وزارت اطلاعات ونشریات
’’دھابری کوروی‘‘ ہندوستانی فلم کی تاریخ کی پہلی فیچر فلم ہے، جس میں صرف آدیواسیوں نے اداکاری کی ہے
میری کوشش سنیما کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرکے ایک وجہ کے لیے کام کرنا ہے: ہدایت کار پریہ نندن
’’دھابری کوروی‘‘ ایک ایسی آدیواسی لڑکی کے مشکل سفر کو دکھاتی ہے، جو قدامت پرستی سے لڑتی ہے اور خود کو ان زنجیروں سے آزاد کرنا چاہتی ہے، جن سے سماج اور برادری نے اس کے جیسے دوسروں کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں پہلی فلم ہے، جس میں صرف آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے فنکاروں نے اداکاری کی ہے۔ آج ’دھابری کوروی‘ کا ورلڈ پریمیئر گوا میں منعقدہ 53ویں ہندوستانی بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں ہندوستانی پینورما سیکشن کے تحت کیا گیا۔ اس فلم کو ایرولا کی آدیواسی زبان میں پوری طرح سے شوٹ کرنے کا بھی امتیاز حاصل ہے۔
قومی ایوارڈ یافتہ فلم ساز اور ہدایت کار پریہ نندن نے اس فیسٹیول کے دوران پی آئی بی کی طرف سے منعقد ’’ٹیبل ٹاکس‘‘ اجلاس میں سے ایک میں میڈیا اور فیسٹیول کےنمائندوں کے ساتھ بات چیت کی۔ انہوں نے نوجوان آدیواسی لڑکیوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کی اپنی ایماندار خواہش کو بھی شیئر کیا، جو اپنی برادری کے ذریعے ان کے لیے متعین کی گئی ’’قسمت‘‘ کے پیمانے کو تسلیم کرنے کی جگہ اپنے لیے لڑنا بھول گئی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’سنیما کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے میری کوشش ایک وجہ کے لیے کام کرنا ہے۔‘‘
پریہ نندن نے اپنی اس فلم کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیرالہ میں ایک آدیواسی برادری میں غیر شادی شدہ ماؤں سے متعلق ایک عصری مدعے کے بارےمیں ہے۔ پریہ نندن نے کہا، ’’وہ اس سے باہر آنے کی ایک بھی کوشش کیے بغیر اس مشکل امتحان کو اپنی قسمت مان کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘
اس فلم میں ایک سیدھی آدیواسی لڑکی کی کہانی دکھائی گئی ہے، جو نچلی سطح سے اٹھ کر اپنے جسم اور اس سے متعلق کیے گئے فیصلوں پر اپنے خصوصی اختیار کا اعلان کرتی ہے۔ قدیم کہانی کے مطابق دھابری کوروی ایک گوریا ہے، جس کے والد کے بارےمیں جانکاری نہیں ہوتی ہے۔
پریہ نندن نے کسی مقام، اس کے لوگوں کو حاشیہ پر رکھنے اور مرکزی دھارے کی طرف سے ان کا مذاق اڑائے جانے پر اپنے خیالات شیئر کیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی فلم کے توسط سے اس تصور کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔
سماجی تبدیلی کے وسیلہ کے طور پر سنیما کا استعمال کرنے پر پریہ نندن نے کہا کہ سنیما کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ صرف تفریح کے لیے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس کا استعمال ان لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کےلیے کیا جا سکتا ہے، جن سے ہماری ملاقات بھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
فلم کی شوٹنگ کے دوران زبان کی وجہ سے سامنے آنے والی چنوتیوں کے بارےمیں پوچھے جانے پر پریہ نندن نے زور دے کر کہا کہ پورا عمل آسان تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’چونکہ ہماری جذباتی سطح ایک جیسی ہے، اس لیے زبان کبھی بھی رکاوٹ نہیں تھی۔‘‘ پریہ نندن نے بتایا کہ فلم کی اسکرپٹ کو پہلے ملیالم میں لکھا گیا تھا اور بعد میں اسے ایرولا میں ترجمہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈراما اسکولوں میں تربیت یافتہ آدیواسی لوگوں نے بھی اس کی اسکرپٹ میں میری مدد کی تھی۔
آدیواسی لوگوں سے خود کو جوڑنے کے بارے میں پریہ نندن نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے اس برادری کے ساتھ وقت گزارا اور ان سے دوستی کی۔ انہوں نے کہا، ’’اس وقت سے یہ آسان تھا، کیوں کہ انہیں مجھ پر بہت بھروسہ تھا۔‘‘
اس فلم کے لیے آدیواسی برادریوں کا انتخاب کرنے کے لیے اٹّاپدی میں ایک اداکاری ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں تقریباً 150 لوگوں نے شرکت کی۔ پہلی بار اداکاری کر رہے ان اداکاروں کے ساتھ کام کرنے میں آنے والی چنوتیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ’’ہر انسان کے اندر ایک فنکار ہوتا ہے۔ میں نے انہیں کبھی اداکاری کرنے کے لیے نہیں کہا، وہ صرف جیسے ہیں، ویسے ہی برتاؤ کرتے تھے۔ وہ اپنی حقیقی زندگی میں صرف مشکل حالات کو جی رہے تھے۔‘‘
پریہ نندن نے اداکاری کے لیے فطری مزاج رکھنے والے لوگوں سے جڑنے کی ضرورت پر اپنے خیالات شیئر کیے۔ انہوں نے کہا، ’’آدیواسی اداکار میری توقعات سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل تھے۔ جذبات کا اظہار کرنا ہمہ گیر زبان ہے۔ ہر برادری میں ایسے جواہر ہیں، جو بغیر کسی ٹریننگ کے دل سے کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔‘‘
آدیواسیوں کے مسائل کو نشان زد کرتے ہوئے پریہ نندن نے کہا کہ انہیں مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سرمایہ کی کوئی کمی نہیں ہونے کے باوجود ان لوگوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آدیواسی لوگوں کو ان کے سیاق و سباق میں سمجھنے اور اس کی بنیاد پر پالیسیاں بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں واقع آدیواسی علاقہ اٹّاپدی کے ایرولا، مدوکا، کروبا اور وڈوکا آدیواسی برادریوں سے متعلق 60 سے زیادہ لوگوں نے اس فلم میں اداکاری کی ہے۔ ہدایت کار نے کہا، ’’ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک بھی فلم نہیں دیکھی تھی۔‘‘
پریہ نندن نے اس فلم کے ورلڈ پریمیئر کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کرانے پر آئی ایف ایف آئی کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے سبھی آدیواسی بستیوں میں فلم دکھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
میڈیا سے بات چیت کے دوران فلم میں مرکزی کردار نبھانے والی میناکشی اور شیامنی کے ساتھ سنیماٹوگرافر اشو گھوشن بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ فنکاروں میں انوپرشوبھنی اور مروکی سمیت اٹاپدی کی آدیواسی خاتون نانجی یما بھی شامل ہیں، جنہیں پچھلے سال سب سے بہتر خاتون گلوکارہ کے 68ویں قومی فلم ایوارڈ سے نوازار گیا تھا۔
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U: 12973
(Release ID: 1879136)
Visitor Counter : 177