کامرس اور صنعت کی وزارتہ

ہندوستان  نے7برسوں کے دوران منظور کئے گئے پیٹنٹس کی تعداد میں پانچ گنا اور اندراج شدہ ٹریڈ مارکس کی تعداد میں  چارگنا اضافہ درج کرایا: انوراگ جین، سکریٹری ڈی پی آئی آئی ٹی


حکومت نے ملک کے آئی پی آر نظام کو مزید استحکام بخشنے کے لئے  طریقہ کار کو آسان بنانے والے بہت سے اقدامات کئے ہیں ، جناب  جین نے کہا

علم اور اختراع وژن2047کےبنیادی عناصر ہیں اوران کے بغیر کوئی بھی معیشت قائم نہیں رہ سکتی: جناب جین

آئی پی ماحولیاتی نظام اور نوجوانوں کے موضوع پر دن بھر چلنے و الی کانفرنس کا اہتمام  سی آئی پی اے ایم اور فکی کی طرف سے کیا گیا تھا

Posted On: 26 APR 2022 6:41PM by PIB Delhi

صنعت اور گھریلو تجارت کے فروغ کے محکمہ (ڈی پی آئی آئی ٹی ) کے سکریٹری  جناب انوراگ جین نے بتایا کہ سال 2016 میں حکومت کی طرف سے   دانشورانہ جائیداد پالیسی کے اختیار کئے جانے کے  بعد سے  7 برسوں کی مدت کے اندر منظورشدہ پیٹنٹس کی تعداد پانچ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جناب جین نے کہا کہ اسی مدت کے دوران اندرراج شدہ تجارتی مارکوں کی تعداد میں بھی چار گنا اضافہ درج کیا گیا ہے ۔وہ آج یہاں آئی پی کے عالمی دن کےموقع پر ڈی پی آئی آئی ٹی اور فکی کے ذریعہ منعقدہ  دن بھر چلنے والی ایک کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے، جس کا عنوان تھا’’ آئی پی کے ذریعہ ہندوستان کی تناسب آبادی میں برتری سے استفادہ ‘‘۔

جناب جین نے کہا کہ حکومت نے ملک کے آئی پی آر (دانشورانہ جائیدادکے حقوق ) کےنظام کومزید مضبوط کرنے کے لئے ٹریڈ مارکس اورپیٹنٹ کے فارموں کی تعداد میں کمی کرنے سمیت متعدد اقدامات کئے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹریڈ مارکس میں پہلے 74 فارم استعمال میں لائے جاتے تھےلیکن اب ان کی تعداد گھٹا کر صرف 8 تک محدود کردی گئی ہے۔ اسی طرح  پیٹنٹس کے معاملے میں بھی تمام فارمس کو ختم کردیا گیا ہے  اورا ب صرف ایک ہی فارم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ 

جناب  جین  نےکہا کہ اب جبکہ بہت سے سرکاری محکمے امرت کال کے دوران اگلے 25 برسوں کے لئے وژن 2047 کو سامنے لا رہے ہیں،  ان سب کے پس پشت تحریک دینے والی طاقت صرف علم اور اختراع کی طاقت ہو گی۔

جناب جین نے یہ بھی کہا کہ ’’ صرف وہی صنعتیں باقی رہ پائیں گی جوعلم اور اختراعات میں سرمایہ کاری کریں گی  اور علم اور اختراع کی بقا کے لئے دانشورانہ جائیداد بےانتہا اہم وسیلہ قرار پاتی ہے۔اس کے علاوہ اس سلسلے کا دوسرا اہم ترین پہلو بھی ہے جس کا نام ’اسٹارٹ  اپس ‘ ہے‘‘۔

جناب جین نے بتایاکہ سال 2016 میں اسٹارٹ اپ کی پہل کاآغاز کئے جانےکے بعد سے ، صرف 6 سال کی مختصر مدت میں  ہم نے تیسرے سب سے بڑے اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام  کی حیثیت حاصل کرلی ہے ۔ گزشتہ سال قائم کئے جانے والے یونیکارنس کی تعداد کے معاملے میں  ہم نے چین کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آگئے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہمارےملک میں آج روزانہ 80 اسٹارٹ اپس کورجسٹر کیا جارہا ہے  اوریہ شرح اندراج دنیا میں سب سے زیادہ ہے‘‘۔

جناب جین نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نوجوان افراد کے ذہنوں میں دانشورانہ جائیداد کےبیج بو دیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وزارت کے ذریعہ منعقدکئےگئے آئی پی کے بارےمیں آگاہی سے متعلق تقریبا400 پروگراموں میں اندازاً4300اداروں نے حصہ لیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کو این سی ای آر ٹی کے کورس میں شامل کرا  دیا گیا ہے ، اس کے علاوہ کالجوں کے ساتھ بھی بڑے پیمانے پر رابطہ کیا جارہا ہے ۔جناب جین نے بتایا کہ ہم نےدانشورانہ  جائیداد کے حقوق سے متعلق تقریبا 18 مراکز قائم کئے ہیں اوربہت سے کالجوںاور یونیورسٹیوں میں تقریبا 135 آئی پی  آر سیلس بھی تیار کئے گئے ہیں ۔

’’ہندوستان  کے نوجوانوں کو آئی پی سےباخبربنانا‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک پینل ڈسکشن کے دوران محترمہ شروتی سنگھ، جوائنٹ سکریٹری ڈی پی آئی آئی ٹی نے اس بات پر روشنی ڈالی  کہ ہندوستان کی آبادی کابڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے  اوران کی صلاحیت کو   بھرپور طور پر سامنے لانے کے لئے حکومت کی طرف سے  اختراع کاروں اور تخلیق کاروں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ میں تعاون فراہم کرتے ہوئے ، بہت سی انقلابی اسکیموں پر عملدر  آمد کیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت نے ہمیشہ  اختراع پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور نوجوانوں کی ہمیشہ ہرشعبےمیں ہمت افزائی ہے  جس میں ٹکنالوجی اورتخلیقی صنعت شامل ہیں ۔ اس کا مقصدہندوستان کوایک اختراعی مرکز  بنانےکےلئے مستحکم بنیاد رکھنااور اقداری تخلیق  اور ترقی کے اگلے  دور کو تحریک دینےکےلئے  آئی پی سے استفادہ کرنا ہے۔

’’ آئی پی تجارت کاری – نظریات کی اثاثہ جات میں منتقلی ‘‘ کے عنوان پر ایک دوسرے پینل مباحثہ کے دوران ڈاکٹر جتیندر کور اروڑہ نے کہا کہ  آئی پی کی تجارت کاری  ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے  کیو ں کہ ریاست اور صنعتی برادری کی ترجیحات میں عدم مماثلت   پایا جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں  صنعتی دنیا کی ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتی اور پھر اسکاحل تلاش کیا جاتاہے ۔ مباحثہ میں  اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ آئی پی  پر منحصر ماحولیاتی نظام  کو، صنعتی برادری  اور تعلیمی برادری کے درمیان آگاہی اور تخلیقی تعاون کے ذریعہ ہی مزید مضبوط کیا جاسکتاہے ۔

کانفرنس میں ’’ تخلیقی معیشت کی طاقت کے ا ظہار‘‘ کے پہلو پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ، کیوں کہ تخلیقی شعبہ  عوامی میڈیا اورثقافت کےساتھ بہت مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اورنوجوانوں کی صنعت کار ی کے لئے بہت سے مواقع پیدا کرتاہے۔جناب کرن تھاپر،ڈپٹی سکریٹری  ڈی پی آئی آئی ٹی نے اس بات پر توجہ دلائی کہ تخلیق پر منحصرصنعتوں  میں مواد کو سمجھنےاور تجارتی بنانے کے طریقے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے  تاکہ اقتصادی پیداوار کو  بڑھایا جاسکے اور ایک ایسی مخصوص صنعت کی تشکیل کی جاسکے جوملک کی  جی ڈی پی میں اضافہ کرے اور عالمی مارکیٹ سے استفادہ کرسکے ۔

تقریب کے دوران، ڈی پی آئی آئی ٹی کے ذریعہ منعقدہ فوٹو گرافی مقابلےکے  فاتحین کابھی اعلان کیا گیا ۔ فوٹو گرافی مقابلہ ’’بھارت کی اتلیہ دھروہر‘‘ کے موضوع پر منعقد کیا گیا تھا ، جس کا مقصدعوام الناس میں  تخلیقیت کو   فروغ دینا اور دلچسپی اورآگاہی پیدا کرنا، اس کے ساتھ ساتھ اپنےملک کے حیرت انگیز خزانوں کو پیش کرناہے۔اس مقابلے میں ملک بھر سے فوٹوگرافی کے  شوقین بہت  سے لوگوں نےاپنا اندرا ج کرایا تھا ۔

سال کے موضوع ورلڈا نٹلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (ڈبلیو آئی پی او) نے اپنےماحولیاتی نظام میں اختراع اور تخلیقیت کے کلچرکو راسخ کرنےکےلئے ہندوستان کے وژن کو مزید تقویت بخشی ہے۔ان تمام اقدامات سے ہمارے طاقتورنعرے ’تخلیقی ہندوستان، اختراعی ہندوستان‘ کو تقویت ملتی ہے ۔

********

ش ح۔س ب، ف ر

UNO- 4727



(Release ID: 1820421) Visitor Counter : 94


Read this release in: English , Hindi