جل شکتی وزارت

شہروں میں پانی کی قلت

Posted On: 04 AUG 2022 6:39PM by PIB Delhi

سینٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ (سی جی ڈبلیو بی) وقتاً فوقتاً ملک بھر میں  کنوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے شہری علاقوں سمیت زیر زمین پانی سطح  کی نگرانی کرتا ہے۔نومبر 2021  کے دوران پانی کی سطح کے  اعدادو شمار کا شہری علاقوں میں نومبر (2011-2020) کی دہائی کے اعتبار سے اوسطاً  پانی کی سطح سے موازنہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تقریباً 34.6% کنوؤں کی نگرانی کی گئی ہے جن میں سے زیادہ تر 0-2 میٹر کی حد میں زیر زمین پانی میں کمی درج کی گئی ہے۔کچھ شہروں میں 4.0 میٹر  سے زیادہ  پانی کی کمی درج کی گئی ہے۔65.4 فیصد ایسے کنویں ہیں جن کا جائزہ لیا گیا ہے ،جن میں زیر زمین پانی کی سطح  میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس سلسلے میں تفصیلات جدول ایک میں دی گئی ہیں ۔سی جی ڈبلیو بی نے ‘بھارت کے منتخبہ شہروں میں زیر زمین پانی  کے حالات’ کے عنوان سے  ایک رپورٹ تیار کی ہے۔اس رپورٹ میں شہروں میں پانی کی سپلائی کے متعلقہ  محکموں  سے جمع کی گئی پانی کی سپلائی  کی اور ڈیمانڈ کی معلومات  مہیا کی گئی ہے اور اس میں ان شہروں میں زیر زمین پانی  کے حالات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

شہروں میں پانی کی قلت کا مسئلہ  براہ راست طورپر  مخصوص شہر/علاقے میں بارش کے نظام   پر مبنی  نہیں ہے۔کسی بھی شہر میں پانی کی قلت ہونے کی وجوہات  میں شہرکاری ،زیر زمین پانی  کے نکالنے کی مقدار ،بارش کے  پانی  کی ذخیرہ اندوزی کےلئے  کئے جانے والے اقدامات کی دستیابی ،واٹر میجنمنٹ پلان کا ہونا،زیر زمین پانی  کا دیگر بشریاتی سرگرمیوں میں بہناشامل ہے۔

پانی ایک ریاستی سطح کا مسئلہ ہے اور مرکزی حکومت  پانی کے تحفظ اور سپلائی  کےلئے ریاستوں کی کوششوں   کو ٹیکنیکل اور مالیاتی مدد  کے ذریعہ تکمیل کو پہنچاتی ہے۔مخصوص شہروں میں  پانی  کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کےلئے حکومت کے ذریعہ کئے گئے  اہم اقدامات کی تفصیلات  جدول دوم میں دی گئی ہیں۔

یہ معلومات جل شکتی کے وزیرمملکت  جناب بشویسور ٹوڈو نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی ہے۔

 

*************

جدول ایک

ملک کے شہری علاقوں میں دہائی کے اعتبار سے پانی کی سطح میں اوسطاً اتار چڑھاؤ(نومبر 2020-2011 اور نومبر 2021)

 

S. نمبر شمار.

شہروں کے نام 

جائزہ لئے گئے کنوؤں کی تعداد

اضافہ

کمی

اضافہ

کمی

0-2 m

2-4 m

>4 m

0-2 m

2-4 m

>4 m

No

%

No

%

No

%

No

%

No

%

No

%

No

%

No

%

1

ممبئی شہر

6

4

66.7

0

0.0

0

0.0

1

16.7

1

16.7

0

0.0

4

66.7

2

33.3

2

ممبئی مضافاتی

17

9

52.9

1

5.9

0

0.0

5

29.4

2

11.8

0

0.0

10

58.8

7

41.2

3

دہلی

86

29

33.7

21

24.4

15

17.4

12

14.0

3

3.5

6

7.0

65

75.6

21

24.4

4

کولکاتہ محدود

25

16

64.0

0

0.0

1

4.0

7

28.0

1

4.0

0

0.0

17

68.0

8

32.0

5

چنئی

21

12

57.1

7

33.3

2

9.5

0

0.0

0

0.0

0

0.0

21

100.0

0

0.0

6

بینگلور

18

12

66.7

2

11.1

1

5.6

3

16.7

0

0.0

0

0.0

15

83.3

3

16.7

7

حیدر آباد 

36

18

50.0

6

16.7

9

25.0

3

8.3

0

0.0

0

0.0

33

91.7

3

8.3

8

احمد آباد

3

0

0.0

0.0

0.0

0.0

0.0

3

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

3

100.0

احمد آباد محدود

1

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

9

ناگپور

67

37

55.2

3

4.5

0

0.0

26

38.8

1

1.5

0

0.0

40

59.7

27

40.3

10

ناشک

4

1

25.0

0

0.0

0

0.0

3

75.0

0

0.0

0

0.0

1

25.0

3

75.0

11

پنے

3

1

33.3

0

0.0

0

0.0

2

66.7

0

0.0

0

0.0

1

33.3

2

66.7

12

وسائی ورار

2

1

50.0

0

0.0

0

0.0

1

50.0

0

0.0

0

0.0

1

50.0

1

50.0

13

اورنگ آباد

6

3

50.0

3

50.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

6

100.0

0

0.0

14

کنور

3

1

33.3

2

66.7

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

3

100.0

0

0.0

15

کوچی

1

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

16

کولم

4

3

75.0

0

0.0

0

0.0

1

25.0

0

0.0

0

0.0

3

75.0

1

25.0

17

کوزی کوڈ

12

11

91.7

0

0.0

0

0.0

1

8.3

0

0.0

0

0.0

11

91.7

1

8.3

18

ملپ پورم

5

4

80.0

0

0.0

0

0.0

1

20.0

0

0.0

0

0.0

4

80.0

1

20.0

19

تھرووونتپورم

6

3

50.0

3

50.0

0

0.0

 

0.0

0

0.0

0

0.0

6

100.0

0

0.0

20

تھریسر

11

5

45.5

 

0.0

0

0.0

6

54.5

0

0.0

0

0.0

5

45.5

6

54.5

21

پٹنہ

6

4

66.7

1

16.7

0

0.0

1

16.7

0

0.0

0

0.0

5

83.3

1

16.7

22

رانچی

11

10

90.9

1

9.1

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

11

100.0

0

0.0

23

دھنباد

4

1

25.0

0

0.0

0

0.0

1

25.0

2

50.0

0

0.0

1

25.0

3

75.0

24

جمشیدپور

1

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

25

بھوپال

14

9

64.3

2

14.3

0

0.0

2

14.3

1

7.1

0

0.0

11

78.6

3

21.4

26

اندور

14

9

64.3

2

14.3

0

0.0

3

21.4

0

0.0

0

0.0

11

78.6

3

21.4

27

جبل پور

16

6

37.5

0

0.0

0

0.0

8

50.0

2

12.5

0

0.0

6

37.5

10

62.5

28

گوالیار

1

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

1

100.0

29

گوہاٹی

31

13

41.9

2

6.5

0

0.0

11

35.5

5

16.1

0

0.0

15

48.4

16

51.6

30

لدھیانہ

2

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

50.0

0

0.0

1

50.0

0

0.0

2

100.0

31

امرتسر

4

2

50.0

1

25.0

0

0.0

1

25.0

0

0.0

0

0.0

3

75.0

1

25.0

32

فرید آباد

2

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

50.0

1

50.0

0

0.0

0

0.0

2

100.0

33

چنڈی گڑھ-مرکز کے زیر انتظام علاقہ

13

4

30.8

1

7.7

1

7.7

5

38.5

1

7.7

1

7.7

6

46.2

7

53.8

34

کوئم بٹور

6

0

0.0

2

33.3

2

33.3

0

0.0

0

0.0

2

33.3

4

66.7

2

33.3

35

تروچراپلی

6

1

16.7

4

66.7

1

16.7

0

0.0

0

0.0

0

0.0

6

100.0

0

0.0

36

مدورئی

12

5

41.7

3

25.0

3

25.0

1

8.3

0

0.0

0

0.0

11

91.7

1

8.3

37

وجے واڑا

8

2

25.0

0

0.0

0

0.0

2

25.0

2

25.0

2

25.0

2

25.0

6

75.0

38

وشاکھاپٹنم

27

13

48.1

2

7.4

0

0.0

8

29.6

1

3.7

3

11.1

15

55.6

12

44.4

39

راجکوٹ

1

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

40

سورت

1

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

41

وڈوڈرا

4

 

0.0

1

25.0

3

75.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

4

100.0

0

0.0

42

جےپور

28

2

7.1

2

7.1

7

25.0

2

7.1

6

21.4

9

32.1

11

39.3

17

60.7

43

جودھپور

5

3

60.0

0

0.0

1

20.0

1

20.0

0

0.0

0

0.0

4

80.0

1

20.0

44

کوٹہ

2

0

0.0

0

0.0

0

0.0

2

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

2

100.0

45

بھوبنیشور

39

18

46.2

4

10.3

0

0.0

16

41.0

1

2.6

0

0.0

22

56.4

17

43.6

46

آگرہ

1

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

47

الہ آباد

4

1

25.0

2

50.0

0

0.0

0

0.0

1

25.0

0

0.0

3

75.0

1

25.0

48

غازی آباد

1

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

49

کانپور

7

6

85.7

0

0.0

0

0.0

1

14.3

0

0.0

0

0.0

6

85.7

1

14.3

50

لکھنؤ

3

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

33.3

0

0.0

2

66.7

0

0.0

3

100.0

51

میرٹ

1

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

52

وارانسی

1

0

0.0

1

100.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

0

0.0

1

100.0

0

0.0

53

رائے پور

6

1

16.7

0

0.0

0

0.0

4

66.7

1

16.7

0

0.0

1

16.7

5

83.3

54

بھلائی

6

2

33.3

1

16.7

0

0.0

2

33.3

1

16.7

0

0.0

3

50.0

3

50.0

55

دہرادون

45

18

40.0

5

11.1

3

6.7

15

33.3

4

8.9

0

0.0

26

57.8

19

42.2

کُل

670

304

45.4

85

12.7

49

7.3

168

25.1

37

5.5

27

4.0

438

65.4

232

34.6

راجکوٹ: نومبر 2020 کا ڈبلیو ایل  ڈیٹا راجکوٹ، گجرات کے حوالے سے استعمال ہوا۔ نومبر 2021 کے دوران مانیٹرنگ نہیں کی جا سکی

 

ذرائع :سینٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ

جدول دوم

ملک میں خاص طور پر شہروں/شہری علاقوں میں پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات

 

I. حکومت نے جولائی تا نومبر 2019 کے دوران ملک کے 256 پانی کی قلت والے اضلاع کے 1592 بلاکس میں 'جل شکتی ابھیان' (جے ایس اے) شروع کیا تاکہ پانی کی قلت/کمی  کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ سیریز میں دوسرا 'جل شکتی ابھیان: کیچ دی رین' (جے ایس اے:سی ٹی آر)تھا جو  22 مارچ 2021 سے 30 نومبر 2021 تک ملک کے تمام اضلاع میں چلایا گیا اورسیریز میں  تیسرا جے ایس اے 'جل شکتی ابھیان: کیچ دی رین ’رواں سال 29 مارچ 2022 سے 30 نومبر 2022 تک ملک میں پری مون سون اور مون سون کی مدت کے دوران ملک کے تمام اضلاع (دیہی اور شہری علاقوں) میں "کیچ دی رین،ویئر اِٹ فالس،وین اِٹ فالس"کے عنوان کے ساتھ چلایاگیا۔

II اس سال آزادی کے 75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر ضلع میں 75 آبی ذخائر بنائے جائیں یا پھر سے ان کی تجدید کاری کی جائے ۔ یہ امرت سروور کہلاتے ہیں۔ جے ایس اے سی ٹی آر 2022 کے تحت امرت سرووروں کی تخلیق/تجدید ایک خاص کوشش ہے۔ اس سمت میں کوششیں پہلے ہی شروع کر دی گئی ہیں اور متعلقہ شراکت دار-ریاستی حکومتیں، این جی اوز وغیرہ اس مہم کے تحت اس سرگرمی کو شروع کرنے کے لیے متحرک ہیں۔

III ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت  نے ریاستوں کے لیے مقامی حالات کے مطابق اقدامات کرنے کے لیے رہنما خطوط وضع کیے ہیں، جیسے دہلی کے یونیفائیڈ بلڈنگ بائی لاز (یو بی بی ایل )، 2016، ماڈل بلڈنگ بائی لاز (ایم بی بی ایل) 2016 اور شہری اور علاقائی ترقیاتی منصوبے کی تشکیل اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور پانی کے تحفظ کے اقدامات کی ضرورت پر کافی توجہ کے ساتھ عمل درآمد (یو آرڈی پی ایف آئی) رہنما خطوط، 2014 ۔ اٹل مشن فار ریجووینیشن اینڈ اربن ٹرانسفارمیشن (اے ایم آر یو ٹی) کے تحت پورے ہندوستان میں 500 شہروں اور قصبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اے ایم آر یو ٹی 2.0 پانی کی سرکلر اکانومی کو فروغ دے کر ان شہروں کو 'خود انحصار اور پانی کو محفوظ' بنانے پر مرکوز ہے۔اسمارٹ سٹیز مشن کے تحت، 48 شہروں نے پانی کے انتظام کے پروجیکٹوں کی اطلاع دی ہے جو اے ایم آر یو ٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

IV .سنٹرل گراؤنڈ واٹر اتھارٹی (سی جی ڈبلیو اے) صنعتوں، انفراسٹرکچر یونٹس اور کان کنی کے منصوبوں کو بعض ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے قابل عمل علاقوں میں جہاں متعلقہ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعے ضابطے نہیں کیے جا رہے ہیں، زمینی پانی کے اخراج کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) دیتا ہے ۔ 24 ستمبر 2020 کو وزارت کی طرف سے پین انڈیا نافذ  ہونے کے ساتھ زیر زمین پانی نکالنے کے کنٹرول اور ریگولیشن کے لیے تازہ ترین رہنما خطوط کو مطلع کیا گیا تھا جس میں یہ تصور کیا گیا ہے کہ حامیوں کو این او سی  حاصل کرنے کے لیے پراجیکٹ کے علاقے میں چھت کے اوپر بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور ریچارج سسٹمز نصب کرنا ہوں گے۔

V. زمینی پانی کے لیے مصنوعی ریچارج - 2020 کے لیے ماسٹر پلان سی جی ڈبلیو بی  نے ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں  کے مشورے سے تیار کیا ہے جو کہ ایک میکرو لیول پلان ہے جو ملک کے مختلف خطوں کے حالات کے لیے مختلف ڈھانچے کو ظاہر کرتا ہے جس میں تخمینہ لاگت بھی شامل ہے۔ ماسٹر پلان میں مانسون کی 185 بلین کیوبک میٹر (بی سی ایم) بارش کے استعمال کے لیے ملک میں تقریباً 1.42 کروڑ بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی ریچارج ڈھانچے کی تعمیر کا تصور کیا گیا ہے۔

VI تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ایک ماڈل بل بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کی ترقی کے ضابطے کے لیے زمینی پانی کے لیے مناسب قانون سازی کر سکیں، جس میں شہری علاقوں میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کے ڈھانچے کی فراہمی بھی شامل ہے۔ اب تک، 19 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے زمینی پانی سے متعلق قانون سازی کو اپنایا اور نافذ کیا ہے۔

VII آبی ذخائر کی نقشہ سازی، ان کی خصوصیات اور ایکویفر مینجمنٹ کی ترقی کے لیے "نیشنل ایکوفر میپنگ اینڈ مینجمنٹ (این اے کیو یو آئی ایم)" کا ملک گیر پروگرام زیر زمین پانی کے وسائل کی پائیدار ترقی میں سہولت فراہم کرتا ہے۔

VIII قومی آبی پالیسی (2012) آبی وسائل، دریا کی ترقی اور گنگا کی صاف صفائی  کے محکمے کی طرف سے تیار کی گئی ہے جو بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور پانی کے تحفظ کی وکالت کرتی ہے اور پانی کی دستیابی کو بڑھانے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔

IX. مندرجہ بالا کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں معلومات، تعلیم اور مواصلات (آئی ای سی) اسکیم کے تحت ہر سال وقتاً فوقتاً ٹریننگ، سیمینار، ورکشاپس، نمائشیں وغیرہ جیسے بڑے پیمانے پر آگاہی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے، دوبارہ استعمال کرنے اور اس کے استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔ پانی کی ری سائیکلنگ اور زمینی پانی کو مصنوعی طورپر صاف کرکے دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔

************

ش ح۔ ا م۔

U. No.9563

 



(Release ID: 1854632) Visitor Counter : 205


Read this release in: English