جل شکتی وزارت

زیر زمین پانی کی سطح میں کمی

Posted On: 25 JUL 2022 5:39PM by PIB Delhi

ملک کے کچھ حصوں میں زیر زمین پانی کی سطح میں  کمی ہورہی ہے کیونکہ  مختلف ضرورتوں میں   استعمال کے لئے مسلسل پیدا ہونے والی تازے کی پانی طلب ،بارشوں میں بے ترتیبی ،بڑھتی ہوئی آبادی ،صنعت کاری اور شہرکاری وغیرہ  کی وجہ سے زیر زمین  پانی  کے مسلسل انخلا کی ضرورت ہے۔

زیر زمین پانی کا  مرکزی بورڈ (سی جی ڈبلیو بی)  وقتاً فوقتاً  ملک بھر میں  زیر زمین پانی  کی سطح   کی نگرانی  علاقائی سطح پر کنوؤں کی نگرانی کے ایک نیٹ ورک کے ذریعہ کررہا  ہے۔زیر زمین پانی  کی سطح میں طویل مدتی  اتار چڑھاؤ  کا اندازہ لگانے  کےلئے  ، سی جی ڈبلی بی کے ذریعہ  جمع کئے گئے  پانی کی سطح کا  ڈاٹا    نومبر 2011 سے نومبر 2020 کے دہائی کے اوسط کے مقابلے میں  نومبر 2021 کے دوران یہ ظاہر کرتا ہے کہ تقریباً 70% کنوؤں کے  پانی کی سطح میں اضافہ درج کیا  گیا ہے، نگرانی کیے گئے تقریباً 30% کنوؤں میں  زیر زمین پانی کی سطح میں زیادہ تر 0 - 2 میٹر کی حد میں کمی درج کی  گئی ہے۔

پانی ریاست کا موضوع ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کا پائیدار انتظام بشمول بارش کے پانی کی مؤثر ذخیرہ اندوزی کے لیے مناسب کارروائی شروع کرنا، پانی کے استعمال کی کارکردگی میں اضافہ وغیرہ ریاستوں کے دائرہ اختیار  میں آتا ہے۔ مزید برآں، مرکزی حکومت گاؤں/گرام پنچایت سطح کے پانی کے تحفظ کے منصوبے کی بنیاد پر سطح اور زیر زمین  پانی کے مشترکہ استعمال کے تصور کو فروغ دے رہی ہے جسے سائنسی انداز میں کمیونٹیز/شراکت داروں کی شرکت کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔

صحت اور خاندانی بہبود کے محکمے، پنچایتی  راج کی وزارت ،پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی  کے  محکمے،خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت،زراعت اور کسانوں کے بہبود  کے محکمے ،آبی وسائل کے محکمے،آر ڈی اور جی آر ،زمینی وسائل کے محکمے اور دیہی ترقی  ترقی کے محکمےنے مشترکہ طور پر تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو 31 مارچ 2022 کے خط کے ذریعے مشورہ دیا ہے کہ وہ شراکتی موڈ کے ذریعے کمیونٹیز کو شامل کرکے ملک کے گاؤں  کو پانی کی فراہمی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

حکومت عالمی بینک کی مدد سے 6000 کروڑ روپے کی مالیت کی مرکزی سیکٹر اسکیم  اٹل بھوجل یوجنا (اٹل جل) کو نافذ  کر رہی ہے،   جس کا مقصد  منتخب علاقوں میں کمیونٹی کی شراکت کے ساتھ زیر زمین پانی کے وسائل کے پائیدار انتظام کرنا ہے ،جس میں 80  اضلاع، 224 انتظامی بلاکس اور سات ریاستوں ، ہریانہ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان اور اتر پردیش 01.04.2020 سے 5 سال کی مدت کے لیے 8562 پانی کے دباؤ والے گرام پنچایتیں (جی پی ز) شامل ہیں ۔

محکمہ کی طرف سے 24 ستمبر 2020 کو زیر زمین  پانی کے ضابطے کے لیے رہنما خطوط مطلع کیے گئے تھے جس   کا مقصد صنعتوں، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور کان کنی کے منصوبوں سمیت مختلف صارفین کے ذریعے کنویں کی کھدائی کو قابو  کرنے سمیت زیر زمین آبی  وسائل کے موثر استعمال کو فروغ دینا تھا۔ رہنما خطوط ریاستوں کو کسانوں کے لیے مفت/سبسڈی والی بجلی کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ وہ  (جہاں بھی قابل اطلاق ہو)، پانی کی قیمتوں کا  مناسب تعین کرنے کی پالیسی لائیں   اور زیر زمین  پانی پر زیادہ انحصار کو کم کرنے کے لیے فصل کی گردش/تنوع/دیگر اقدامات کی سمت کام کریں۔

حکومت ہند  نے سال 2019 میں ملک میں پانی کے دباؤ والے 256 ضلعوں  میں جل شکتی ابھیان(جے ایس اے )  کا آغاز کیا تھا ،جو سال 2021 کے دوران بھی جاری  رہا  اور ان علاقوں میں  زیر زمین پانی کی صورت حال  سمیت  پانی کی فراہمی   کی سطح میں بھی بہتری  کی۔اس کے علاوہ سال 2021 اور 2022 کےلئے ’’جل شکتی  ابھیان –کیچ دی رین (بارانی  پانی  کی ذخیرہ اندوزی )‘‘(جے ایس اے :سی ٹی آر) مہم  کا آغاز بالترتیب وزیر اعظم  اور  صدرجمہوریہ ہند نے کیا تھا۔جے ایس اے  30 نومبر 2022 تک جاری رہے گا۔ جے ایس اے نے ریچارج ڈھانچے کی تخلیق، روایتی آبی ذخائر کی بحالی، انتہائی شجرکاری وغیرہ پر خصوصی زور دیا ہے۔

اس کے علاوہ  کئی ریاستوں نے پانی کے تحفظ / ذخیرہ اندوزی  کے میدان میں قابل ذکر کام کیا ہے جیسے کہ راجستھان میں 'مکھیہ منتری جل سوالامبن ابھیان'، مہاراشٹر میں ’جل یکت شیبر'، گجرات میں سوجالم  سوفالم  ابھیان'، تلنگانہ میں 'مشن کاکاتیہ' آندھرا پردیش میں نیرو چیتو، بہار میں جل جیون ہریالی، ہریانہ میں 'جل ہی جیون'، اور تمل ناڈو میں کڈیمارا متھ  اسکیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ملک میں زیر زمین پانی کے پائیدار انتظام کے لیے مرکزی حکومت کے ذریعے اٹھائے گئے دیگر اہم اقدامات  اس طرح ہیں

http://jalshakti-dowr.gov.in/sites/default/files/Steps%20taken%20by%20the%20Central%20Govt%20for%20water_depletion_july2022.pdf

یہ معلومات وزیر مملکت  جناب بشویشور ٹوڈو نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی ہے۔

******

ش ح۔ ا م۔

U NO-13206



(Release ID: 1880434) Visitor Counter : 121


Read this release in: English