگت کے ڈیڑھ گنا پر کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا تعین-
  1. حکومت نے  تمام لازمی خریف ، ربیع اور دیگر تجارتی فصلوں کے لیے ، ایم ایس پی میں  19-2018 سے کم از کم پچاس فیصدی واپسی کے اضافہ کیا ہے۔
  • vi. دھان (عام) کے لیے ایم ایس پی 14-2013 میں 1310 روپئے فی کوئنٹل سے بڑھ کر 23-2022 میں 2040 روپئے فی کوئنٹل ہوگئی ہے۔
  1. گندم کے لیے  ایم ایس پی کو 14-2013 میں 1400 روپئے فی کوئنٹل سے بڑھا کر 23-2022 میں 2125 روپئے فی کوئنٹل کردیا گیا ہے۔
  2. ملک میں  نامیاتی کاشتکاری کو فروغ دینا
  • ix. پرم پرگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی) کو ملک کو نامیاتی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے 16-2015 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس میں 32384 کلسٹر بنائے گئے ہیں اور 6.53 لاکھ ہیکٹر رقبے کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں 16.19 کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ علاوہ ازیں، نمامی گنگے پروگرام کے تحت ، 123620 ہیکٹر رقبے اور قدرتی کھیتی کے تحت 4.09 لاکھ ہیکٹر رقبے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، بہار اور جھارکھنڈ میں کسانوں نے دریائے گنگا کے دونوں طرف نامیاتی کاشتکاری شروع کی ہے تاکہ ندی کے پانی کی ا ٓلودگی کو کنٹرول کیا جاسکے اور اس کے ساتھ کسانوں کو اضافی آمدنی حاصل ہوسکے۔
  1. حکومت ، بھارتیہ پراکرتک کرشی پدھتی (بی پی کے پی) اسکیم کے ذریعے ، پائیدار قدرتی کاشتکاری کے نظام کو فروغ دینے کی تجویز رکھتی ہے۔ مجوزہ اسکیم کا مقصد کاشتکاری کی لاگت کو کم کرنا، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور وسائل کے تحفظ اور محفوظ اور صحتمند مٹی، ماحولیات اور خوراک کو یقینی بنانا ہے۔
  • xi. شمال مشرقی خطے میں مشن آرگینک ویلیو چین ڈیولپمنٹ (ایم او وی سی ڈی این ای آر) شروع کیا گیا ہے۔ 189039 کسانوں پر مشتمل اور 172966 ہیکٹر رقبے پر مشتمل 379 فارمر پروڈیو کمپنیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
  1. فی قطرہ مزید فصل

فی قطرہ مزید فصل (پی ڈی ایم سی) اسکیم سال 16-2015 میں شروع کی گئی تھی جس کا مقصد پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بڑھانا، ماحصل کی لاگت کو کم کرنا اور مائیکرو  ا ٓبپاشی ٹیکنالوجیوں یعنی ڈرپ اور اسپرنکلر آبپاشی کے نظام کے ذریعے، فارم کی سطح پر  پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ پی ڈی ایم سی اسکیم کے ذریعے سال 16-2015 سے ا ب تک 69.55 لاکھ ہیکٹر کا رقبہ مائیکر آبپاشی کے تحت آیا ہے۔

  1. مائیکرو آبپاشی فنڈ

این اے بی اے آر ڈی کے ساتھ ابتدائی کارپس 5000 کروڑ روپئے کا ایک مائیکرو ا ٓبپاشی فنڈ بنایا گیا ہے۔ 22-2021 کے بجٹ کے اعلان میں ، اس فنڈ کے کارپس کو 10000 کروڑ روپئے تک بڑھایا جانا ہے۔ 17.09 لاکھ ہیکٹر پر محیط 4710.96 کروڑ روپئے مالیت کے پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔

  1. کسانوں کی پیداواری تنظیموں (ایف پی اوز) کا فروغ
  1. مورخہ 29 فروری، 2020 کو وزیر اعظم کے ذریعے نئے 10000 ایف پی ا وز کی تشکیل اور فروغ کے لیے مرکزی شعبے کی ایک نئی اسکیم کا آغاز کیا گیا جس کا بجٹ 28-2027 تک 6865 کروڑ روپئے ہے۔
  2. مورخہ 30 نومبر 2022 تک ، 4028 کی تعداد میں  ایف پی اوز، اسکیم کے تحت رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔
  • iii. مورخہ 30 نومبر 2022 تک روپئے کی اکویٹی امداد ، 1415ایف پی اوز کو ، 53.4 کروڑ روپئے کی رقم کی صورت میں جاری کئے گئے ہیں۔
  • iv. مورخہ 12 دسمبر 2022 تک ، 447 ایف پی اوز کو 78 کروڑ روپئے مالیت کا کریڈٹ گارنٹی کور فراہم کیا گیا ہے۔
  1. شہد کی مکھیوں کے پالن اور شہد کا قومی مشن (این بی ایچ ایم) 2020 میں ، آتم نربھر بھارت ابھیان کے ایک حصے کے طور پر، شروع کیا گیا ہے تاکہ پولنیشن کے ذریعے فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے، نیز شہد کی پیداوار میں اضافہ ا ٓمدنی کے ا یک اضافے کے طور پر کیا جاسکے۔21-2020 سے 23-2022 تک کی مدت کے لیے، 500 کروڑ روپئے شہد کی مکھیوں کے پالنے کے شعبے کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔ 21-2020 اور 22-2021 کے دوران این بی ایچ ایم کے تحت  تقریباً 139.23 کروڑ روپئے کی امداد کے لیے 114 پروجیکٹوں کو اب تک منظوری دی گئی ہے۔
  • vi. زرعی میکانائیزیشن
  1. میکانائیزیشن، زراعت کو جدید بنانے اور کاشتکاری سے متعلق کاموں کی سختی کو کم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ سال 15-2014 سے مارچ 2022 کے دوران، زرعی میکانائیزیشن کے لیے  5490.82 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ کسانوں کی سبسڈی کی بنیاد پر 1388314 مشینیں اور آلات فراہم کئے گئے ہیں۔18824 کسٹم ہائرنگس مراکز، 403 ہائی-ٹیک ہب اور 16719 فارم مشینری بینک قائم کئے گئے ہیں تاکہ کسانوں کو  کرایے کی بنیاد پر زرعی مشینیں اور آلات دستیاب ہوں۔ رواں سال یعنی 23-2022 کے دوران سبسڈی پر اب تک کی رقم تقریباً 65302 مشینوں کی تقسیم، 2804 سی ایچ سیز، 12 ہائی ٹیک ہبس او گاؤں کی سطح کے فارم مشینری بینکوں کے قیام کے لیے ، 504.43 کروڑ روپئے جاری کئے گئے ہیں۔
  2. کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ فراہم کرنا

سوائل ہیلتھ کارڈ اسکیم سال 2014-15 میں متعارف کرائی گئی تھی تاکہ غذائی اجزاء کے استعمال کو بہتر بنایا جا سکے۔ کسانوں کو درج ذیل نمبروں کے کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔

  1. سائیکل- I (2015 سے2017) – 10.74 کروڑ
  2. سائیکل- II (2017 سے2019) – 12.19 کروڑ
  • iii. ماڈل ولیج پروگرام (20-2019) – 23.71 لاکھ
  • iv. سال 21-2020 میں - 11.52 لاکھ

13. قومی زرعی مارکیٹ (ای-این اے ایم) توسیعی پلیٹ فارم کا قیام

  1. کل 22 ریاستوں اور 03 مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 1260 منڈیوں کو ای-این اے ایم پلیٹ فارم سے مربوط کیا گیا ہے۔ مورخہ 29 نومبر2022 تک، 1.74 کروڑ سے زیادہ کسان اور 2.37 لاکھ تاجر ای-این اے ایم پورٹل پر رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔
  2. مورخہ 29 نومبر2022 تک،مجموعی طور پر 6.8 کروڑ ایم ٹی اور 20.05 کروڑ کی تعداد (بانس، پان کے پتے، ناریل، لیموں اور سویٹ کارن) کے مجموعی حجم کی تجارت ای-این اے ایم پلیٹ فارم پر ریکارڈ کی گئی ہے جس کی مالیت تقریبا 2.33 لاکھ کروڑروپے ہے۔
  3. یکم دسمبر2022 تک، ای-این اے ایم پلیٹ فارم پر پرکھ کے لیے 203 زراعت اور اس سے منسلک مصنوعات ٹریڈ ایبل پیرامیٹر بنائے گئے ہیں۔
  4. خوردنی تیلوں کے لیے قومی مشن – آئل پام این ایم ای اوکے آغاز کو کل 11,040 کروڑ روپے کے اخراجات کے ساتھ منظوری دی گئی ہے۔ اس سے اگلے 5 سالوں میں شمال مشرقی ریاستوں میں 3.28 لاکھ ہیکٹر اور باقی ہندوستان میں 3.22 لاکھ ہیکٹر کے ساتھ آئل پام پلانٹیشن کے تحت، 6.5 لاکھ ہیکٹر کا اضافی رقبہ آئے گا۔ اس مشن کا سب سے بڑا توجہ ان کسانوں کو تازہ پھلوں کی فصلوں (ایف ایف بیز) کی قابل عمل قیمتیں فراہم کرنا ہے جو صنعت کے ذریعہ ایک آسان قیمت طے کرنے والے فارمولے کے ساتھ یقینی خریداری سے منسلک ہیں۔
  5. زرعی بنیادی ڈھانچہ کافنڈ(اے آئی ایف)
  6. سال 2020 میں اے آئی ایف کے آغاز کے بعد سے، اسکیم نے 19191 پروجیکٹوں کے لیے ملک میں زرعی بنیادی ڈھانچے کے لیے 14170 کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے۔ اسکیم کے تعاون سے، مختلف زراعت کے بنیادی ڈھانچے بنائے گئے اور کچھ بنیادی ڈھانچے تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ ان بنیادی ڈھانچوں میں 8215 گودام، 3076 پرائمری پروسیسنگ یونٹس، 2123 کسٹم ہائرنگ سینٹرز، 992 چھانٹی اور گریڈنگ یونٹس، 728 کولڈ اسٹور پروجیکٹس، 163 اسیسنگ یونٹس اور تقریباً 3632 دیگر قسم کے کٹائی کے بعد کے انتظامیہ کےپروجیکٹس اور کمیونٹی فارمنگ اسیٹس شامل ہیں۔

16. زرعی پیداوار کی لاجسٹکس میں بہتری، کسان ریل کا تعارف۔

کسان ریل کو، وزارت ریلوے نے خصوصی طور پر خراب ہونے والی زرعی اجناس کی نقل و حرکت کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا ہے۔ پہلی کسان ریل جولائی 2020 میں شروع ہوئی تھی۔ 31 دسمبر 2022 تک 167 روٹس پر 2359 خدمات چلائی جا چکی ہیں۔

17. ایم آئی ڈی ایچ - کلسٹر ترقیاتی پروگرام:

کلسٹر ترقیاتی پروگرام (سی ڈی پی) کو باغبانی کے کلسٹروں کی جغرافیائی مہارت سے فائدہ اٹھانے اور پیداوارسے پہلے ، پیداوار، فصل کے بعد، لاجسٹکس، برانڈنگ اور مارکیٹنگ کی سرگرمیوں کی مربوط اور مارکیٹ کی قیادت میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ڈی اے اینڈ ایف ڈبلیو نے باغبانی کے 55 کلسٹرز کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے 12 کو سی ڈی پی کے پائلٹ مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

18. زراعت میں  اور اس سے منسلک شعبے میں ایک اسٹارٹ ا پ ایکو نظام کی تشکیل

 ابھی تک مالی سال 20-2019 سے 23-2022 کے دوران ، 1102 اسٹارٹ اپس کو ، ڈی اے اور ایف ڈبلیو کے مختلف نالج پارٹنرز اور زرعی بزنس انکیوبیٹرس نے آخر کار منتقل کیا ہے۔ متعلق نالج پارنٹرز (کے پیز) اور پی کے وی وائی  رفتار  ایگری بزنس انکیوبیٹر (آر –اے بی آئیز)   جانب سے  گرانٹ  ان ایڈ معاونت کے طور پر 68.83 کروڑ روپئے جاری کئے گئے ہیں۔

19. زرعی اور اس سے منسلک زرعی اجناس کی برآمدات میں کامیابی

ملک میں زرعی اور اس سے منسلک اجناس کی برآمدات میں زبردست نمو دیکھی ہے۔ پچھلے سال ، 21-202 کے مقابلے میں  زرعی اور اس سے منسلک برآمدات 21-2020 میں 41.86 ا رب امریکی ڈالر سے بڑھ کر 22-2021 میں 50.24 ارب امریکی ڈالر مالیت کی ہوگئی ہے ی عنی 19.99 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

ان اسکیموں کے مثبت نفاذ میں حکومت کی کاوشوں سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے نمایاں نتائج سامنے آئے ہیں۔ آزادی کا امرت مہوتسو کے ایک حصے کے طور پر ، زرعی تحقیق کی ہندوستانی کونسل (آئی سی اے آر) نے  ایک کتاب جاری کی ہے جس میں ان لاتعداد کسانوں میں سے ، 75000 کسانوں کی کامیابی کی کہانیاں شامل ہیں جنھوں نے اپنی آمدنی میں دو گنا سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔

یہ معلومات زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں فراہم کیں۔

*****

U.No.1476

(ش ح - اع - ر ا)   



(Release ID: 1898290) Visitor Counter : 110


Read this release in: English