عملے، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت
مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کو حکمرانی کا ایک ’’پائیدار‘‘ماڈل دیا، جس نے ہر سال منافع میں اضافہ کر کے منافع میں کمی کے اصول کی نفی کردی
دہلی میں نیوز-ایکس ٹی وی چینل کے’’کیپٹل ڈائیلاگ‘‘پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ گزشتہ 20 برسوں میں، جناب مودی کی طرز حکمرانی کا ماڈل ہر نئے چیلنج کے سامنے مضبوط ہوتا گیا ہے
شفافیت، جوابدہی اور شہریوں پر مرکوز جناب مودی کی طرز حکمرانی کے ماڈل کی علامت بن گئی ہے
ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ تحقیق و ترقی، تعلیمی ادارے اور صنعت کے انضمام سے اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ نجی سیکٹر اور اسٹارٹ –اپ کے ساتھ اسرو کی قیادت میں خلائی انقلاب دور نہیں
Posted On:
22 NOV 2022 2:27PM by PIB Delhi
سائنس و ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ، ارضیاتی سائنسز کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)، وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت، عملے، عوامی شکایات ، پنشن ، ایٹمی توانائی اور خلا کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کو حکمرانی کا ایک "پائیدار" ماڈل دیا، جس نے ہر سال منافع میں اضافہ کرکے کم ہوتے منافع کے اصول کی نفی کردی ۔
دہلی میں نیوز-ایکس ٹی وی چینل کے ’’کیپٹل ڈائیلاگ‘‘ پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ گزشتہ 20 برسوں میں، جناب مودی کی طرز حکمرانی کا ماڈل ہر نئے چیلنج کے سامنے مضبوط ہوتا گیا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ جناب مودی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد، ان کا پہلا چیلنج بھج میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے ابھرنا اور نئے سرے سے تعمیر کرنا تھا۔ حکومت کی قیادت کرتے ہوئے 20 سال مکمل ہونے کےبعد، ان کے سامنے نیا چیلنج کووڈ وباتھی، جس نے ملک بھر میں 140 کروڑ افراد کو متاثر کیا۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ان چیلنجوں کا سامنا نئے خیالات کے ساتھ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے طویل عرصے تک خود کا جائزہ لیا کہ کیسے نئے آئیڈیاز کو لایا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح زمینی حقیقت سے ان کے قریبی تعلق نے بھی ہر چیلنج کو موقع میں تبدیل کرنے کے لئے انہیں اہل بنایا۔
ان کی حکمرانی ماڈل کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ جب سے جناب مودی نے مئی 2014 میں اقتدار سنبھالا ہے، ان کا پہلا منتر ’’زیادہ سے زیادہ حکمرانی، کم سے کم حکومت‘‘ رہا ہے۔ اب، تقریباً نو سال بعد، یہ ارتباط کا ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے ’’مکمل حکومت‘‘ کےنظریہ کے ساتھ ٹکڑوں-ٹکڑوں میں کام کرنے کے بجائے منصوبوں اور خیالات کو آپس میں جوڑکرکام کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ شفافیت، جوابدہی اور شہریوں پر مرکوز جناب مودی کی حکمرانی ماڈل کی علامت بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے تین مہینوں کے اندر، پہلے بڑے فیصلوں میں سے سیلف اٹیسٹنگ کی شروعات کرانا اور گزیٹیڈ افسر کے ذریعہ دستاویزات کی تصدیق کرنے کی روایت کو ختم کرنا تھا۔ اس طرح ہندوستان کے نوجوانوں میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ؛ وہ نوجوان، جن میں سے 70 فیصد 40 سال سے کم عمر کے ہیں۔
اسی طرح، جناب نریندر مودی نے 15 اگست 2015 کو لال قلعہ کی فصیل سے یوم آزادی کی تقریر کے دوران انٹرویوز کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جسے ڈی او پی ٹی نے یکم جنوری 2016 سے نافذ کیا تھا۔ اس اقدام نے تمام امیدواروں کے لیے یکساں مواقع کی راہ ہموار کی تھی۔ حکومت نے 1500 سے زائد ضابطوں کو ختم کر دیا، جو بے کار ہو گئے تھے اور کام کاج میں رکاوٹ پیدا کررہے تھے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ تمام اصلاحات نہ صرف حکمرانی سے متعلق اصلاحات ہیں، بلکہ یہ بڑی سماجی اصلاحات بھی ہیں جن کا معاشرے پر دیرپا اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ہندوستان کے بدعنوانی کی روک تھام سے متعلق ایکٹ 1988 کا ذکر کیا ،جس میں مودی حکومت نے 30 سال بعد 2018 میں ترمیم کرکے نئے ضابطوں کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں رشوت لینے کے علاوہ رشوت دینے کو بھی جرم کے دائرے میں شامل کیا گیا۔ اس کے دائرے میں افراد کے ساتھ کارپوریٹ اداروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معلومات تک مفت اور کسی روٹ ٹوک کے بغیر رسائی بدعوانی کا توڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور ای گورننس کا استعمال خاص طور پر عوامی خدمات فراہم کرانے کے دوران ہونے والی بدعنوانی کو دور کرنے کے لئے ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہوئے ہیں ۔
سوالوں کے جواب میں ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں متعدد انقلابی پنشن اصلاحات پیش کی گئیں ،جن میں طلاق یافتہ بیٹیوں اور معذور افراد کے لیے فیملی پنشن کے پرویژن میں نرمی، موبائل ایپ کے ذریعے فیس ریکاگنیشن ٹکنالوجی کی شروعات شامل ہے۔ بزرگ پنشن یافتگان کے ذریعہ لائف سرٹیفکیٹ، فوت ہوچکے سرکاری ملازم/پنشن یافتگان کے معذور بچے کو فیملی پنشن کے دائرے میں لانا نہ صرف پنشن اصلاحات ہیں بلکہ وسیع تر سماجی و معاشی طور پرمتاثرکرنی والی سماجی اصلاحات بھی ہیں۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ، جن کے پاس خلائی شعبے کا بھی کام ہے، کو سامعین سے کئی معاملوں پر سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں خلائی شعبہ رازداری کے تحت کام کرتا ہے، اور یہاں ایک بار پھر سے جناب مودی نے ہی دو سال پہلے نجی شراکت داری کے لئے اس شعبے کو کھول دیا۔ اس کے نتائج کافی خوش آئند ہیں، کیونکہ خلائی اصلاحات نے اسٹارٹ اپس اور اختراعی امکانات کو اجاگر کیا ہے۔ تین چار سال پہلے کچھ خلائی اسٹارٹ اپس ہی تھے، لیکن بہت ہی کم وقت میں، آج ہمارے پاس 102 اسٹارٹ اپس ہیں ، جو خلائی ملبے کے بندوبست، نینو سیٹلائٹس، لانچ وہیکلز، گراؤنڈ سسٹم ، تحقیق وغیرہ کے جدید شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ یکساں حصہ داری کے ساتھ تحقیق و ترقی ، تعلیم اور صنعت کے ارتباط کی بنیاد پر اب یہ کہنا مناسب ہے کہ نجی شعبے اور اسٹارٹ اپس کے اشتراک سے اسرو کی قیادت میں ایک خلائی انقلاب قریب ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کے لئے اسرو کے پہلے چیئرمین اور ہندوستان کے خلائی پروگرام کے بانی ڈاکٹر وکرم سارا بھائی نے اپنے قدیم سائنسی دائرے میں بیٹھ کر جس بڑے خواب کو دیکھا تھا، اب وہ ایک قابل فخر راہ پرگامزن ہے۔ پوری دنیا ہندوستان کو سبھی کی آرزو پوری کرنے والے کے طور پر دیکھ رہی ہے، کیونکہ ہندوستان ابھرتے ہوئے ممالک کی صلاحیت سازی اور نینو سیٹلائٹس سمیت مصنوعی سیاروں کی تیاری میں مدد کر رہا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ وزیر اعظم جناب مودی کی قیادت والی حکومت کے آٹھ برسوں کے دوران، ہندوستان کے نوجوانوں کی ہنرمندی ، جس کی صلاحیت کوسمجھا اورآزمایا نہیں گیا تھا، وہ اپنی صلاحیت کو پورے جوش کے ساتھ پیش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے نوجوانوں کے اندر ہمیشہ بھرپور صلاحیت رہی ہے۔ وہ ہمیشہ بڑے خواب دیکھتے آرہے تھے ۔ اور آخر کار جناب مودی نے ان کی مناسب رہنمائی کی ہے ۔
عام آدمی کے لیے ’زندگی کو سہل ‘ بنانے کے پیش نظر ریلوے، قومی شاہراہ ، زراعت، واٹر میپنگ، اسمارٹ سٹی، ٹیلی میڈیسن اور روبوٹک سرجری جیسے مختلف شعبوں میں خلائی ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ جوہری توانائی کے یکساں استعمال جیسے جوہری زراعت اور فصل کی بہتری ، پودوں اور مٹی کی زرخیزی کا پتہ لگانے کے لئے زرعی ٹیکنالوجیز اور خوراک کے تحفظ کے لیے تابکاری ٹیکنالوجی، فصل کی نشوونما اور پانی کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے تابکاری پر مبنی ٹیکنالوجیز خلائی اور جوہری توانائی کے شعبوں کی ترقی کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ سب سیٹلائٹ لانچ اور صاف ستھری توانائی کی پیداوار کے حوالے سے اہم ہیں۔
************
ش ح ۔ ف ا ۔ م ص
(U: 12810)
(Release ID: 1878119)
Visitor Counter : 125