ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
ہندوستان نے بین الاقوامی فورمز پر موسمیاتی مالیات کے مسئلے کو اٹھانے میں پیش رفت کی ہے
ہندوستان کےموسمیاتی اقدامات کو اب تک بڑے پیمانے پر گھریلو ذرائع سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے
Posted On:
28 JUL 2022 3:44PM by PIB Delhi
ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر مملکت جناب اشونی کمار چوبے نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ2009 میں کوپن ہیگن میں منعقدہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کی 15ویں کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی15) میں، ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2020 تک ہر سال 100 بلین امریکی ڈالر مشترکہ طور پر انتظام کرنے کا عہد کیا تھا ۔ پیرس میں ہونے والے سی او پی21 میں، ترقی یافتہ ممالک اپنی عہد بندی برقرار رکھنے میں ناکام رہنے کے بعد، 2025 تک 100 بلین امریکی ڈالر سالانہ کے ہدف کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ہندوستان یو این ایف سی سی سی اور دیگر کثیر جہتی فورموں میں موسمیاتی مالیات کے مسئلے کو اٹھانے میں پیش پیش رہا ہے۔ ہندوستان کی کوششوں نے بار بار ترقی یافتہ ملک کی ایجنسیوں کے مبالغہ آمیز دعووں کو بے نقاب کیا ہے کہ یہ ہدف پورا ہونے کے قریب ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ موسمیاتی مالیات کی بہم رسانی حقیقت میں بہت کم ہے۔ موسمیاتی مالیات کی تعریف میں وضاحت طلب کرنے اور اس طرح کے مالیات کی فراہمی میں پیمانے، دائرہ کار اور رفتار کی اہمیت کو واضح کرنے میں بھی ہندوستان سب سے آگے رہا ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ اس بات کو برقرار رکھا ہے کہ موسمیاتی فنانس نیا اور اضافی ہونا چاہیے (بیرون ملک ترقیاتی امداد کے حوالے سے)، بنیادی طور پر گرانٹس کے طور پر نہ کہ قرضوں کے طور پر اور ساتھ ساتھ تخفیف اور موافقت کے درمیان متوازن ہونا چاہیے۔
فی الحال، موسمیاتی فنانس کی تعریف اور تخمینوں کی شفافیت اور پیش رفت کے حوالے سے کئی مسائل ہیں۔ موبلائزیشن کا ہدف کس حد تک حاصل کیا گیا ہے اس کے مختلف اندازے ہیں۔ یو این ایف سی سی سی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے چوتھے دو سالہ جائزے میں 2018 تک موسمیاتی مالیات کے بہاؤ میں ایک تازہ ترین جائزہ اور رجحانات پیش کیے گئے ہیں۔ اس تشخیص میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2020 میں ترقی یافتہ ممالک کی جماعتوں کی طرف سے رپورٹ کی گئی کل عوامی مالی امداد 2017 میں 45.4 بلین امریکی ڈالر تھی اور 2018 میں 51.8 بلین امریکی ڈالرتھی ۔
ایک بے مثال قدم میں، گلاسگو میں سی او پی26 کے حتمی فیصلے میں گہرے افسوس کے ساتھ نوٹ کیا گیا کہ بامعنی تخفیف کے اقدامات اور نفاذ میں شفافیت کے تناظر میں ترقی یافتہ ممالک کی جماعتوں کا یہ عہد ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔
سی او پی26 کے حتمی فیصلوں میں، اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ 2025 سے پہلے، پیرس معاہدے کے فریقین کی میٹنگ کے طور پر کام کرنے والی پارٹیوں کی کانفرنس ہر سال 100 بلین امریکی ڈالر کی منزل سے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا اجتماعی مقداری ہدف (این سی کیو جی) طے کرے گی۔ این سی کیو جی کو زیادہ شفافیت اور پیشین گوئی کے ساتھ نمایاں طور پر عوامی طور پر مالی اعانت فراہم کی جائے گی، اور ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اور ترجیحات کی روشنی میں تخفیف اور موافقت کے تئیں متوازن نقطہ نظر اپنایا جائے گا ۔
ہندوستان کے آب و ہوا کے اقدامات کو اب تک بڑے پیمانے پر گھریلو ذرائع سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے، جس میں حکومتی بجٹ سپورٹ کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میکانزم، مالیاتی ذرائع اور پالیسی اقدامات کا مرکب شامل ہے۔ فروری 2021 میں یو این ایف سی سی سی کو ہندوستان کی تیسری دو سالہ اپ ڈیٹ رپورٹ (بی یو آر) کے مطابق، مالیات کی گھریلو بہم رسانی بین الاقوامی مالی اعانت کی مجموعی رقم سے مکمل طور پر تجاوز کرتی ہے۔
یو این ایف سی سی سی کے ایک فریق کے طور پر، ہندوستان وقتاً فوقتاً اپنی قومی مواصلات (این سیز) اور دو سالہ اپڈیٹ رپورٹس (بی یو آرز) یو این ایف سی سی سی کو پیش کرتا ہے جس میں قومی گرین ہاؤس گیس (جی ایچ ایس) انوینٹری شامل ہے۔ فروری 2021 میں یو این ایف سی سی سی کو جمع کرائے گئے ہندوستان کے تیسرے بی یو آر کے مطابق، 2016 کے لیے کل خالص جی ایچ جی کا اخراج 2.5 بلین ٹن سی او 2ای ہے۔ ہمارا فی کس اخراج 1.96 ٹی سی او 2 ہے جو کہ دنیا کے فی کس جی ایچ جی اخراج کا ایک تہائی سے بھی کم ہے اور 2016 میں ہمارا سالانہ اخراج عالمی اخراج کا صرف 5 فیصد ہے۔ ہندوستان نے 1850 سے 2019 تک عالمی مجموعی اخراج میں صرف 4 فیصد حصہ ڈالا ہے، باوجود اس کے کہ انسانیت کے ایک چھٹے حصہ کا گھرہے۔
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی اجتماعی کارروائی کا مسئلہ ہے جس کو کثیرالجہتی کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے اور دنیا کے ممالک کو عالمی کاربن بجٹ کے صرف اپنے متعلقہ منصفانہ حصص کو استعمال کرنے کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس معیار کے مطابق، ہندوستان نے عالمی کاربن بجٹ میں اپنے منصفانہ حصہ سے بہت کم استعمال کیا ہے۔
اخراج کی ترقی کی عالمی شرح کا ہندوستان کی شرح نمو سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ مساوات اور مشترکہ لیکن امتیازی ذمہ داریوں کے اصول کی بنیاد پر، جیسا کہ یو این ایف سی سی سی اور پیرس معاہدے میں درج ہے، ہندوستان کا اخراج بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی اولین ترجیحات پائیدار ترقی اور غربت کا خاتمہ ہیں۔ اخراج میں ہندوستان کا منتہائے عروج کا سال عالمی اخراج کے منتہائے عروج کے بعد ہوسکتا ہے اور صرف اس کے بعد انحطاط شروع ہو سکتا ہے جیسا کہ پیرس معاہدے میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ بھی نوٹ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کا اخراج عالمی اوسط کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم بنیاد سے بڑھتا ہے۔ کسی بھی صورت میں، یہ مجموعی اخراج میں شراکت ہے جو درجہ حرارت میں اضافے کے لیے انفرادی ممالک کی ذمہ داری کا فیصلہ کن معیار ہے نہ کہ شرح نمو اور علاہدگی میں لیے جانے والا انحطاط۔
********************
(ش ح ۔ ا ک۔ ر ب)
U.No. 8516
(Release ID: 1847299)
Visitor Counter : 150