قانون اور انصاف کی وزارت

انصاف کی فراہمی اور قانونی اصلاحات کا قومی مشن

Posted On: 21 JUL 2022 1:10PM by PIB Delhi

وزیر قانون و انصاف جناب کرن رجیجو نے آج راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ انصاف کی فراہمی اور قانونی اصلاحات کے لیے قومی مشن اگست 2011 میں قائم کیا گیا تھا، جس کے دو مقاصد تھے: نظام میں کام کاج میں ہونے والی  تاخیر اور بقایا جات کے بوجھ  کو کم کرکے رسائی میں اضافہ کرنا اور ساختی تبدیلیوں کے ذریعے اور کارکردگی کے معیارات اور صلاحیتوں کو ترتیب دے کر جوابدہی کو بڑھا  نا، مشن عدالتی انتظامیہ میں بقایا جات اور التوا  میں پڑے ہوئے  کاموں کے بوجھ کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے ایک مربوط نقطہ نظر پر عمل پیرا ہے، جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ ، عدالتوں کے لیے بہتر بنیادی ڈھانچہ بشمول کمپیوٹرائزیشن، ماتحت عدلیہ کی طاقت میں اضافہ، پالیسی اور ضرورت سے زیادہ قانونی چارہ جوئی سے متاثرہ شعبوں میں قانون سازی کے اقدامات،مقدمات کے فوری نمٹانے کے لیے عدالتی طریقہ کار کی دوبارہ انجینئرنگ اور انسانی وسائل کی ترقی پر زور دینا شامل ہیں۔

مختلف اقدامات کے تحت پچھلے آٹھ سالوں کے دوران اٹھائے گئے اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

  1. ضلعی اور ماتحت عدالتوں کے عدالتی افسران کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا:  آج کی تاریخ کے مطابق، 1994-1993 میں عدلیہ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی ترقی کے لیے مرکزکے ذریعہ اسپانسر کردہ  اسکیم(سی ایس ایس) کے آغاز سے اب تک 9,13.21 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ کورٹ ہالز کی تعداد 30.06.2014 کو 15,818 سے بڑھ کر 30.06.2022 کو 20,993 ہو گئی ہے اور رہائشی یونٹوں کی تعداد 30.06.2014 کو 10,211 سے بڑھ کر 30.06.2014 کو 18,502 ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، 2,777 کورٹ ہال اور 1,659 رہائشی یونٹس زیر تعمیر ہیں (ایم آئی ایس ڈیٹا کے مطابق)۔ عدلیہ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی ترقی کے لیے مرکزی اسپانسر شدہ اسکیم کو 2025-26 تک توسیع دے دی گئی ہے، جس کی کل لاگت9,000 کروڑ روپے ہے۔  جس میں مرکزی حصہ5,307 کروڑ  روپے ہوگا۔ اس کے علاوہ، کورٹ ہالز اور رہائشی یونٹس کی تعمیر، اس میں وکلاء کے ہال، ٹوائلٹ کمپلیکس اور ڈیجیٹل کمپیوٹر رومز کی تعمیر کے کام کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔
  2. بہتر انصاف کی فراہمی کے لیے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کا فائدہ اٹھانا: حکومت ضلعی اور ماتحت عدالتوں میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو فعال کرنے کے لیے پورے ملک میں ای کورٹس مشن موڈ پروجیکٹ کو نافذ کر رہی ہے۔ کمپیوٹرائزڈ ضلعی اور ماتحت عدالتوں کی تعداد اب تک بڑھ کر 18,735 ہو گئی ہے۔ 99.3فیصد  عدالتی عمارتوں کو ڈبلیو اے این مربوط کاری نظام کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ کیس انفارمیشن سافٹ ویئر کا نیا اور صارف دوست ورژن تیار کیا گیا ہے اور  اسے تمام کمپیوٹرائزڈ ڈسٹرکٹ اور ماتحت عدالتوں میں  نصب  کیا گیا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول عدالتی افسران نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ (این جے ڈی جی) پر کمپیوٹرائزڈ ضلعی اور ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس کے عدالتی کارروائیوں/فیصلوں سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔  04.07.2022  تک، مدعیان 20.86 کروڑ سے زیادہ مقدمات اور ان عدالتوں سے متعلق 18.02 کروڑ آرڈر/فیصلوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ای  کورٹس کی خدمات جیسے کہ کیس کے اندراج کی تفصیلات، کاز لسٹ، کیس کی حیثیت، روزانہ کے احکامات اور حتمی فیصلے تمام کمپیوٹرائزڈ عدالتوں میں ای  کورٹس ویب پورٹل، جوڈیشل سروس سینٹرز (جے ایس سی) کے ذریعے مدعیان  اور وکلا ءکے لیے دستیاب ہیں، ای کورٹس موبائل ایپ، ای میل سروس، ایس ایم ایس پش اینڈ پل سروسز۔ 3,240 کورٹ کمپلیکس اور 1,272 متعلقہ جیلوں کے درمیان ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت کو فعال کیا گیا ہے۔ کووڈ-19 کے چیلنجوں سے بہتر طریقے سے نمٹنے اور ورچوئل سماعتوں کی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے، عدالتی احاطے میں 500 ای-سیوا کیندر قائم کیے گئے ہیں تاکہ وکلاء اور مدعیان کی مدد کی جا سکے جن کو کیس کی حیثیت سے لے کر، فیصلے/احکامات حاصل کرنے، عدالت/مقدمہ سے متعلق معلومات اور فائلنگ کی سہولیات درکار ہوتی ہیں۔ ورچوئل سماعتوں کی سہولت کے لیے مختلف کورٹ کمپلیکس میں ویڈیو کانفرنسنگ کیبن میں آلات فراہم کرنے کے لیے 5.01 کروڑ روپے  مختص کیے گئے ہیں۔ مختلف عدالتوں میں فائلنگ کے سلسلے میں درکار 1,732 ہیلپ ڈیسک کاؤنٹرز کے لیے 12.12 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں ۔

 سولہ(16) ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بیس مجازی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ دہلی (2)، ہریانہ، تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ (2)، مہاراشٹر (2)، آسام، چھتیس گڑھ، جموں و کشمیر (2)، اتر پردیش، اڈیشہ، میگھالیہ، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، تریپورہ اور مغربی بنگال ٹریفک   سے تعلق رکھنے والے جرائم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے لئے  ان عدالتوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ 03.03.2022  تک، ان عدالتوں نے 1.69 سے زیادہ مقدمات کو نمٹا دیا ہے اور جرمانے کے طور پر 271.48 کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی کی ہے۔

ویڈیو کانفرنسنگ عالمی وباء کے نتیجے میں  نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران عدالتوں کی اہم بنیاد کے طور پر اُبھری کیونکہ اجتماعی موڈ میں بذات خود حاضری کے ساتھ سماعت اور عام عدالتی کارروائی ممکن نہیں تھی۔ جب سے کووڈ لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، ضلعی عدالتوں نے 1,28,76,549 مقدمات کی سماعت کی جبکہ ہائی کورٹ نے 30.04.2022 تک ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 63,76,561 مقدمات (مجموعی طور پر 1.92 کروڑ) کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں لاک ڈاؤن کی مدت سے لے کر 13.06.2022 تک 2,61,338 سماعتیں ہوئیں۔

  1. سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی اور ماتحت عدالتوں میں خالی آسامیوں کو پر کرنا: 01.05.2014 سے 15.07.2022 تک، سپریم کورٹ میں 46 ججوں کی تقرری کی گئی۔ ہائی کورٹس میں 769 نئے ججز کی تقرری کی گئی  اور 619 ایڈیشنل ججز کو مستقل کیا گیا۔ ہائی کورٹس کے ججوں کی منظور شدہ تعداد مئی 2014 میں 906 سے بڑھا کر فی الحال 1,108 کر دی گئی ہے۔

 ضلع میں عدالتی افسران کی منظور شدہ اور مصروف عمل تعداد  میں اضافہ ہوا ہے جسے ذیل میں درج کیا گیا ہے:

تاریخ

منظور شدہ تعداد

مصروف عمل تعداد

31.12.2013

19,518

15,115

15.07.2022

24,631

19,289

تاہم، ماتحت عدلیہ میں خالی آسامیوں کو پُر کرنا متعلقہ ریاستی حکومتوں اور ہائی کورٹس کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

  1. بقایا جات کمیٹیوں کے ذریعے زیر التواء معاملات کے بوجھ میں کمی: اپریل 2015 میں منعقدہ چیف جسٹسز کی کانفرنس میں منظور شدہ قرارداد کے مطابق ہائی کورٹس میں بقایا جات کی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں تاکہ پانچ سال سے زائد عرصے سے زیر التوا  میں رہنے والے مقدمات کو نمٹایا جا سکے۔ ڈسٹرکٹ ججز کے ماتحت بھی بقایا جات کو نمٹانے والی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیر التواء کیسز کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں بقایا جات کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ماضی میں وزیر قانون و انصاف نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پانچ سال سے زائد عرصے سے زیر التواء مقدمات کی طرف توجہ مبذول کروانے اورزیر التوا معاملات میں کمی کی مہم شروع کرنے کا معاملہ اٹھایا۔ محکمہ نے مالیمتھ کمیٹی کی رپورٹ کے بقایا جات کے خاتمے کی اسکیم کے رہنما خطوط کی تعمیل پر تمام ہائی کورٹس کی رپورٹنگ کے لیے ایک آن لائن پورٹل تیار کیا ہے۔
  2. متبادل تنازعات کے حل(اے ڈی آر) پر زور: کمرشل کورٹس ایکٹ، 2015 (جیسا کہ 20 اگست 2018 کو ترمیم کیا گیا) تجارتی تنازعات کے لازمی پری-انسٹی ٹیوشن ثالثی اور تصفیہ کی بات کرتا ہے۔ ثالثی اور مفاہمت ایکٹ، 1996 میں ترمیم ثالثی اور مفاہمت (ترمیمی) ایکٹ 2015 کے ذریعے کی گئی ہے تاکہ تنازعات کے فوری حل کے لیے ٹائم لائن مقرر کی جائے۔
  3. خاص قسم کے کیسز کے  تیز رفتار  تصفیہ کے لیے اقدامات: چودھویں مالیاتی کمیشن نے ریاستوں میں عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے حکومت کی تجویز کی توثیق کی جس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ، گھناؤنے جرائم کے مقدمات اور ایسے معاملات جن میں بزرگ شہری، خواتین، بچے وغیرہ شامل ہیں، کے نمٹارے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام شامل ہے، اور ریاستی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 32فیصد سے 42فیصد تک بڑھے ہوئے ٹیکس کی منتقلی کی شکل میں فراہم کردہ اضافی مالیاتی  سہولتوں  کا استعمال کریں۔ 31.05.2022 تک، گھناؤنے جرائم، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم وغیرہ کے لیے 892 فاسٹ ٹریک عدالتیں فعال ہوچکی ہیں۔ ان مقدمات پر کارروائی کو تیز رفتار کرنے کے لئے جن میں منتخب ممبران پارلیمنٹ/ ممبران قانون ساز اسمبلی ملوث ہے، 9 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں10 خصوصی عدالتیں کام کررہی ہے۔ (1۔ مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تمل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، اتر پردیش، مغربی بنگال میں ایک ایک اور  قومی خطہ راجدھانی دہلی میں 2)۔ مزید، حکومت نے آئی پی سی کے تحت عصمت دری کے زیر التواء مقدمات اور پی او سی ایس او ایکٹ کے تحت جرائم کو تیزی سے نمٹانے کے لیے ملک بھر میں 1,023 فاسٹ ٹریک خصوصی عدالتیں(ایف ٹی ایس سیز) قائم کرنے کی اسکیم کو منظوری دی ہے۔ آج تک، 28 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے 842  ایف ٹی ایس سیز کے قیام کی اسکیم میں شمولیت اختیار کی ہے جس میں 363 'خصوصی  پی او سی ایس او عدالتیں' شامل ہیں۔ اس اسکیم کے لیے مالی سال 2020-2019 میں 140 کروڑ روپے جاری کیے گئے تھے، جب کہ مالی سال 2021-2020 کے دوران 160 کروڑ روپے جاری کیے گئے  تھے ۔ مالی سال 2022-2021 کے دوران 134.557 کروڑ جاری کیے گئے ہیں۔ 726 ایف ٹی ایس سیز اس وقت کام کر رہے ہیں جن میں 408 خصوصی  پی او سی ایس او  عدالتیں شامل ہیں، جنہوں نے 31.05.2022 تک 96,736 مقدمات کو نمٹا یا۔ ایف ٹی ایس سی کی اسکیم کے تسلسل کو مزید دو سالوں (2023-2021) کے لیے منظور کیا گیا ہے جس کی کل لاگت 1,572.86 کروڑ  روپے ہے۔   جس میں مرکز کے حصہ کے طور پر 971.70 کروڑ روپے شامل ہیں۔

 (vii) اس کے علاوہ، عدالتوں کے زیر التواء مقدمات اور  ادھورے کاموں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے، حکومت نے حال ہی میں مختلف قوانین میں ترمیم کی ہے جیسے  قابل منتقلی  دستاویزات  (ترمیمی) ایکٹ، 2018، کمرشل کورٹس (ترمیمی) ایکٹ، 2018، مخصوص ریلیف (ترمیمی) ایکٹ۔ 2018، ثالثی اور مفاہمت (ترمیمی) ایکٹ، 2019 اور فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ، 2018۔

ضمیمہ

مرکزی اسپانسرڈ اسکیم کے تحت ریاست کے لحاظ سے جاری کیے گئے بیانات اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ پچھلے 3 سالوں میں رپورٹ کیے گئے اخراجات کا بیان۔

نمبرشمار

ریاست

 2019-20 میں جاری

2019-20 کے دوران جاری کئے گئے فنڈ س کے لئے  استعمال کئے گئے فنڈس

2020-21 میں جاری

21-2020 کے دوران جاری کئے گئے فنڈ س کے لئے  استعمال کئے گئے فنڈس

22-2021 میں جاری

2021-22 کے دوران جاری کئے گئے فنڈ س کے لئے  استعمال کئے گئے فنڈس

1

آندھرا پردیش

20.00

20.00

10.28

7.46

0.00

0.00

2

بہار

87.62

87.62

65.72

3.32

0.00

0.00

3

چھتیس گڑھ

19.83

19.83

7.84

7.84

0.00

0.00

4

گوا

4.06

4.06

3.80

3.80

3.20

3.20

5

گجرات

16.49

16.49

13.50

7.25

0.00

0.00

6

ہریانہ

14.06

14.06

22.00

0.00

0.00

0.00

7

ہماچل پردیش

5.72

1.45

5.50

0.00

0.00

0.00

8

جموںو کشمیر

10.00

10.00

0.00

 

0.00

 

9

جھارکھنڈ

13.74

13.74

9.05

9.05

6.00

6.00

10

کرناٹک

44.04

44.04

29.72

0.00

27.00

0.00

11

کیرالہ

15.82

15.82

13.00

13.00

50.00

0.00

12

مدھیہ پردیش

66.90

66.90

45.60

45.60

55.00

55.00

13

مہاراشٹر

61.09

61.09

23.11

23.11

18.00

17.90

14

اوڈیشہ

35.69

18.40

0.00

0.00

0.00

0.00

15

پنجاب

39.78

39.78

16.48

16.48

16.50

16.50

16

راجستھان

64.21

64.21

29.90

29.90

41.50

41.50

17

تملناڈو

38.71

38.71

18.17

18.17

35.66

0.00

18

تلنگانہ

5.65

5.65

16.00

14.00

0.00

0.00

19

اترا کھنڈ

28.50

28.50

5.86

0.00

80.00

0.00

20

اترپردیش

169.66

169.66

111.00

111.00

219.00

118.50

21

مغربی بنگال

61.43

54.77

31.07

0.00

0.00

0.00

 

مجموعی (اے)

823.00

794.78

477.60

309.97

551.86

258.60

 

شمال مشرقی ریاستیں

 

 

 

 

 

 

  1.  

ارونا چل پردیش

2.69

2.69

5.00

5.00

4.09

0.93

  1.  

آسام

36.54

36.54

25.00

25.00

27.40

0.00

  1.  

منی پور

9.66

4.00

5.00

2.68

0.00

0.00

  1.  

میگھالیہ

22.85

22.85

7.71

7.71

28.02

28.02

  1.  

میزورم

5.24

5.24

5.00

5.00

9.50

4.50

  1.  

ناگا لینڈ

3.42

3.42

5.00

5.00

13.27

0.00

  1.  

سکم

2.78

2.78

2.95

0.68

0.00

0.00

  1.  

تریپورہ

18.82

8.97

7.74

0.00

0.00

0.00

 

مجموعی( بی)

102.00

86.49

63.40

51.07

82.28

33.45

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مرکز کے زیر انتظام علاقے

 

 

 

 

 

 

1

انڈمان ونکوبار جزائر

0.17

0.17

0.35

0.35

0.00

0.00

2

چنڈی گڑھ

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

3

دادر و نگر حویلی

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

4

دمن اور دیو

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

5

دہلی

48.52

48.52

45.00

45.00

30.00

19.43

6

لکشدیپ

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

7

پڈوچیری

3.31

3.31

0.00

0.00

0.00

0.00

8

جموںو کشمیر(یوٹی)

5.00

5.00

6.65

6.65

20.00

11.19

9

لداخ

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

0.00

 

مجموعی(سی)

57.00

57.00

52.00

52.00

50.00

30.62

 

کل میزان (A+B+C)

982.00

938.27

593.00

413.04

684.14

322.68

*************

 

ش ح۔ س ب۔ رض

U. No.9374



(Release ID: 1853516) Visitor Counter : 143


Read this release in: English