قانون اور انصاف کی وزارت
وزیر اعظم نے ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی مشترکہ کانفرنس کا افتتاح کیا
‘‘امرت کال میں ہمارا وژن ایک ایسے عدالتی نظام کا ہونا چاہیے جس میں آسان انصاف، فوری انصاف اور سبھی کے لیے انصاف ہو’’: وزیر اعظم
‘‘حکومت عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے امکانات کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا ایک لازمی حصہ سمجھتی ہے’’: وزیر اعظم
‘‘عدالتوں میں مقامی زبانوں کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ ملک کے لوگ خود کو عدالتی عمل سے جڑا ہوا محسوس کریں’’: وزیر اعظم
‘‘ملک کے تینوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تال میل کے ساتھ کام کرنے کے عمل نے گزشتہ سات دہائیوں میں اس عظیم ملک کی جمہوری بنیادوں کو محفوظ اور مضبوط کیا ہے’’: چیف جسٹس آف انڈیا
‘‘بھارت پوری دنیا میں مفت قانونی امداد کی بہترین خدمات فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے’’: چیف جسٹس آف انڈیا
‘‘کانفرنس اس حکومت کے رہنما اصولوں - سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے تئیں ہماری اجتماعی عہد بستگی کی عکاس ہے’’: جناب کرن رجیجو
عدلیہ کی توسیع کے ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی ترقی کے لیے مرکزی امداد یافتہ اسکیم
Posted On:
30 APR 2022 2:56PM by PIB Delhi
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی کے وگیان بھون میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی مشترکہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ بھارت کے چیف جسٹس جسٹس این وی رمنا، سپریم کورٹ کے جسٹس یو یو للت، مرکزی وزراء جناب کرن رجیجو اور پروفیسر ایس پی سنگھ بگھیل، سپریم کورٹ کے ججز، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے وزرائے اعلیٰ اور لیفٹیننٹ گورنرز اس موقع پر موجود تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہمارے ملک میں جہاں عدلیہ کا کردار آئین کے محافظ کا ہے، مقننہ شہریوں کی امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کی ان دو شاخوں کا یہ سنگم اور توازن ملک میں ایک موثر اور وقت کے پابند عدالتی نظام کے لیے روڈ میپ تیار کرے گا۔’’ انہوں نے کہا کہ آزادی کے 75 سالوں نے عدلیہ اور عاملہ دونوں کے کردار اور ذمہ داریوں کو مسلسل واضح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی ضروری ہے، یہ تعلق ملک کو سمت دینے کے لیے مسلسل تیار ہوا ہے۔ کانفرنس کو آئین کی خوبصورتی کا ایک جاندار مظہر قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ بہت عرصے سے کانفرنس میں آرہے ہیں، پہلے وزیراعلیٰ اور اب وزیراعظم کی حیثیت سے۔
کانفرنس کا لب و لہجہ طے کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کر لے گا تو پھر ہم ملک میں کیسا عدالتی نظام دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اپنے عدالتی نظام کو اس قابل کیسے بنا سکتے ہیں کہ وہ 2047 کے ہندوستان کی خواہشات کو پورا کر سکے، یہ سوالات آج ہماری ترجیح ہونے چاہئیں۔ ‘‘امرت کال میں ہمارا وژن ایک ایسے عدالتی نظام کا ہونا چاہیے جس میں آسان انصاف، فوری انصاف اور سب کے لیے انصاف ہو۔’’
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے اور عدالتی طاقت میں اضافے اور عدالتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیس مینجمنٹ کے لیے آئی سی ٹی کو تعینات کیا گیا ہے اور عدلیہ کی مختلف سطحوں پر اسامیوں کو پر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
وزیراعظم نے عدالتی کام کے تناظر میں گورننس میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے اپنے وژن کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے امکانات کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا ایک لازمی حصہ سمجھتی ہے۔ انہوں نے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں سے اس کو آگے بڑھانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ای کورٹس پروجیکٹ کو آج مشن موڈ میں نافذ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل لین دین کی کامیابی کی مثال دی کیونکہ یہ چھوٹے شہروں اور یہاں تک کہ دیہاتوں میں عام ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ پچھلے سال دنیا میں جتنے بھی ڈیجیٹل لین دین ہوئے ان میں سے 40 فیصد ڈیجیٹل لین دین ہندوستان میں ہوئے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے موضوع پر آگے بڑھتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج کل کئی ممالک کی لاء یونیورسٹیوں میں بلاک چینز، الیکٹرانک دریافت، سائبر سیکیورٹی، روبوٹکس، اے آئی اور بائیو ایتھکس جیسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمارے ملک میں بھی قانونی تعلیم ان بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہو۔
وزیر اعظم نے کہا کہ عدالتوں میں مقامی زبانوں کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ ملک کے لوگ عدالتی عمل سے جڑے ہوئے محسوس کریں اور اسی پر ان کا اعتماد بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے عوام کا عدالتی عمل کا حق مضبوط ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹیکنیکل تعلیم میں بھی مقامی زبانوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نے زور دیکر کہا کہ عدالتی اصلاحات محض پالیسی معاملات نہیں ہیں۔ انسانی حساسیتیں اس میں شامل ہیں اور انہیں تمام غور و فکر کے مرکز میں رکھنا چاہیے۔ آج ملک میں تقریباً 3.5 لاکھ ایسے قیدی ہیں جو زیر سماعت ہیں اور جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ غریب یا عام گھرانوں سے ہیں۔ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی ہوتی ہے، تاکہ ان مقدمات کا جائزہ لیا جا سکے۔جہاں تک ممکن ہو، ایسے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘میں تمام وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے اپیل کروں گا کہ وہ انسانی ہمدردی اور قانون کی بنیاد پر ان معاملات کو ترجیح دیں۔’’
وزیر اعظم نے کہا کہ ثالثی بھی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات بالخصوص مقامی سطح پر نمٹانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ثالثی کے ذریعے تنازعات کے حل کی ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہمی رضامندی اور باہمی شرکت، اپنے طریقے سے، انصاف کا ایک الگ انسانی تصور ہے۔ اس سوچ کے ساتھ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں ثالثی بل کو ایک جامع اور وسیع قانون سازی کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘اپنی بھرپور قانونی مہارت کے ساتھ ہم ثالثی کے ذریعے مقدمات کے حل کے میدان میں عالمی رہنما بن سکتے ہیں۔ ہم پوری دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کر سکتے ہیں۔’’
وزیراعظم کی تقریر کا لنک:
https://pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=1821534
وزرائے اعلیٰ اور چیف جسٹسز کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ یہ ہمارے لیے آپ کے بھرپور تجربے، علم اور دانشمندی سے سیکھنے کا موقع ہے جو آپ نے عوامی زندگی سے حاصل کیا ہے۔ آپ لوگوں کے ساتھ لائیو لنک ہیں۔ اپنے طریقے سے آپ میں سے ہر ایک عظیم رائے ساز ہے۔ آئین تینوں اعضاء کے درمیان اختیارات کی علیحدگی فراہم کرتا ہے - واضح طور پر ان کے دائرہ کار کا خاکہ، ان کے اختیارات اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے تینوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تال میل سے کام کرنا ہے جس نے گزشتہ سات دہائیوں میں اس عظیم ملک کی جمہوری بنیادوں کو محفوظ اور مضبوط کیا ہے۔
جناب جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ ‘‘یہ کانفرنس ہمارے لیے خود کا جائزہ لینے اور حل پر غور کرنے کا موقع ہے۔ میں‘‘انڈینائزیشن آف دی جسٹس ڈیلیوری سسٹم’’ کا مضبوط حامی رہا ہوں۔ انڈینائزیشن سے میرا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی آبادی کی ضروریات اور حساسیت کے مطابق نظام کو ڈھال کر عدلیہ تک رسائی کو بڑھانا ہے۔ یہ ایک کثیر جہتی تصور ہے۔ اس میں شمولیت، انصاف تک رسائی، زبان کی رکاوٹوں کو دور کرنے، عملی اور طریقہ کار میں اصلاحات، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، آسامیوں کو پُر کرنے، عدلیہ کی طاقت کو بڑھانے اور اسی طرح کے دیگر کاموں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔’’
‘‘بھارت میں ‘انصاف تک رسائی’ کا تصور صرف وکلاء کو عدالتوں میں نمائندگی فراہم کرنے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر ہے کہ بھارت پوری دنیا میں مفت قانونی امداد کی بہترین خدمات فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔’’
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے قانون اور انصاف کے مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو نے کہا کہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی اس مشترکہ کانفرنس کا مقصد اس ملک کے شہریوں کو بروقت، سستی اور معیاری انصاف فراہم کرنے کے طور طریقوں پر غور و خوض کرنا ہے۔ وزیر موصوف نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ اجتماع اس حکومت کے رہنما اصولوں - سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے تئیں ہماری اجتماعی عہد بستگی کا عکاس ہے۔ وزیر موصوف نے زور دے کر کہا کہ یہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان انصاف کی موثر فراہمی کے لیے ٹھوس حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور تعمیری بات چیت کا ایک منفرد موقع ہے۔
جناب رجیجو نے بتایا کہ عدلیہ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی ترقی کے لیے مرکزی اسپانسر شدہ اسکیم کو 2025-26 تک بڑھا دیا گیا ہے جس کے بجٹ میں 9000 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ اس میں 5,307 کروڑ روپے کا مرکزی حصہ بھی شامل ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ ای کورٹ مربوط مشن موڈ پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں 18,735 عدالتوں کو کمپیوٹرائز کیا گیا ہے تاکہ مقدمات کی ای فائلنگ اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کے ذریعے انصاف کے نظام کو عام آدمی تک رسائی میں رکھا جاسکے۔ سپریم کورٹ 2 لاکھ سے زیادہ مجازی سماعت کے ساتھ عالمی رہنما کے طور پر ابھری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس نے مل کر تقریباً 1.84 کروڑ ورچوئل سماعتیں کی ہیں۔
ای کورٹ پروجیکٹ کے تحت ایک اور اہم شراکت نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ (این جے ڈی جی) ہے جس کے ذریعے وکلاء اور مدعیان 20.23 کروڑ سے زیادہ مقدمات اور ان عدالتوں سے متعلق 17.22 کروڑ احکامات/فیصلوں کے کیس کی صورتحال کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ وزیر موصوف نے کہا کہ متعلقہ عدالتوں کے ذریعہ ڈیٹا کو حقیقی وقت کی بنیاد پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
ملک میں ای کورٹس پروجیکٹ کی ایک اور اہم کامیابی ورچوئل کورٹس کا قیام ہے۔ 13 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 17 مجازی عدالتیں کام کر رہی ہیں جو بنیادی طور پر چھوٹے ٹریفک جرائم سے نمٹتی ہیں۔ ان عدالتوں نے تقریباً 1.39 کروڑ مقدمات کا احاطہ کیا ہے اور آن لائن جرمانے کے طور پر 236.88 کروڑ روپے وصول کیے ہیں (1 اپریل 2022 تک)۔ وزیر موصوف نے مطلع کیا کہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ ساتھ کیسوں کا بغیر کاغذ کے فیصلے کیے جانے سے عدالتی افرادی قوت کی بچت ہوئی ہے اور شہریوں کی سہولت میں اضافہ ہوا ہے۔
تجارتی مقدمات کے تیزی سے حل کے لیے کمرشل کورٹس ایکٹ، 2015 منظور کیا گیا اور 2018 میں اس میں دوبارہ ترمیم کی گئی، جس کی وجہ سے دہلی، ممبئی، کولکاتا اور بنگلور میں پہلی بار ‘‘ڈیڈیکیٹڈ کمرشیل کورٹس’’ کا قیام عمل میں آیا۔ اس میٹنگ کے ایجنڈے کے حصے کے طور پر یہ تجویز ہے کہ 500 سے زیادہ تجارتی تنازعات زیر التوا ہونے کی صورت میں، ریاستی حکومتیں اس کے لیے 1 (ایک) وقف تجارتی عدالت قائم کرنے پر غور کر سکتی ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں 500 سے کم تجارتی تنازعات زیر التوا ہوں، تجارتی مقدمات کو موثر اور بروقت نمٹانے کے لیے نامزد کمرشیل عدالتوں کے قیام پر غور کیا جاسکتا ہے۔
جناب کرن رجیجو نے مطلع کیا کہ محکمہ انصاف ملک کے ہر ضلع میں تربیت یافتہ وکلاء کے ذریعہ ٹیلی لا خدمات کی توسیع میں سہولت فراہم کرنے کے لئے نالسا کے ساتھ ایک معاہدہ کر رہا ہے اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے درخواست کی کہ وہ ان لوگوں تک پہنچنے میں اپنا بھرپور تعاون فراہم کریں۔
https://t.co/MxyqcgVriG
************
ش ح۔م ع۔ع ن
(U: 4868)
(Release ID: 1821685)
Visitor Counter : 209