قانون اور انصاف کی وزارت
قانونی ثالثی مراکز
Posted On:
29 JUL 2022 3:25PM by PIB Delhi
قانون و انصاف کے مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو نے آج لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ گجرات کے معزز ہائی کورٹ نے 9 اور 10 اپریل 2022 کو ایکتا نگر، نرمدا ضلع، گجرات میں ‘ ثالثی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی’ پر ایک دو روزہ قومی عدالتی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
عزت مآب صدر جمہوریہ ہند نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں اے ڈی آر میکانزم اور آئی سی ٹی بہت سی وجوہات کی بناء پر اہم ہیں کیونکہ دونوں ہی نظام کو مزید موثر بنانے میں مدد کریں گے اور اس طرح انصاف کی فراہمی بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔ عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنی تقریر میں کہا کہ اے ڈی آر کا تصور، لوک عدالتوں، گرام نیالیوں، وساطت اور ثالثی مراکز کے ذریعے، لاکھوں لوگوں کو اپنی شکایات کا تصفیہ کرنے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرکے ہندوستان کے قانونی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی عمل میں مؤثر اے ڈی آر میکانزم کو شامل کرنے سے التوا کو کم کیا جا سکتا ہے، عدالتی وسائل اور وقت کی بچت ہو سکتی ہے اور فریقین کو تنازعات کے حل کے عمل اور اس کے نتائج پر کچھ حد تک کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کو فائدہ مند طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں عمل کو آسان بنانے کی صلاحیت ہے۔ ہندوستان میں عدالتوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے اور مختلف اقدامات کئے گئے ہیں جیسے ای فائلنگ، کمپیوٹر اسسٹڈ ٹرانسکرپشن، ڈاکیومنٹ ڈسپلے سسٹم اور ایک آئی ٹی انفرااسٹرکچر کے تحت عدالتوں کا انضمام۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے‘فاسٹر’شروع کیا ہے، جو اسٹیک ہولڈرز تک فوری عدالتی احکامات کی فوری اور محفوظ ترسیل کے لیے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے۔ اس سے بغیر کسی تاخیر کے عدالتی احکامات پر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
حکومت کی یہ کوشش ہے کہ عدلیہ اور مقننہ ایک سمت میں مل کر کام کریں تاکہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں تاکہ مقدمات کا بوجھ کم ہو اور جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ حکومت وساطت اور ثالثی سمیت اے ڈی آر میکانزم کو فروغ دے رہی ہے کیونکہ یہ میکانزم کم نقصاندہ ہیں اور تنازعات کو حل کرنے کے روایتی طریقوں کا بہتر متبادل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اے ڈی آر میکانزم کے استعمال سے عدلیہ پر بوجھ کم ہونے کی بھی توقع ہے اور اس طرح ملک کے شہریوں کو بروقت انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔
ثالثی کو قابل عمل تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے طور پر فعال کرنے کے لیے، حکومت نے ثالثی اور مفاہمت ایکٹ، 1996 میں 2015، 2019 اور 2021 میں ترمیم کی ہے۔ یہ تبدیلیاں ثالثی کی کارروائیوں کے بروقت اختتام کو یقینی بنانے کے لیےثالثی کے عمل میں عدالتی مداخلت کو کم کرنے اور ملک میں ثالثی کے ایوارڈز کو نافذ کرنے اور ادارہ جاتی ثالثی کو مستحکم کرنے میں ایک زبردست تبدیلی کا اشارہ دینے کے قابل ہیں ۔ کمرشیل کورٹس ایکٹ، 2015 میں 2018 میں ترمیم کی گئی تھی تاکہ پری انسٹی ٹیوشن میڈیشن اینڈ سیٹلمنٹ (پی آئی ایم ایس) میکانزم فراہم کیا جا سکے۔ اس طریقہ کار کے تحت، جہاں مخصوص قیمت کا تجارتی تنازع کسی فوری عبوری ریلیف پر غور نہیں کرتا، فریقین کو عدالت سے رجوع کرنے سے پہلے پی آئی ایم ایس کے لازمی چارہ جوئی کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کا مقصد فریقین کو تجارتی تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
حکومت نے ثالثی بل 2021 کو راجیہ سبھا میں20دسمبر2021 کو بھی پیش کیا ہے تاکہ ثالثی سے متعلق منفردقانون بنایا جا سکے۔ اس بل کا مقصد تنازعات کے حل کے لیے تجارتی یا دوسری صورت میں ثالثی کو فروغ دینا، حوصلہ افزائی کرنا اور سہولت فراہم کرنا، ثالثی کے تصفیہ کے معاہدوں کو نافذ کرنا اور ثالثی کونسل آف انڈیا کا قیام کرنا ہے۔
مزید برآں اے ڈی آر میکانزم کا دائرہ عدالتوں سے باہر ہے، اس لیے اس حوالے سے عدالتی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
**********
)ش ح ۔ ا ک۔ ع ر)
U-10230
(Release ID: 1859148)
Visitor Counter : 109