کامرس اور صنعت کی وزارتہ

مرکزی وزیر پیوش گوئل  کا جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کانفرنس کے دوران ماہی پروری میں سبسڈی سے متعلق مذاکرات سے خطاب

Posted On: 14 JUN 2022 7:42PM by PIB Delhi

جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کانفرنس کے دوران ماہی پروری میں سبسڈی کے مذاکرات پر کامرس اور صنعت، صارفین کے امور، خوراک اور عوامی تقسیم اور ٹیکسٹائل کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل  کے خطاب کا متن حسب ذیل ہے:

"ہندوستان پائیداری کا ایک مضبوط علمبردار ہے، اور اس کی شاندار تاریخ، اس کے قدرتی وسائل کےبندوست میں اچھے طور طریقے اور  اس کی  روایات کا ذکر کرتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ، میں آپ سے اس حقیقت کا ادراک کرنے کی درخواست کرتا ہوں کہ دونوں نصف کرہ کے کئی ممالک نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران  سمندر کی دولت لوٹنے اور اس کااستحصال کرنے کے لئے اپنے صنعتی  بیڑوں کو اجازت دی، جس کی وجہ سے انتہائی غیر پائیدار والی ماہی گیری ہوپائی۔ اس کے برعکس، ہندوستان نے معمولی سائز کے بحری بیڑے کو برقرار رکھا جو بڑے پیمانے پر اپنے خصوصی اقتصادی زون میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، غیر فعال طریقے کے ساتھ کام کرتے ہیں اور سمندر ی ساحل پر کم سے کم قدموں کے نشانات چھوڑتے ہیں۔

ہماری سبسڈیز سب سے کم ہیں۔ ہم صرف ایک آر ایف ایم او کے رکن ہیں، اور ہم دور دراز کے پانی  میں مچھلیاں پکڑنے والے ملک  نہیں ہیں۔ ہم  کسی دوسرے جدید ماہی گیر والے ملک کی طرح وسائل کا اندھا دھند استحصال کرنے کے لیے ماہی گیری کے بڑے بحری بیڑے نہیں چلاتے ہیں۔  میرے سامنے ایک چارٹ ہے جو مختلف ممالک کی طرف سے دی جانے والی مختلف سبسڈیز کو ظاہر کرتی ہے۔ ہندوستان اپنے مچھلی پکڑنے والے کنبوں کو  ایک سال میں بمشکل 15 ڈالر فراہم کرتا ہے اور یہاں ایسے ممالک ہیں، جو ایک ماہی گیر کنبے کو  42,000،  65,000 اور 75,000 ڈالر دیتے ہیں۔ یہ عدم مساوات کی ایک حد ہے جسے ماہی گیری کے موجودہ متن کے ذریعے ادارہ جاتی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہندوستان کا ماہی گیری کا شعبہ روایتی اور  فطری طور پر چھوٹے پیمانے کی  نوعیت کا ہے اور ہم  بنیادی طور پر ماہی گیری کے وسائل کو پائیدار طریقے سے استعمال کرنے میں نظم و ضبط رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہیں۔

جناب اعلیٰ، مچھلی ہندوستانی افسانوں، مذہب اور ثقافت کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے۔ اپنی مچھلیوں اور آبی وسائل کے پائیدار استعمال میں ہندوستان کی مصروفیت ہمیشہ سے مثالی رہی ہے۔ ہندوستان میں ماہی گیروں کی روایتی زندگی قدیم زمانے سے سمندروں اور بڑے بڑے اوشینس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ نسلوں سے مچھلی ان کی روزی روٹی  واحد ذریعہ معاش ہے۔ ذمہ دار اور پائیدار ماہی گیری ہمارے ماہی گیروں کی اخلاقیات میں پیوست ہے۔ ہمارے روایتی ماہی گیر انتہائی لذیذ اور غذائیت سے بھرپور مچھلی کے پروٹین کو ہماری پلیٹوں اور بہت سے دوسرے ممالک کی پلیٹوں میں لانے کے لیے سخت اور انتہائی سخت حالات میں محنت کرتے ہیں۔

شدید غربت اور ناخواندگی کے باوجود، ہندوستانی ماہی گیر  ایک سال میں 61 دن تک رضاکارانہ  طور پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ مچھلیوں کو بڑھنے  کا موقع مل سکے اور دوبارہ  پھر سے نسل کو آگے لے جاسکیں ۔وہ بھوکے تو رہ سکتے ہیں لیکن ان 61 دنوں کے دوران  وہ سمندروں میں مچھلی پکڑنے نہیں جاتے ۔ درحقیقت، جیسا کہ آج ہم بات کرتے ہیں، میرے ملک میں کہیں بھی مچھلیاں نہیں پکڑی جا رہی ہیں۔ مغربی ساحل پر، جہاں بحیرہ عرب ہے، اور جہاں سے میں آتا ہوں، یکم جون سے 31 جولائی تک روک دیا جاتا ہے۔ خلیج بنگال میں، مشرق میں، اسے 15 اپریل سے 14 جون تک روک دیا جاتا ہے تاکہ مچھلیوں کی افزائش اور دوبارہ پیدا ہونے کی اجازت دی جا سکے۔ ہمارے روایتی ماہی گیر سخت غربت میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا واحد اثاثہ کشتی اور جال ہے۔

میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ اب جو مشق کی جا رہی ہے، اس کے نتیجے نے ترقی پذیر ممالک کو روایتی ماہی گیروں کی امنگوں اور ان کی روزی روٹی کو پورا کرنے کے لیے برابری کا میدان فراہم نہیں کیا ہے۔ ہندوستان میں کئی ملین ماہی گیر، تقریباً 9 ملین خاندان حکومت کی طرف سے امداد اور مدد پر انحصار کرتے ہیں، اگرچہ بہت کم ہے جس کا میں نے  ان کی  روزی روٹی کے لیے ذکر کیا۔ چھوٹے پیمانے پر اور روایتی ماہی گیروں کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے جگہ فراہم نہ کرنے کا کوئی بھی فیصلہ ان کے مستقبل کے مواقع کو ہی ختم کر دے گا۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ماہی گیری کے کئی ترقی یافتہ ممالک متعدد آر ایف ایم اوز کے ممبر بن کر دوسروں کےای ای زیڈ اور گہرے سمندروں میں ماہی گیری کے وسائل کا اندھا دھند استحصال کر رہے ہیں۔ ہندوستان نے ماضی میں دلیل دی ہے کہ اس  طرح  کے ممالک  اس طرح کے نقصان کے لئے خود اپنے طورپر ذمہ داری لیں جو انہوں نے  عالمی ماہی گیری کی دولت کو پہنچایاہے  اور انہیں سخت نظام کے تحت لانا چاہیے۔ ابھی  بھی، ہماری تکلیف کے لیے، موجودہ متن اس طرح کے زیادہ استحصال کو نہیں روکتا۔ اس کے بجائے، یہ اندھا دھند ایسے طور طریقوں کی غیر معینہ مدت تک اجازت دیتا ہے۔

اتفاق سے، میں  دیکھتا ہوں کہ بہت سے ممالک کو اپنے ماہی گیروں کے بارے میں کافی تشویش ہے۔ لیکن ماہی گیروں کی تعداد کتنی ہے؟ ایک میں 1,500 ماہی گیر، دوسرے میں 11,000 ماہی گیر، دوسرے میں 23,000 ماہی گیر اور مزید 12,000 ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں 90 لاکھ ماہی گیروں کی روزی روٹی پر ماہی گیروں کی  چھوٹی  تعداد کی تشویش غالب ہے۔ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے! اور یہی وجہ ہے کہ، ہندوستان موجودہ متن کا مخالف ہے اور  اس کی بھی مخالفت کرتا ہے جس طرح ڈی منیمائز کوادارہ جاتی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں ہر طرح سے دیکھ رہا ہوں کہ یوراگوئے  راونڈ ہم آہنگی اور زراعت میں امتیازی سلوک کو آج ماہی گیری میں ادارہ جاتی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور میں تمام ترقی پذیر ممالک سے اپیل کروں گا کہ وہ ایسی کوششوں سے ہوشیار رہیں۔ ۔

درحقیقت، ہندوستان اپنے لاکھوں لوگوں کوروزی روٹی فراہم کرنے اور اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک اورتغذیہ فراہم  کرکے اپنی ماہی گیری کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے، کیونکہ ہم نے پائیداری کو بنیاد بنایا ہے، پھر بھی ہم نے انہیں اپنے اقتصادی زون (ای ای زیڈ) میں مچھلی پکڑنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ 

 

************

ش ح۔ح ا ۔ م  ص

 (U: 6552)

 

                          



(Release ID: 1834467) Visitor Counter : 258


Read this release in: English , Hindi