وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
’خواتین - تبدیلی کی کارفرما‘ کے موضوع پر ایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا
Posted On:
10 AUG 2022 6:18PM by PIB Delhi
خواتین عالمی سطح پر ماہی گیری کی ملازمت کرنے والی افرادی قوت کا تقریباً نصف حصہ ہیں۔ ہندوستانی ماہی گیر خواتین کی آبادی، کل ماہی گیروں کی آبادی کا تقریباً 44 فیصد ہے۔ خواتین مختلف قسم کی ماہی گیری کی سرگرمیوں، چھوٹے پیمانے پر ساحل کے قریب ماہی گیری کی سرگرمیوں اور سمندری گھاس کی کاشت، مچھلی کی صفائی، خشک کرنے، نمکین بنانے اور صنعتی پروسیسنگ کے کاموں میں مشغول ہیں۔ تاہم ماہی پروری، روایتی طور پر، مردوں کی اکثریت والا شعبہ رہا ہے، جہاں خواتین کی شراکت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کی آمدنی کو بہت کم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے، ماہی گیری کی سرگرمیوں میں مصروف 1.24 کروڑ خواتین کی افرادی قوت کو بااختیار بنانے اور ان کی ترقی سے شعبہ جاتی ترقی کو زبردست فروغ ملنے کی امید ہے۔
مندرجہ بالا اہم پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہی پروری کے محکمہ (ایم او ایف اےایچ ڈی)نے’’ خواتین - تبدیلی کی کارفرما' کے موضوع پر ایک ویبینار ‘‘ کا انعقاد کیا جس میں ماہی گیری کے شعبے میں صنفی تفریق کو کم کرنے کی ضرورت پر بات چیت ہوئی۔ اس ویبینار کی صدارت ڈاکٹر (محترمہ) سوورنا چندراپگاری، آئی ایف ایس، چیف ایگزیکٹیو (سی ای)، ماہی گیری کے قومی ترقیاتی بورڈ (این ایف ڈی بی)، حیدرآباد نے کی اور ساحلی ایکوا کلچر اتھارٹی(سی اے اے) کےرکن سکریٹری ڈاکٹر وی کرپا، کی موجودگی میں اس کا اہتمام کیا گیا۔ معزز پینلسٹ محترمہ وینو جے چند، پارٹنر – اسکل ڈیولپمنٹ اینڈ انٹرپرنیورشپ، ارنسٹ اینڈ ینگ، آسام کےانڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹرپرینیورشپ (آئی آئی آئی ای) کی سربراہ ڈاکٹر سری پرنا بروہا، اور حیدرآبادکی انتہائی چھوٹی، چھوٹی اور درمیانے درجہ کی صنعتوں کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایس گلوری سواروپا بھی اس موقع پر موجود تھے ۔
تقریب کا آغاز، محکمہ ماہی پروری کے جوائنٹ سکریٹری (ان لینڈ فشریز) کے خطبہ استقبالیہ سے ہوا۔ اپنے خطاب میں جے ایس(آئی ایف) نے اس شعبے کے موجودہ منظر نامے پر روشنی ڈالی اور مہمان پینلسٹ سے درخواست کی کہ وہ ایسے طریقہ کار، خیالات اور اقدامات کا اشتراک کریں جو خواتین کو ماہی گیری کے شعبے میں مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکیں۔ ویبینار کے لیے سیاق و سباق طے کرنے کے لیے، ڈاکٹر وی کرپا نے ماہی گیری کی ویلیو چین میں خواتین کو درپیش بنیادی مسائل پر روشنی ڈالی اور سوال اٹھایا کہ کیا فی الحال جو کوششیں اور اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے دوروں کے دوران اپنے تجربے کے ذریعے، چیئرپرسن، ڈاکٹر سورنا نے ان مسائل پر روشنی ڈالی جہاں خواتین کو روزانہ سختی، مشکلات اور صنفی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہی گیری کے شعبے میں خواتین کی تربیت اور صلاحیت پیدا کرنے میں ایک اہم ایجنسی کے طور پر این ایف ڈی بی کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
مزیدبرآں، مہمان پینلسٹس نے مختلف حل اور مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جو صنفی تفریق کو حل اور اسے ختم کر سکتے ہیں۔ محترمہ جے چند نے خواتین کی ہنر مندی اور صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں ریاستی حکومتیں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ، خواتین کو آگے آنے اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرکے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شراکت دارں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مناسب مہارت کے سیٹوں سے مابقت کرنےکے لیے مناسب ملازمت کے کردار بنائے جائیں۔
ڈاکٹر ایس بروہا نے شمال مشرقی خطے میں ہینڈلوم انڈسٹری میں خواتین کی قیادت والے کلسٹر کی کامیابی کی کہانی کا اشتراک کیا جہاں 'سوشل موبلائزیشن' اور 'ویلیو چین شراکتداروں کے درمیان تعاون' نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ سفارش کی گئی کہ کلسٹر رسائی اس طرح پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے، دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نوجوانوں کی نقل مکانی کو روکنے میں، اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر جی سواروپا نے پالیسی اصلاحات، قرضوں تک رسائی اور فیصلہ سازی کے ذریعے کاروباری مواقع حاصل کرنے کے لیے، خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی غرض سے،اپنی مرضی کے مطابق حکمت عملیوں کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ ایک معاون ماحولیاتی نظام کی تشکیل کے نتائج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کمزوری کو کم کریں گے اور خواتین کےاعتبار اور اعتماد میں اضافہ کریں گے۔
*****
U.No.8980
(ش ح - اع - ر ا)
(Release ID: 1850719)
Visitor Counter : 152