صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت

مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ منڈاویہ نےاین ایف ایچ ایس-5 سے متعلق رپورٹ جاری کی


سال 2021-2020 کے لیے دیہی صحت کے اعداد و شمار کی اشاعت بھی جاری کی گئی

Posted On: 05 MAY 2022 7:52PM by PIB Delhi

 صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹر۔ منسکھ منڈاویہ نے آج گجرات کے وڈودرا میں منعقد ہونے والے ‘سواستھیا چنتن شیویر’ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل اور ڈاکٹر بھارتی پروین پوار، صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر مملکت کی موجودگی میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس-5) کے پانچویں دور کی قومی رپورٹ جاری کی۔

رپورٹ آبادی، صحت اور خاندانی بہبود کے کلیدی شعبوں اور متعلقہ شعبہ جات جیسے آبادی کی خصوصیات، زرخیزی خاندانی منصوبہ بندی؛ بچوں اور بچوں کی اموات؛ ماں اور بچے کی صحت؛ غذائیت اور خون کی کمی؛ بیماری اور صحت کی دیکھ بھال؛ خواتین کو بااختیار بنانا وغیرہ کے حوالے سے تفصیلی معلومات پر مشتمل ہے ۔

این ایف ایچ ایس کے یکے بعد دیگرے منعقد ہونے والے ادوار  کا بنیادی مقصد صحت اور خاندانی بہبود اور ہندوستان میں دیگر ابھرتے ہوئے شعبوں سے متعلق قابل اعتماد اور موازنہ ڈیٹا فراہم کرنا ہے۔ این ایف ایچ ایس-5 سروے کا کام 28 ریاستوں اور 8 ریاست کے زیر انتظام علاقوں سے ملک کے 707 اضلاع (مارچ، 2017 تک) کے تقریباً 6.37 لاکھ گھرانوں میں نمونے کے طور  پر کیا گیا ہے، جس میں 7,24,115 خواتین اور 1,01,839 مردوں کو شامل  کیا گیا ہےاور جس کا مقصد  ضلعی سطح تک  غیر منقسم تخمینہ فراہم کرنا ہے ۔ قومی رپورٹ سماجی، اقتصادی اور دیگر پس منظر کی خصوصیات کے لحاظ سے بھی ڈیٹا فراہم کرتی ہے، جوکہ  پالیسی سازی اور پروگرام پر موثر عمل درآمدکے نفاذ کے لیے مفید ہے۔

سروے کے پہلے دور( این ایف ایچ ایس -4) کے سلسلے میں این ایف ایچ ایس -5 کا دائرہ کار اموات کی رجسٹریشن، ماقبل اسکول تعلیم، بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے وسیع پروگرام ، بچوں کے لیے مائیکرو نیوٹرینٹ کے اجزاء، ماہواری حفظان صحت، الکحل اور تمباکو کے استعمال کی تعدد، غیر متعدی امراض کے اضافی اجزاء (این سی ڈیز) ، 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام افراد میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی پیمائش کے لیے عمر کی توسیع جیسی نئی جہتوں کو شامل کرکے وسیع کیا گیا ہے ، جو موجودہ پروگراموں کی نگرانی اور مضبوطی کے لیے مطلوبہ معلومات فراہم کرے گی اور پالیسی سے متعلق اقدامات کے لیے نئی حکمت عملی فراہم کرے گی۔ اس طرح، این ایف ایچ ایس-5  اہم اشاریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے جو ملک میں پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کی پیشرفت کی سمت مقرر  کرنے میں مددگار ہیں۔(این ایف ایچ ایس- 4 2015-2016 ) تخمینے ایس ڈی جی اشاریوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے بنیادی اقدار کے طور پر استعمال کیے گئے تھے اور  این ایف ایچ ایس -5 مختلف سطحوں پر تقریباً 34 ایس ڈی جی اشاریوں کے لیے ڈیٹا فراہم کرے گا۔

این ایف ایچ ایس- 5 قومی رپورٹ کے اہم نتائج۔( این ایف ایچ ایس-4 2016-2015) سے (این ایف ایچ ایس-5 2021-2019 ) تک پیشرفت

  • ہندوستان نے حالیہ دنوں میں آبادی پر قابو پانے کے اقدامات میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ کل زرخیزی کی شرح (ٹی ایف آر) ، فی خواتین بچوں کی اوسط تعداد، این ایف ایچ ایس-4 اور 5 کے درمیان قومی سطح پر 2.2 سے 2.0 تک مزید کم ہو گئی ہے۔ ہندوستان میں صرف پانچ ریاستیں ہیں، جو شرح پیدائش 2.1 کی متبادل سطح سے اوپر ہیں۔ .یہ ریاستیں بہار (2.98)، میگھالیہ (2.91)، اتر پردیش (2.35)، جھارکھنڈ (2.26)، منی پور (2.17) ہیں۔
  • مجموعی طور پر مانع حمل وسائل کے رواج  کی شرح (سی پی آر) ملک میں 54 فیصد سے بڑھ کر 67 فیصد ہو گئی ہے۔ مانع حمل جدید طریقوں کے استعمال میں بھی تقریباً تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی نامکمل ضروریات میں 13 فیصد سے 9 فیصد تک نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ جگہ کی فراہمی کی  نامکمل  ضرورت، جو ماضی میں ہندوستان میں ایک بڑا مسئلہ رہا، کم ہو کر 10 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔
  • این ایف ایچ ایس-4 اور  این ایف ایچ ایس-5کے درمیان پہلی سہ ماہی میں اے این سی کا دورہ کرنے والی حاملہ خواتین کا تناسب 59 سے 70 فیصد تک بڑھ گیا۔ زیادہ تر ریاستوں میں، ناگالینڈ میں 25 فیصد پوائنٹس کے سب سے زیادہ اضافے کے ساتھ، اس کے بعد مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں دیکھا گیا۔ اس کے برعکس، گوا، سکم، پنجاب اور چھتیس گڑھ نے اے این سی کے پہلے سہ ماہی دوروں میں معمولی کمی دکھائی۔ قومی سطح پر 4+ اے این سی میں 2016-2015 میں 51 فیصد سے 2021-2019 میں 58 فیصد تک کافی پیش رفت دیکھی گئی ہے۔
  • ہندوستان میں ادارہ جاتی پیدائش 79 فیصد سے بڑھ کر 89 فیصد ہوگئی ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی تقریباً 87 فیصد بچوں کی پیدائش اداروں، نرسنگ ہومس وغیرہ میں ہوتی ہے اور یہی شرح شہری علاقوں میں 94 فیصد ہے۔ اروناچل پردیش میں ادارہ جاتی پیدائش میں زیادہ سے زیادہ 27 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا، اس کے بعد آسام، بہار، میگھالیہ، چھتیس گڑھ، ناگالینڈ، منی پور، اتر پردیش اور مغربی بنگال میں 10 فیصد پوائنٹس سے زیادہ اضافہ ہوا۔ 91 فیصد سے زیادہ اضلاع میں پچھلے 5 سالوں میں 70 فیصد سے زیادہ پیدائشیں حفظان صحت سے متعلق اداروں میں  ہوئیں۔
  • این ایف ایچ ایس -5 میں، 12-23 ماہ کی عمر کے تین چوتھائی سے زیادہ (77فیصد) بچوں کو مکمل طور پر حفاظتی ٹیکے لگائے گئے، جبکہ این ایف ایچ ایس-4  میں یہ شرح 62 فیصد تھی۔ بچوں میں  حفاظتی ٹیکہ کاری کی مکمل کوریج ناگالینڈ میں 57 فیصد سے لے کر ڈی این ایچ اور ڈی ڈی میں 95 فیصد تک ہے۔ اڈیشہ (91فیصد)، تمل ناڈو (89فیصد)، اور مغربی بنگال (88فیصد) نے بھی حفاظتی ٹیکوں کی نسبتاً زیادہ کوریج دکھائی ہے۔
  • پچھلے چار سالوں سے ہندوستان میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں  جسمانی نشوونما  میں رکاوٹ کی سطح معمولی طور پر 38 سے 36 فیصد تک گر گئی ہے۔ 2021-2019 میں شہری علاقوں (30فیصد) کے مقابلے دیہی علاقوں (37فیصد) کے بچوں میں  جسمانی نشوونما میں رکاوٹ  کی سطح  زیادہ ہے۔جسمانی نشوونما میں رکاوٹ میں فرق پڈوچیری میں سب سے کم (20فیصد) اور میگھالیہ میں سب سے زیادہ (47فیصد) ہے۔ ہریانہ، اتراکھنڈ، راجستھان، اتر پردیش اور سکم (ہر ایک میں 7 فیصد پوائنٹس)، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش اور منی پور (ہر ایک میں 6 فیصد پوائنٹس) اور چندی گڑھ اور بہار (ہر ایک میں 5 فیصد پوائنٹس) میں جسمانی نشوونما میں رکاوٹ میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ این ایف ایچ ایس-4، این ایف ایچ ایس-5 میں زیادہ تر ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقے میں زیادہ وزن یا موٹاپے کا پھیلاؤ بڑھ گیا ہے۔ قومی سطح پر خواتین میں یہ 21 فیصد سے 24 فیصد اور مردوں میں 19 فیصد سے 23 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ کیرالہ،انڈمان و نکوبار جزائر، آندھرا پردیش، گوا، سکم، منی پور، دہلی، تامل ناڈو، پڈوچیری، پنجاب، چندی گڑھ اور لکشدیپ میں ایک تہائی سے زیادہ خواتین (34-46فیصد) زیادہ وزنی یا موٹاپے کا شکار ہیں۔
  • این ایف ایچ ایس-5 تمام ریاستوں/ مرکز  کے زیرانتظام علاقے میں ایس ڈی جی اشاریوں میں مجموعی بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔ شادی شدہ خواتین عام طور پر گھر کے تین فیصلوں میں جس حد تک حصہ لیتی ہیں (خود کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں؛ بڑی گھریلو خریداریاں؛ اپنے خاندان یا رشتہ داروں سے ملاقات) اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فیصلہ سازی میں ان کی شرکت اچھی خاصی ہے، لداخ میں 80 فیصد سے لے کر 99 فیصد تک۔ ناگالینڈ اور میزورم میں۔ دیہی (77فیصد) اور شہری (81فیصد) ۔ ان کے درمیان میں پایا جانا والا یہ فرق معمولی ہے۔ گزشتہ 4 سالوں میں خواتین کے پاس بینک یا سیونگ اکاؤنٹ رکھنے کی شرح 53 سے بڑھ کر 79 فیصد ہو گئی ہے۔
  • این ایف ایچ ایس-4 اور این ایف ایچ ایس-5 کے درمیان، کھانا پکانے کے صاف ایندھن کا استعمال (44فیصد سے 59فیصد) اور صفائی کی بہتر سہولیات (49فیصدسے 70فیصد)، بشمول صابن اور پانی سے ہاتھ دھونے کی سہولت (60فیصد سے 78فیصد) میں کافی بہتری آئی ہے۔ صفائی کی بہتر سہولیات کا استعمال کرنے والے گھرانوں کے تناسب میں کافی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سوچھ بھارت مشن پروگرام کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

(این ایف ایچ ایس-6 2024-2023) میں نئی ​​جہتیں – این ایف ایچ ایس-5  سے سبق

صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت(ایم او ایچ ایف ڈبلیو) ، حکومت ہند نے عام طور پر ہندوستانی آبادی اور خاص طور پر کمزور اور محروم طبقات کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کئی فلیگ شپ پروگرام شروع کیے ہیں، جیسے آیوشمان بھارت، پوشن ابھیان وغیرہ۔ مزید برآں، ہندوستان اپنے مختلف پروگراموں سے فائدہ اٹھانے والوں کو فوائد کی براہ راست بینک منتقلی کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان نے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کو حاصل کرنے کا عہد کیا ہے۔ ایم او ایچ ایف ڈبلیو  ایس ڈی جی سے متعلق صحت کے اہداف کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔ جاری کووڈ-19 وبائی امراض کی وجہ سے، ملک میں صحت کے نظام سے متعلق کئی نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔

اس تناظر میں، این ایف ایچ ایس-6 ، جو 2024-2023  کے دوران منعقد ہونے والا ہے، مختلف نئے میدان عمل کا احاطہ کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے، جن میں شامل ہیں:

‘‘ کووڈ-19  ہسپتال میں داخل ہونے اور پریشان حال لوگوں کی مالی اعانت، کووڈ-19  ویکسینیشن،  فوائد کی  راست منتقلی (ڈی بی ٹی) مختلف فلاحی اسکیموں کے تحت جو  جی او آئی  کی طرف سے شروع کی گئی ہیں، ہجرت، صحت کی خدمات کا استعمال - صحت اور فلاح و بہبود کا مرکز، ہیلتھ انشورنس/ ہیلتھ فنانسنگ، ڈیجیٹل خواندگی، مشاورت۔ اسقاط حمل کے بعد خاندانی منصوبہ بندی اور خاندانی منصوبہ بندی کے نئے طریقوں کے تحت مراعات، خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا معیار، ماہواری کی صفائی، ازدواجی انتخاب، صحت سے متعلق آگاہی اور ضروریات کے لیے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے دورے، ماں کا دودھ پلانے کے دوران آنگن واڑی/آئی سی ڈی ایس سینٹر سے اضافی غذائیت، خون کی منتقلی (مہینہ اور سال)، خواتین میں مالی شمولیت، خون کی کمی، ہیپاٹائٹس بی اینڈ سی،  آتشک وغیرہ کا علم۔

پچھلے راؤنڈز کے برعکس، ایم او ایس پی آئی، این ایف ایچ ایس-6 این ایس  او کے اربن فریم سروے(یو ایف ایس،2017-2012)  کو شہری علاقے کے نمونے لینے کے فریم کے طور پر اپنائے گا۔ یہ حکمت عملی نمونے نہ لینے کی غلطیوں کو کافی حد تک کم کر دے گی کیونکہ 2011 کی مردم شماری کے فریم کا استعمال کرتے ہوئے حدود کی نشاندہی کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ جبکہ دیہی علاقوں کے لیے، این ایس او کی طرف سے دیہات کی تازہ ترین فہرست کو ایک فریم کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جو معاون معلومات حاصل کرنے کے لیے مردم شماری کے پی سی اے سے مماثل ہوگا۔

چنتن شیویر کے موقع پر، صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت نے سال 2021-2020 (31 مارچ 2021 تک) کے لیے دیہی صحت کے اعدادوشمار کی اشاعت بھی جاری کی ہے۔ یہ تمام ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے صحت عامہ کے اداروں میں دستیاب صحت کے بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ صحت عامہ کی ترسیل کے نظام کے بہتر بندوبست کے لیے اضافی وسائل کی نشاندہی میں بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ڈیٹا کو بڑے پیمانے پر پالیسی کے منصوبہ سازوں ، محققین، این جی اوز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ذریعے فیصلہ سازی اور پالیسی  اقدامات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

2021-2020 آر ایچ ایس  کے مطابق، ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں بالترتیب 157819 ذیلی مراکز(ایس سی) ، 30579 پرائمری ہیلتھ سینٹرز (پی ایچ سیز) اور 5951 کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز (سی ایچ سیز) کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں کل 1224 سب ڈویژنل/سب ڈسٹرکٹ ہسپتال اور 764 ڈسٹرکٹ ہسپتال(ڈی ایچز) کام کر رہے ہیں۔

یہ اشاعت مخصوص اصولوں کی بنیاد پر ملک بھر میں کلیدی بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل کی ضرورت، خالی جگہ اور کمی کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتی ہے جو خامیوں کو ،  اگر کوئی ہو ،دور کرنے میں مدد کرتی ہے،

دیہی صحت کے اعدادوشمار کی اشاعت کی پیشرفت

صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت(ایم او ایچ ایف ڈبلیو) سال 1992 سے ہر سال دیہی صحت کے اعدادوشمار(آر ایچ ایس) کی اشاعت جاری کر رہی ہے، جس میں 31 مارچ کو ہندوستان کی صحت عامہ کی سہولیات میں دستیاب انسانی وسائل اور صحت کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق اہم اور قیمتی معلومات شامل ہیں۔

نئی ضرورت کی بنیاد پر اشاعت کے فارمیٹس کو وقتاً فوقتاً تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ سال 2019-2018 کے بعد سے، شہری صحت کے متعلق پروگراموں کے حوالے سے ڈیٹا کو بھی اشاعت میں شامل کیا گیا ہے۔

ملک میں صحت کے پروگراموں اور پالیسی کی منصوبہ بندی کے لیے، اس اشاعت کو مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسے پالیسی ساز، محققین، این جی اوز اور صحت عامہ کے شعبے میں کام کرنے والے مختلف ادارے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مختلف آر ٹی آئی اور پارلیمنٹ سے متعلق سوالات کے لیے معلومات کے اہم ذرائع کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔

سال 2014-2013 کے حوالے سے چند کلیدی پیمانے درج ذیل ہیں:

اشاریوں کے نام

سال 2014-2013(31 مارچ2014 کے مطابق)

سال 2021-2020(31 مارچ2021 کے مطابق)

2020-2021  کی اوسط نمو2014-2013 کے حوالے سے

ایس سیز کی تعداد

152326

157819

3.6

پی ایچ سیز کی تعداد

25020

30579

22.2

سی ایچ سیز کی تعداد

5363

5951

11.0

ایس ڈی ایچ کی تعداد

1024

1224

19.5

ڈی ایچ کی تعداد

755

764

1.2

  ایس سیز اور پی ایچ سیز میں  ایچ ڈبلیو

( ایف) / اے  این ایم

217780

235757

8.3

پی ایچ سیز میں ڈاکٹر

27335

38525

40.9

 سی ایچ سیز میں ماہرین کی مجموعی تعداد

4091

5760

40.8

سی ایچ سیز میں ریڈیو گرافرز

2189

2746

25.4

پی ایچ سیز اور سی ایچ سیز میں  دوا ساز

22689

33857

49.2

پی ایچ سیز اور سی ایچ سیز میں لیب ٹیک

16679

27733

66.3

پی ایچ سیز اور سی ایچ سیز میں نرسنگ اسٹاف

63938

94007

47.0

****************

(ش ح ۔س ب ۔رض )

U NO: 5085



(Release ID: 1823178) Visitor Counter : 290


Read this release in: English , Hindi