بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی راستوں کی وزارت

جناب سربانند سونووال نے  گرین پورٹ اور جہاز رانی کے لیے، ہندوستان کے پہلے سینٹر آف ایکسیلینس کا آغاز کیا


 ایکسیلینس  برائے  گرین پورٹ اور جہاز رانی کے قومی مرکز (این سی او ای جی پی ایس)، کا مقصد بندرگاہوں اور جہازرانی کو تبدیل کرنے کے لیے، سبز حل فراہم کرنا ہے: جناب سونووال

مرکز، وزیر اعظم نریندر مودی کے وژن کے مطابق، ماحولیات کے تحفظ اور سلامتی کی  اجتماعی کارروائی کے لیے’لائف‘ تحریک میں شامل ہورہا ہے: جناب  سونووال

Posted On: 19 NOV 2022 5:31PM by PIB Delhi

بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں نیز آیوش کے مرکزی وزیر جناب سربانند سونووال نے،  بھارت کے پہلے نیشنل سینٹر ا ٓگ ایکسیلینس اور گرین پورٹ اینڈ  شپنگ(این سی او ای جی پی ایس) کا اعلان کیا جو بندرگاہوں، جہاز رانی کی وزارت کی طرف سے  گرین سولیوشنز فراہم کرنے کے تئیں  ایک بڑی پہل ہے۔ یہ اعلان مرکزی وزیر نے ممبئی میں حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے ’’آئی این ایم اے آر سی او 2022‘‘ میں کیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001DTPR.jpg

مرکز کا مقصد، ہندوستان میں جہاز رانی کے شعبے میں کاربن غیر جانبداری اور مرغولاتی معیشت (سی ای) کو فروغ دینے کے لیے گرین شپنگ کے لیے ایک ریگولیٹری لائحہ عمل اور متبادل ٹیکنالوجی اختیار کرنے کا روڈ میپ تیار کرنا ہے۔ ہندوستان، قابل تجدید توانائی کا حصہ، اپنی ہرایک بڑی بندرگاہ کی مجموعی بجلی کی طلب میں  10 فیصدی سے کم کے موجودہ حصے سے بڑھا کر اسے 60 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ شمسی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کے ذریعے ہوگا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002F2IV.jpg

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جناب سونووال نے کہا کہ ’’وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کے مشن لائف تحریک کو عملی جامہ پہنانے کی وزارت کی جانب سے ایک بڑی کوشش کے طور پر، گرین پورٹ اور جہاز رانی کے لیے ، ہندوستان کے پہلے سینٹر آف ایکسیلینس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے مجھے از حد خوشی ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی جی کے وژن کے مطابق ، یہ تحریک ، ماحولیات کے تحفظ اور سلامتی کی اجتماعی کارروائی کے لیے ، ہندوستان کی قیادت میں ایک عالمی تحریک بننے جارہی ہے۔یہ مرکز اس تحریک کی جانب ایک اہم قدم ہے کیونکہ اس کا مقصد بندرگاہوں کو تبدیل کرنا اور جہاز رانی کو مزید ماحول دوست بنانا ہے‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0031DMM.jpg

کاندھلہ کی دین دیال پورٹ اتھارٹی، پارادیپ کی پارادیپ کی پورٹ اٹھارتی،تھوتھوکوڈی کی وی او چدمبرانار پورٹ  اتھارٹی اور کوچین کے کوچین شپیارڈ لمیٹڈ، سب نے  اس مرکز کے قیام کے لیے، وزارت کو اپنا تعاون فراہم کیا ہے۔ توانائی اور وسائل کا انسٹی ٹیوٹ (ٹی ای آر آئی) اس پروجیکٹ کے لیے معلومات اور عملدرآمد کاشراکت دار ہے۔

اس ضمن میں ، مزید خطاب کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ ’’یہ مرکز ہندوستان میں جہازرانی کے شعبے میں بندرگاہوں ، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی وزارت کے لیے پالیسی اور  ریگولیٹری معاونت میں مدد کرے گا تاکہ ریگولیٹری لائحہ عمل اور گرین جہاز رانی کے لیے ، متبادل ٹیکنالوجی اختیار کرنے کے  روڈ میپ ، کاربن غیر جانبداری اور مرغولاتی معیشت کو فروغ دیا جاسکے۔ میں اس پروجیکٹ کے تمام شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنے وسائل کو اس شعبے کے ایک انتہائ پہلو کی طرف مرکوز کیا ہے‘‘۔

بندرگاہوں کا مقصد  سن 2030 تک  مال برداری کے فی ٹن  کاربن  کے اخراج کو  30 فیصد تک کم کرنا ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی طرف سے جاری کردہ میری ٹائم ویژن دستاویز 2030، ایک پائیدار سمندری شعبے اور متحرک نیلگوں معیشت کے ہندوستان کے ویژن پر  دس سالہ  خاکہ ہے۔آئی ایم او گرین اوییج 2050 پروجیکٹ کے تحت ، ہندوستان کو گرین جہاز رانی سے متعلق ایک پائلٹ پروجیکٹ کرنے والے پہلے ملک کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔

ہندوستان، جہازوں کے لیے موجودہ آئی ایم او توانائی کی کارکردگی کی ضروریات اور اپنے تمام جہازوں پر  کاربن کی شدت کی ضروریات کو بھی نافذ کرنا چاہے گا ،چاہے وہ  ساحلی ہوں یا بین الاقوامی؛ تاکہ آئی ایم او    جی ایچ جی میں کمی کرنے کے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد کی جاسکے۔ ہندوستان پہلے ہی 150 کلو واٹ سے کم بجلی  کی طلب والے  بحری جہازوں کو ساحل سے بجلی فراہم کر رہا ہے اور آنے والے تمام جہازوں کو بھی ساحل سے بجلی فراہم کرنے کا ہدف بنا رہا ہے۔ آئی ایم او جی ایچ ای کی ابتدائی حکمت عملی کے مطابق، جی ایچ جی کے اخراج میں کمی کے لیے قابل قبول سابقہ جاتی تقاضے وضع کرنے میں مدد کرنے کے لیے ، ہندوستان، آئی ایم او کی سمندری ماحولیاتی تحفظاتی کمیٹی میں فعال طو رپر کام کر رہا ہے۔

 سن 2030-2021 کی مدت کے لیے  پیرس معاہدے کے تحت، ہندوستان کی قومی سطح پر  طے شدہ شراکت(این ڈی سی) میں  شامل ہیں ؛ 2005 کی سطح سے 2030 تک اپنی جی ڈی پی کے اخراج کی شدت کو 33 سے 35 فیصد تک کم کرنا اور ٹیکنالوجی کی منتقلی  اور کم لاگت بین الاقوامی مالیے کی مدد سے 2030 تک غیر حیاتیاتی ایندھن پر مبنی توانائی کے وسائل سے  تقریباً 40 فیصد مجموعی برقی توانائی کی تنصیب کی صلاحیت حاصل کرنا۔ ہندوستان ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے  اپنی راہ پر گامزن ہے اور اس نے پہلے سے ہی  مجموعی نصب شدہ صلاحیت میں قابل تجدید توانائی (آر ای) کا 24.5 فیصد سے زیادہ حصہ حاصل کرلیا ہے۔ آج ہندوستان، عالمی سطح پر آر ای بجلی کی صلاحیت میں چوتھے نمبر پر اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی میں  چوتھے نمبر پر جبکہ شمسی توانائی کی صلاحیت میں پانچویں نمبر پر ہے۔

چونکہ تمام صنعتی شعبے ، کاربن غیر جانب داری کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں اور 2070 کے لیے حکومت ہند کے عہد سے قبل سی ای اقدامات کو نافذ کر رہے ہیں ، اس لیے جہاز رانی کے شعبے کو ، توانائی اور وسائل کی غیرجانب داری کو حاصل کرنے کے لیے ، نفاذ کے ایک روڈ میپ کی ضرورت ہے،جو توانائی  اورسائل دونوں پر مشتمل ہے۔ لہٰذا، این سی او ای جی پی ایس کی جانب سے شروع کیا گیا کام، قومی اور ذیلی قومی سطح پر ، فیصلہ سازوں کو کاربن غیرجانب داری کے اقدامات کو  نافذ کرنے کے لیے، طریقہ کار اور لائحہ عمل فراہم کرے گا ، جو پیرس معاہدے کے تحت ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے (اور اس سے زیادہ) کاربن کی گرفت اور ا سٹوریج نیز سبز ایندھن سمیت دیگر ابھرتی ہوئی ایندھن کی متبادل ٹیکنالوجیوں سے  عمل کی برق کاری کے ذریعے قابل تجدید توانائی کے توسط سے فراہم ہوگا۔  این سی او ای جی پی ایس کی جانب سے کئے گئے کام کے دائرہ کار میں ، تحقیق کے ذریعے شناخت کئے گئے سبز اقدامات کو تیز رفتاری سے اختیار کرنے کے لیے ، مختلف شراکت داروں کی تربیت اور صلاحیت بھی شامل ہوگی۔

این سی او ای جی پی ایس، ایم او پی ایس ڈبلیو کے ساگر مالا پروگرام کے فریم ورک کے تحت کام کرے گا۔

مقصد

مجوزہ این سی او ای جی پی ایس کا بنیادی مقصد، ایم او پی ایس ڈبلیو کو کاربن غیر جانب داری اور سی ای اصولوں کی طرف منتقلی کے لیے ، ہندوستان میں جہاز رانی کے شعبے کے لیے سبز متبادل ٹیکنالوجیوں کے روڈ میپ کے لیے ، پالیسی اور ریگولیٹری فریم ورک کی تیاری اور اسے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ، این سی او ای جی پی ایس پانچ وسیع شعبوں پر توجہ مرکوز کرے گا:

پالیسی، ریگولیٹری اور تحقیق

انسانی وسائل کی ترقی

نیٹ ورک – کلیدی شراکت دار اور جامع معاون

جستجو – کام کا شعبہ، ماحصل، منصوبے اور وسائل

مشغولیت – ماضی کے واقعات، آنے والے واقعات، تشہیر

این سی او ای جی پی ایس سرگرمیوں کے لیے دائرہ کار

این سی او ای جی پی ایس، ایم او پی ایس ڈبلیو کی تکنیکی شاخ کے طور پر کام کرے گا تاکہ ایم او پی ایس ڈبلیو کی سرپرستی کے تحت بندرگاہوں، ڈی جی جہاز رانی، سی ایس ایل اور  دیگر اداروں کے لیے  گرین جہاز رانی کے شعبوں میں پالیسی، تحقیق اور تعاون پر ضروری معاونت فراہم کرے۔

یہ مرکز، بندرگاہ اور جہاز رانی کے شعبے کی مدد کرنے کے لیے ، متعدد تکنیکی آلات کا میزبان ہوگا اور سائنسی تحقیق کے ذریعے صنعت کو درپیش مختلف مسائل کا حل فراہم کرے گا۔ یہ مقامی، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بحری نقل وحمل میں قابل قدر تعلیم، عملی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی کرے گا۔ یہ مندرجہ ذیل شعبوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔

توانائی کا انتظامیہ – توانائی کے انتظامیہ کے ٹولز، ضائع ہونے والی توانائی کی بحالی نظام  نظام

اخراج کا انتظام – متبادل، صاف توانائی / ایندھن، اخراج  کنٹرول اور نگرانی

پائیدار سمندری کارروائیاں – نئی ٹیکنالوجیاں اور نقطہ نظر

این سی او ای جی پی ایس کی تشکیل کے مخصوص مقاصد کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے –

جدید ترین ٹیکنالوجیاں اور ایپلی کیشنز مصنوعات تیار کرکے بندرگاہ، ساحلی اور اندرون ملک آبی نقل وحمل نیز انجینئرنگ میں ’میک ان انڈیا‘ کو بااختیار بنانا۔

ان شعبوں میں مختلف چیلنجوں کے لیے ، موزوں ترین حل فراہم کرنے کی غرض سے فاسٹ ٹریک ایجادات کو فعال کرنا۔

جدید ترین نظریاتی اور عملی جانکاری سے لیس  صنعت کے لیے،قابل افرادی قوت کا ایک پول تیار کرنا۔

سائنسی مطالعات کے ذریعے قلیل مدتی حل فراہم کرنے میں خود کفیل ٹیکنالوجی کی ترقی، پیچیدہ مسائل کی نشاندہی اور تجزیہ کرنے نیز مسائل کو حل کرنے میں تکنیکی بازو۔

این سی او ای جی پی ایس فیکلٹی / سائنسداں/ انجینئرز، ایم او پی ایس ڈبلیو اور ان کے ہمعصروں کو درپیش مسائل کی گہرائی سے تفہیم کے لیے کام کریں گے تاکہ موثر سفارشات پیش کی جاسکیں اور اپنی تحقیق وترقی کی سرگرمیوں کو پائیدار اہداف کے لیے پوزیشن میں رکھا جاسکے جیسا کہ ضرورت پڑنے پر روز بروز طے کیا جاتا ہے۔ مرکز، تمام بندرگاہوں، جہاز رانی، سمندری ملکوں کے  ساتھ بات چیت کرے گا تاکہ ان کے مسائل کو سمجھے اور اچھی طرح سے ثابت شدہ اور اپ اسٹریم سائنسی طریقوں کے ذریعے حل پیش کرے۔ اس کے لیے سرحدی علاقوں میں بھی تحقیق کی ضرورت پڑے گی، جن کی نشاندہی کی جائے گی ۔

*****

U.No.12804

(ش ح - اع - ر ا)



(Release ID: 1878156) Visitor Counter : 129


Read this release in: English , Hindi