کامرس اور صنعت کی وزارتہ
ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کانفرنس کے دوران ‘ وبائی مرض پر ڈبلیو ٹی او کا ردعمل’ کے عنوان پر جناب پیوش گوئل کا موضوعاتی سیشن کا بیان
Posted On:
13 JUN 2022 9:50PM by PIB Delhi
آج جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کی 12ویں وزارتی کانفرنس کے دوران کامرس اور صنعت، امور صارفین، امورِ خوراک، عوامی تقسیم اور ٹیکسٹائل کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل کے موضوعاتی سیشن کے بیان کا مکمل متن درج ذیل ہیں۔:
‘‘مادام ڈائریکٹر جنرل، عزت مآب ، عالی جناب ڈاکٹر جیروم والکاٹ، وزیر برائے امور خارجہ اور غیر ملکی تجارت، بارباڈوس، سفیر ڈیسیو کاسٹیلو، وبائی امراض کے لیے ڈبلیو ٹی او کے رد عمل کے سہولت کار، سفیر ڈاکٹر لانسانا گیبری، ٹی آر آئی پی ایس کونسل کی سربراہ ، معزز ، خواتین و حضرات۔
ڈائریکٹر جنرل نگوزی آپ کی سالگرہ پر آپ کو میری دلی مبارکباد۔ میں ابھی اور آنے والے سالوں میں آپ کی کامیابی کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرنے کے لیےتمام ارکان کے ساتھ شامل ہوں۔ خدا تم پر اپنا کرم کرے!!
آپ سب کا بہت بہت شکریہ، دنیا بھر کے دوستوں کا، جنہوں نے آج مجھے آپ کی نیک خواہشات پہنچائیں۔ میں واقعی بہت متاثر ہوں.
مجھے یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ ڈبلیو ٹی او کے وبائی متن کے حوالے سے رد عمل نے ایک بہت ہی عمدہ اور احتیاط سے تیار کردہ توازن کو قائم کیا ہے اور اس کے لیے، میں سہولت کار، سفیر ڈیسیو کے لیے اپنی تعریف کو درج کرانا چاہتا ہوں، جنہوں نے مذاکراتی عمل کے لیے ایک اعلیٰ معیار قائم کیا ہے جس کے حوالے سے ہمیں یہ امید ہے کہ اس کی پیروی دوسری جگہوں پر بھی کی جائے گی۔
رد عمل پر مشتمل دستاویز گفت و شنید کی واحد صریحی دستاویز ہے جسے ایم سی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے لئے بہترین طریقہ کار اختیار کیا گیا۔
بھارت نے اسے ممکن بنانے کے عمل سے گزرنے کے دوران کئی سمجھوتے کیے ہیں، جیسے ٹی آر آئی پی ایس خود کاریت ، جسے قبول نہیں کیا گیا، آئی پی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر زبان کو وسیع پیمانے پر نرم اور آسان کرنا؛ غذائی تحفظ اور اقتصادی لچک کے بارے میں دبی دبی خواہش، ان مسائل پر مستقبل کے حوالے سے مضبوط ایجنڈے پر سمجھوتہ، ترقی پذیر ممالک اور ایل ڈی سی کے مسئلے کا حل، مسائل اور زبان کی قبولیت۔ شفافیت ،برآمدات پر پابندی مارکیٹ کی کشادگی اور ترقی پذیر ممالک وغیرہ کے شعبوں میں ہم ابھی تک مطمئن نہیں ہوپائے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم نے جو لچک دکھائی ہے وہ اس کی قبولیت کی راہ ہموار کرے گی اور کامیاب ایم سی۔ 12 کے لیے دوسرےمیدانوں میں بھی اس کو نمونہ عمل بنایا جائےگا۔
لہٰذا، اس نازک طریقے سے تیار کی گئی دستاویز کے ساتھ ذرا سی بھی چھیڑ چھاڑ کرنے سے مہینوں تک جاری رہنے والی پیچیدہ قسم کی بحث چھیڑ جائے گی اور اس سے ایسے فیصلوں تک پہنچنے میں ہمارے ناکام ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جن کے حصول کے ہم بہت قریب ہیں۔
تاہم، اس دستاویز کا ٹی آر آئی پی ایس دستاویز کے تسلی بخش حل کے ساتھ ایک ناقابل شکست ربط ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کےلئے لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کو ایک ساتھ ہی حتمی شکل دی جانی چاہیے ۔ ہمارے لیےورزشی طریقہ علاج اور تشخیص پر بات چیت شروع کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے پاس وبائی مرض کے حوالے سے ایسا کوئی ردعمل نہیں ہو سکتا جوٹی آر آئی پی ایس پر کوئی موثر اور قابل عمل دستاویز فراہم نہ کرے، اور نہ ہی ہم سامان کی روانگی سے پہلے نوٹیفیکیشن کی کسی ضرورت سے اتفاق کر سکتے ہیں۔
دوستو، اگرچہ یہ ایک متوازن متن ہے، جو ایک خوشگوار اتفاق رائے کے ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہے، جس کی میں یقیناً تعریف کرتا ہوں، تاہم ہمارے کچھ خدشات ہیں۔ 10 جون 2022 کے مسودے کے اعلامیے میں کچھ جگہوں پر ‘‘کچھ ترقی پذیر ممالک کے اراکین، اور خاص طور پر ایل ڈی سیز’’ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مراکش کے معاہدے سے مراد ‘‘ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر ایل ڈی سیز’’ ہیں۔ یہ عمل اس بات کا ایک سیدھا سادہ سا اعتراف ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے بڑے مجموعے میں، ایل ڈی سیز زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ مسودہ اعلامیہ میں اس جملے کو کئی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ قابل قبول ہے۔ تاہم، ‘‘کچھ ترقی پذیر ممالک’’ کے فقرے سے ترقی پذیر ممالک کے درمیان تفریق کی بو آتی ہے ، جسے ہمارے خیال میں اس مرحلے پرحذف کردینا سب سے بہتر رہے گا۔ موجودہ مسودہ ایک طرح سے مراکیش معاہدے کے اصل منشا کی ترجمانی کرتا ہے۔
کووڈ -19 وبائی امراض کے دوران فوڈ سیکیورٹی کے بارے میں بڑے پیمانے پر خدشات پائے جاتے تھے۔ میں نے کل ذکر کیا تھا، کہ ہندوستان نے ہمارے عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے تقریباً 100 ملین ٹن غذائی اجناس تقسیم کیے۔ یہ اُس سرکاری ذخیرے کی مدد سے کیا گیا جسے ہم احتیاطاً محفوظ رکھا تھا اور تقریباً 25 ماہ تک قریب قریب 800 ملین غریب اور کمزور لوگوں کو امداد فراہم کی گئی، جس کی لاگت 50 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس سے ہمارے قومی غذائی تحفظ پروگرام کے تحت معاشرے کے کمزور طبقوں میں تقسیم کیے جانے والے موجودہ اناج کی مقدار کو تقریباً دوگنا کردیا گیا ہے۔ اس کو عالمی سطح پر وبائی امراض کے دوران بھوک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سب سے زیادہ جامع طریقوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ درحقیقت، بین الاقوامی سطح پر متعدد رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس سے معاشرے کے مختلف طبقات میں عدم مساوات کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ صرف مضبوط سرکاری ذخیرہ کاری پروگرام کی وجہ سے ممکن ہوا، جو ہندوستان کے ذریعہ چلایا جارہاہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسودے کے اعلامیے کے پیرا 22 میں فوڈ سیکیورٹی کے مقاصد کے لیے پبلک اسٹاک ہولڈنگ کا ذکر نہیں ہے۔
دوستو، ہندوستان کے لیے، وبائی مرض پر ہمارا ردعمل ٹی آر آئی پی ایس کی چھوٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے، جنوبی افریقہ اور ہندوستان اور چھوٹ کی تجویز کے 63 شریک ا سپانسرز نے ڈبلیو ٹی او کی رکنیت پر زور دیا تھا کہ وہ کووڈ 19 وبائی مرض کا جامع طور پر مقابلہ کرنے کے لیےرسد کو بڑھا کر اور مساوی اور سستی رسائی کو یقینی بنا کر ویکسین کی تیاری ، ورزشی طریقہ علاج اور تشخیص کو بڑھانے کے لیے ٹرپس چھوٹ والی تجویز کو اپنائے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بات چیت ٹی آر آئی پی ایس کونسل میں تعطل تک پہنچ گئی۔
میں درحقیقت ما دام ڈائریکٹر جنرل محترمہ نگوزی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آگے بڑھنے کا ایک انوکھا راستہ تلاش کیا اور ہندوستان نے غیر رسمی چار فریقی مباحثوں میں حصہ لیا جس کا آغاز انہوں نے نہایت ہمدردانہ انداز سے کیا تھا۔ یہ دونوں شدید اور مشکل مذاکرات تھے۔ تاہم، جنوبی افریقہ اور ہندوستان دونوں نے ہمارے دو دوستوں، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعمیری رابطہ کاری کے جذبے کے تحت مذاکرات کا عمل جاری رکھا۔ ہم سب نے ایک مسودہ تیار کرنے کی کوشش کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سمجھوتہ کرنے کی صورت حال پیدا کی ۔جو عام ممبران کے لیے کسی حد تک قابل قبول ہو گی۔ ہمارے لیے ان مباحثوں کا متن اس بات کی عکاسی نہیں کرتا ہے جس کا ہم نے چھوٹ کی تجویز کے شریک اسپانسر کے طور پر تصور کیا تھا۔ متن پر مبنی گفت و شنید کے آغاز سے رکن ممالک کی بڑی تعداد کو متن پر بات چیت میں مشغول ہونے کی اجازت دی۔ میں واقعی پر امید تھا کہ اس متن کے ساتھ باقی تحفظات کو حل کر لیا جائے گا اور صلح صفائی کر لی جائے گی۔ ہندوستان کے لیے، اتفاق رائے پر مبنی نتیجہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہیے اور غیر ادویاتی علاج اور تشخیص پر بھی بات چیت شروع کرنی چاہیے، کیونکہ وبائی مرض ختم نہیں ہوا، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے، بشمول کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے۔ جب کہ ویکسین مرض کی روک تھام کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، ہمیں ایک جامع ٹیسٹ اور علاج کی حکمت عملی تک پہنچنے کے لئے ورزشی طریقہ علاج اور تشخیص کے لئے ضروری سامان کی تیاری کو رفتار بخشنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس اہم مسئلے کے نتائج کو ایک مؤثر، اور قابل عمل چھوٹ کے طور پر مانتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ایک بہتر شدہ لازمی لائسنسنگ، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر یہ موصول ہو جائے تو وہ حاصل کیا جا سکتا ہے، جس کو حاصل کرنے کے لیے اسےترتیب دیا گیا تھا۔
درحقیقت، ہمیں اس مرحلے تک پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا ہے۔ پوری دنیا میں ویکسین کافی مقدار میں اور قابل رسائی ذخائر کی شکل میں موجود ہے۔ اس لئے اس کی کوئی قلت نہیں ہے۔ویکسین اب عرصہ استعمال کے ختم ہونے کی تاریخوں کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود اب بھی بعض شقوں کی مخالفت ہو رہی ہے۔ ورزشی طریقہ علاج اور تشخیص کو شامل کرنے کی مخالفت کی جارہی ہے، جو کم از کم مستقبل میں کسی بھی بحران سے نمٹنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ میری بات چیت کے دوران یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مہربانی کی جارہی ہے۔ ٹھیک ہے، اگر یہ صرف ویکسین ہیں جو ہم فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں، میرے خیال میں اس میں بہت دیر ہو چکی ہے کہ اس وبائی مرض نے اپنا ابتدائی مرحلہ پورا کرلیا ہے۔ فی الحال ویکسین کی کمی نہیں ہے۔ اور اگر آپ مستقبل قریب اور اس مدت کے تقاضوں کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہیں، تو میرے خیال میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ لاکھوں جانوں کے ضیاع یا لاکھوں متاثر ہونے والے انسانوں کی فکر کرنے کے بجائے، افسوس کی بات ہے کہ چند دواسازی کمپنیوں کا منافع عالمی بہبود پر غالب ہے۔
************
ش ح ۔ س ب۔ رض
U. No.6188
(Release ID: 1833731)