وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
azadi ka amrit mahotsav

آوارہ جانوروں کی صورتحال

Posted On: 15 MAR 2022 5:57PM by PIB Delhi

یہ جانکاری ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کے وزیر جناب  پرشوتم روپالا نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب دی کہ مویشیوں کی آبادی سے متعلق قومی سطح کی معلومات ہر 5 سال بعد جمع کی جاتی ہیں۔ مویشیوں کی آخری  اعداد شماری 2019 میں کی گئی تھی اور اگلی اعداد  شماری 2024 میں ہونی ہے۔ 2019 کی اعدادشماری کے مطابق ملک میں آوارہ کتوں اور آوارہ مویشیوں کی کل آبادی 203.31 لاکھ تھی۔

صحت عامہ، صفائی ستھرائی اور مویشیوں کے باڑے کا انتظام ریاست / مرکز کے زیر انتظام حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے اور  بلدیاتی اداروں کو شہریوں کی حفاظت کے لیے آوارہ جانوروں پر قابو پانے کے لئے طریقہ کار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ساتویں شیڈول کی فہرست II میں آئین ہند کے آرٹیکل246 (3) کے مطابق جانوروں کا تحفظ،  اور ان کی بہتر دیکھ بھال ، جانوروں کی بیماریوں کی روک تھام، مویشیوں کے علاج ومعالجے کی تربیت، ریاست کی فہرست کے تحت آتے  ہے جس پر ریاست کو ایسی ریاست یا اس کے کسی حصے کے لیے ساتویں شیڈول میں فہرست II میں درج کسی بھی معاملے کے حوالے سے قانون بنانے کا خصوصی اختیار ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 48 کے مطابق، ریاست زراعت اور مویشی پروری کو جدید اور سائنسی خطوط پر منظم کرنے کی کوشش کرے گی اور خاص طور پر نسلوں کے تحفظ اور بہتری کے لیے اقدامات کرے گی، اور گائے بچھڑے اور دوسرے دودھ  دینے والے اور بوجھ ڈھونے والے مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرے گی۔

ہندوستان کے آئین کے گیارہویں شیڈول کے مطابق، ریاست پنچایت کو کیٹل پاؤنڈز (کانجی ہاؤسز)/گوشالہ شیلٹرز (کمیونٹی اثاثے) قائم کرنے اور چلانے کے لیے وقف کر سکتی ہے۔ کئی ریاستیں آوارہ مویشیوں پر قابو پانے کے لیے گئوشالائیں  اور شیلٹر ہاؤسز قائم کر رہی ہیں۔

مزید برآں،  جانوروں  پر ظلم وستم  کی روک تھام ایکٹ، 1960 کے سیکشن 3 کے مطابق، کسی بھی جانور کی دیکھ بھال کرنے والے یا ذمہ دار ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ایسے جانوروں کی صحت کو یقینی بنانے اور غیر ضروری تکلیف کو روکنے کے لیے تمام معقول اقدامات کرے۔ اور جانوروں کے ساتھ بے رحمی کے انسداد کے قانون ، 1960 کی دفعہ 11(1) (ایچ) واضح کرتا ہے کہ یہ ایک ظلم ہے، اگر کوئی شخص، (کسی جانور) کا مالک ہونے کے ناطے ایسے جانور کو مناسب خوراک، پینے یا رہائش فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے تو دفعہ 11(1) (i) کے مطابق یہ ایک ظلم ہے، اگر کوئی شخص بغیر کسی معقول وجہ کے، کسی جانور کو ایسے حالات میں چھوڑ دیتا ہے جس سے اس کو خدشہ ہو کہ اسے بھوک، پیاس کی وجہ سے تکلیف پہنچے گی تو یہ پی سی اے ایکٹ، 1960 کے تحت قابل سزا جرم بھی ہے۔ جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے ایکٹ، 1960 کی دفعات اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کو ریاستی حکومتوں کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔

مذکورہ آئینی انتظامات کے پیش نظر، ریاستوں کو آوارہ جانوروں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے پناہ گاہوں اور کانجی ہاؤس کا انتظام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید برآں، مرکزی حکومت نے کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے جانوروں کی پیدائش پر کنٹرول (کتے) کے لیے قواعد وضع کیے ہیں۔ یہ بلدیاتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے متعلقہ علاقوں میں اے بی سی پروگرام کو قواعد کی دفعات کے مطابق نافذ کریں۔

ریاست / مرکز کے لحاظ سے 2020-2018 کے دوران جانوروں کے ذریعہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کو ضمیمہ-I میں دکھایا گیا ہے۔

گزشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں راشٹریہ گوکل مشن کے تحت کوئی گوشالا قائم نہیں کی گئی ہے۔ تاہم، اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا(اے ڈبلیو بی آئی) تسلیم شدہ گئوشالاؤںاے ڈبلیو اوز/ این جی اوز/ ایس پی سی ایز اور  بلدیاتی اداروں کو شیلٹر ہاؤس نامی اسکیم کے تحت نئے جانوروں کے شیلٹر ہاؤس کے قیام اور جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ گرانٹ اسکیم کے تحت مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس اسکیم میں  پناہ گاہیں، جانوروں کی ادویات، طبی آلات کی خریداری اور ویٹرنری کیمپ وغیرہ کا انعقاد اور غیر قانونی نقل و حمل/ذبح خانوں سے بچائے گئے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے بچائے گئے مویشیوں کی دیکھ بھال کی گرانٹ۔ اس کے علاوہ، مصیبت زدہ  جانوروں کے لیے ایمبولینس خدمات کی فراہمی کی اسکیم کے تحت نقل و حمل، بچاؤ کے لیے موزوں گاڑیوں کی خریداری اور مصیبت میں پڑے جانوروں کو ہنگامی خدمات فراہم کرنے کے لیے مالی مدد فراہم کرنا  شامل ہے۔

نمبرشمار

ریاست/ مرکز کے زیر انتظام

2018

2019

2020

1

آندھرا پردیش

31

25

32

2

اروناچل پردیش

2

1

1

3

آسام

77

90

100

4

بہارت

10

15

11

5

چھتیس گڑھ

91

109

95

6

گوا

3

0

1

7

گجرات

42

61

55

8

ہریانہ

25

35

23

9

ہماچل پردیش

9

33

9

10

جھار کھنڈ

57

41

41

11

کرناٹک

53

61

59

12

کیرالہ

24

30

32

13

مدھیہ پردیش

78

102

103

14

مہاراشٹر

150

180

163

15

منی پور

0

0

0

16

میگھالیہ

1

2

1

17

میزورم

1

0

0

18

ناگا لینڈ

0

0

0

19

اوڈیشہ

79

112

94

20

پنجاب

16

34

42

21

راجستھان

75

136

65

22

سکم

0

1

0

23

تملناڈو

60

80

112

24

تلنگانہ

15

12

24

25

تریپورہ

0

3

1

26

اترپردیش

138

169

162

27

اترا کھنڈ

24

13

22

28

مغربی بنگال

67

77

55

 

تمام ریاستیں

1128

1422

1303

29

انڈ مان ونکوبائر جزائر

0

0

1

30

چنڈی گڑھ

0

0

0

31

دادر و نگر حویلی اور دمن اور دیو@+

0

0

0

32

دہلی یو ٹی

2

3

0

33

جموں وکشمیر@*

0

0

1

34

@ لداخ

-

-

0

35

لکشدیپ

0

0

0

36

پدوچیری

0

0

0

 

کل مرکز کے زیر انتظام علاقے

2

3

2

 

میزان( کل ہند)

1130

1425

1305

 

****************

(ش ح ۔س ب۔رض )

U NO: 2705


(Release ID: 1806452) Visitor Counter : 446


Read this release in: English