جل شکتی وزارت

آبی معاہدہ/ سمجھوتہ

Posted On: 21 MAR 2022 7:53PM by PIB Delhi

جل شکتی کے وزیر مملکت جناب بشویسور ٹوڈو نے لوک سبھا میں آج ایک تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت ہند نے  آبی وسائل کے میدان میں باہمی فائدوں کے خاطر ماضی میں ہمارے پڑوسی ملکوں کے ساتھ آبی معاہدوں / سمجھوتوں پر دستخط کئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ انڈس  آبی معاہدے پر 1960 میں دستخط کئے گئے تھے ۔ جس کا تعلق دریائے سندھ کے پانی کے استعمال سے تھا۔ اس معاہدے  میں دریائے سندھ  کا طاس بھی شامل ہے جو ستلج، بیاس، راوی (مشرقی دریا) اور جہلم، چناب اور سندھ (مغربی دریا) جس میں ان کی معاون ندیاں اور دیگر آبی ذخائر بھی شامل ہیں۔ مشرقی دریاؤں  کا پانی  بھارت کو بغیر کسی پابندی کے استعمال کے لئے دیاگیا ہے جبکہ بھارت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ  گھریلو  مقصد کو چھوڑ کر مغربی دریاوں  کے سارے  پانی  کا بہاؤ جاری رہنے دے۔

1996 میں نیپال کے ساتھ  مہاکالی نام کا ایک سمجھوتہ کیا گیا تھا۔جس کا تعلق مہاکالی دریا کی مربوط ترقی سے تھا۔ (بھارت میں ساردا دریا کے نام سے جانا جاتا ہے) اس میں ساردا بیرج ، ٹنک پور بیرج اور پنچویشور پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کوسی معاہدہ 1954 (جس میں دسمبر 1966 میں ترمیم کی گئی) اور گنڈک معاہدہ1959 ( جس میں اپریل 1964 میں  ترمیم کی گئی ۔ ان معاہدوں پر کوسی پروجیکٹ اور گنڈک پروجیکٹ پر بالترتیب تعمیر کے لئے نیپال کے ساتھ دستخط کئے گئے تھے۔

گنگا  اور گنگا کے پانی کی شراکت سے متعلق معاہدے پر 1996  میں بنگلہ دیش کے ساتھ دستخط کئے گئے تھے۔ گنگا کے اس پانی کا تعلق فرکا سے ہے۔ معاہدے کی رو سے فرکا کا پانی مشترک طور پر استعمال کیا جارہا ہے ( جو بھارت میں دریائے گنگا پر آخری کنٹرول ڈھانچہ ہے ) ۔

پڑوسی ملکوں کے ساتھ آنے والے دنوں میں  اس طرح کی کسی آبی سمجھوتے یا معاہدے سے متعلق کوئی زیرالتوا نہیں ہے۔

 

*************

 

ش ح ۔ ا س ۔ م ص

U. No.2990



(Release ID: 1808137) Visitor Counter : 215


Read this release in: English