سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

سائنس دانوں نے مقناطیسی ستاروں سے  نکلنے والی  ہائی انرجی لہروں کو  سمجھنے کے لئے پہلا سراغ لگایا ،جو سورج کی لہروں سے  کئی ہزار گنا ہے

Posted On: 23 DEC 2021 1:36PM by PIB Delhi

سائنس دانوں نے تیرہ ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع میگنیٹر نامی نایاب زمرے کے ایک کمپیکٹ ستارے سے شدید مختصر دورانیے کے شعلوں کو سمجھنے کے لیے پہلا سراغ ملا ہے۔ سب سے زیادہ شدید مقناطیسی صلاحیت کے حامل یہ کمپیکٹ ستارے، جن میں سے اب تک ہماری کہکشاں میں صرف تیس ہی دیکھے گئے ہیں، شدید دھماکے کا شکار ہوتے ہیں جن کے بارے میں ان کی غیر متوقع نوعیت اور اپنی مختصر مدت کی وجہ سے ابھی تک بہت کم معلومات ہیں۔ سائنس دان طویل عرصے سے اس طرح کے مختصر اور شدت کے ساتھ ہونے والے دھماکوں سے حیرت زدہ ہیں۔توانائیوں کی عارضی ایکس رے  لہریں سورج سے کئی گنا زیادہ اور لمبائی چند ملی سیکنڈ کے ایک حصے سے لے کر چند مائیکرو سیکنڈ تک ہوتی ہے۔

جب 10 سے 25 کے درمیان شمسی کمیت والے بڑے ستارے ٹوٹ جاتے ہیں تو ان سے نیوٹران ستارے وجود میں آ سکتے ہیں۔ نیوٹران ستاروں کے درمیان، سب سے زیادہ شدید مقناطیسی  وسعت   کا حامل ایک چھوٹا گروپ  الگ دکھائی دیتا ہے: جنہیں میگنیٹارس کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ اشیاء، جن میں سے ابھی تک صرف تیس معلوم ہیں، شدید دھماکے کا شکار ہوتی رہتی  ہیں جو کہ اپنی غیر متوقع نوعیت اور ایک سیکنڈ کے بمشکل دسویں حصے کی مختصر مدت کی وجہ سے ابھی تک بہت کم معلوم ہیں۔

پروفیسر البرٹو جے کاسٹرو-ٹیراڈو کی سربراہی میں ایک سائنسی گروپ نے اندلس کے انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس (آئی  اے اے- سی ایس آئی سی)  ان ستاروں کا پھٹنے کا تفصیل سے مطالعہ کیا: اعلیٰ ترین توانائی کے لمحات کے دوران مختلف  حرکات ، یا لہروں کی پیمائش کرنے کا انتظام کرنا،   جو عظیم  مقناطیسی شعلوں کو سمجھنے میں ایک اہم وسیلہ ہیں ۔ آریہ بھٹہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آبزرویشنل سائنسز (اے آر آئی ای ایس)،  جو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ کا ایک انسٹی ٹیوٹ ہے،سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ششی بھوشن پانڈےنے اس تحقیق میں پروفیسر البرٹو کاسترو ٹیراڈو اور گروپ کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر کام کیا جو نیچر نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ یہ پہلا  ماورائے کہکشاں مقناطیس ہے جس کا تفصیل سے مطالعہ کیا گیا ہے۔

آئی اے اے- سی ایس آئی سی اور  صف اول کے مصنف  البرٹو  جے کاسٹرو ٹائیریڈو  نے کہا  کہ ‘‘یہاں تک کہ ایک غیر فعال حالت میں بھی، مقناطیسی ستارے ہمارے سورج سے کئی ہزار گنا زیادہ روشن ہو سکتے ہیں۔ لیکن فلیش کے معاملے میں ہم نے مطالعہ کیا ہے کہ  2001415جی آر بی، جو کہ 15 اپریل 2020 کو  سامنے آیا اور ایک سیکنڈ کے صرف دسویں حصے تک ہی رہا۔ لیکن  اتنی مختصر مدت میں  جو توانائی اس سے جاری کی گئی وہ اس توانائی کے مساوی ہے جو ہمارا سورج ایک لاکھ (100,000)  برس میں چھوڑتا ہے۔ مشاہدات نے متعدد  لہروں کا انکشاف کیا، جس میں پہلی لہر صرف دسیوں مائیکرو سیکنڈز کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے، جو کہ دیگر انتہائی فلکی اجسام کی عارضی لہروں سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے،’’۔

کاسٹرو-ٹیراڈو  نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ  یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مقناطیسی ستاروں میں ، پھٹنے کی وجہ ان کے مقناطیسی کرہ میں عدم استحکام یا ان کی پرت میں پیدا ہونے والے ایک قسم کے ‘‘زلزلے’’ (‘‘ستارہ زلزلے’’) ہو سکتے ہیں، جو تقریباً ایک کلومیٹر  پر محیط ایک سخت اور لچکدار تہہ ہے۔ ‘‘ اصل سبب سے قطع نظر ،ستارے کے مقناطیسی کرہ میں ایک قسم کی لہریں پیدا ہوں گی۔ یہ لہریں جن کا  سورج میں موجود ہونا  اچھی طرح معلوم ہے، انہیں الفوین لہریں کہا جاتا ہے اور مقناطیسی میدان کی اپنی لکیروں کی بنیاد پر پوائنٹس کے درمیان آگے پیچھے باؤنس کھاتے ہوئے، یہ ایک دوسرے سے پھیلنے والی توانائی کے ساتھ تعامل کرتے ہیں’’، ۔

پھٹنے میں پائے جانے والا لہروں کے ادھر ادھر ڈولنے کا عمل ، الفوین  لہروں کے درمیان تعامل سے پیدا ہونے والے اخراج سے مطابقت رکھتا ہیں، جن کی توانائی کو اوپری پرت کے ذریعے تیزی سے جذب کیا جاتا ہے۔ اس طرح، چند ملی سیکنڈ میں مقناطیسی ستاروں کے دوبارہ جڑنے کا عمل ختم ہو گیا اور اسی کے ساتھ،  جی آر بی 200415 میں  پائی جانے والی  لہریں بھی، جو  خاص دھماکے کے  3.5 ملی سیکنڈ بعد غائب ہو گئیں۔ مظاہر کے تجزیے سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہوا ہے کہ بھڑک اٹھنے کا حجم نیوٹران ستارے کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھا۔

اس دھماکہ  کا پتہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود ایٹموسفیئر-اسپیس انٹریکشن مانیٹر(اے ایس آئی ایم) کے آلے سے لگایا گیا۔ سائنسی ٹیم ایک سال سے زیادہ عرصے تک ڈیٹا کے منٹ سکیل کا تجزیہ کرکے ایونٹ کے عارضی ڈھانچے کو حل کرنے میں کامیاب رہی۔ دوسرے مصنف، یونیورسٹی آف برگن ناروے سے تعلق رکھنے والے نکولائی اوسٹگارڈ نے کہا ‘‘اگرچہ اس واقعے کے بارے میں متعدد مقالے شائع کیے گئے ہیں، کیونکہ اے ایس آئی ایم واحد مشن تھا جس نے بغیر بہت زیادہ عرق ریزی کے فوٹون کی توانائی کی پوری رینج میں بنیادی دھماکے مرحلے کا پتہ لگایا تھا، لیکن یہ اے ایس آئی ایم کے آلے کو مقناطیس کے ارد گرد کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے ایک منفرد پوزیشن میں رکھتا ہے ۔

آئی اے اے- سی ایس  آئی سی  کے محقق  جیویر پیسکال، جنہوں نے اس تحقیقی مطالعے میں حصہ لیا،  اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ‘‘جی آر بی 200415 میں  ادھر ادھر حرکت کا پتہ لگانا سگنل کے اختصار کی وجہ سے ایک چیلنج رہا ہے، جس کا طول و عرض تیزی سے زوال پذیر ہوتا ہے اور پس منظر کے شور میں سرایت کر جاتا ہے۔ اس بنا پر  جدید ترین  ڈیٹا کے تجزیہ کی تکنیکوں کے احسان مند ہے جس کو ہمارے ٹیم کے ارکان نے انفرادی طور پر آزادانہ طریقے سے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ بلاشبہ ٹیکنالوجی کے  میدان میں  ایک زبردست کامیابی ہے۔جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اے ایس آئی ایم آلے کے ذریعہ فراہم کردہ ڈیٹا  کے بہترین معیار کی وجہ سے  ممکن ہوسکی ہے۔

مائیکل گیبلر (یونیورسٹی آف ویلنسیا، سپین) کا کہنا ہے کہ ‘‘ان مقناطیسی ستاروں کی ادھر ادھر حرکت کو سمجھنا ان پراسرار اشیاء کی ساخت پر روشنی ڈال سکتا ہے۔’’

ان شعلوں کا پتہ ہماری کہکشاں، میں موجود تیس معلوم مقناطیسی ستاروں  میں سے دو میں پایا گیا تھا، بلکہ دوسری کہکشاؤں میں واقع دو دیگر میں بھی ان کا پتہ لگایا گیا تھا۔جی آر بی 2001415 آج تک معلوم کیا جانے والا سب سے دور مقناطیسی ستارے کا دھماکہ ہوگا ، جو کہ کہکشاؤں کے مجسمہ ساز گروپ (این جی سی 253) میں تیرہ ملین نوری سال کے فاصلے پر پایا جاتا ہے۔

کاسٹرو-ٹیراڈو نے نتیجہ اخذ کیا  کہ ‘‘مقناطیسی ستاروں سے دیوہیکل شعلوں کا پتہ لگانا شاذو نادر ہی ممکن ہوتا ہے ۔ اس دھماکے نے یہ سمجھنے میں ایک اہم جزو فراہم کیا ہے کہ نیوٹران ستارے میں اور اس کے ارد گرد مقناطیسی دباؤ کیسے پیدا ہوتا ہے،’’۔ ڈاکٹر ششی بھوشن پانڈے، اس مضمون کے شریک مصنفوں میں سے ایک، نے کہا کہ ‘‘قریبی کہکشاؤں میں مقناطیسی ستاروں کی مسلسل نگرانی اس رجحان کو سمجھنے میں مدد کرے گی، اور تیز رفتار ریڈیو برسٹ کے بارے میں مزید جاننے کی راہ بھی ہموار کرے گی’’ ۔

حوالہ جات:

ڈاکٹر ششی بھوشن پانڈے، سائنسدان- ایف

اے آر آئی ای ایس، نینی تال

shashi@aries.res.in، فون: 09557470888

 جے ،کاسٹرو- ٹائیریڈو مختصر طور پر‘‘مقناطیس دیوہیکل مقناطیسی ستارے شعلے کی انتہائی بلندی میں بہت اعلی درجے کی  حرکات کا تعدد’’ فطرت، دسمبر 2021۔

 

 

(Extraordinary shakings of a distant magnetar, . Illustration: Birkeland Centre for Space Science, University of Bergen and Mount Visual.)

****************

 

(ش ح۔س ب۔ رض)

U NO:14718


(Release ID: 1784573) Visitor Counter : 267


Read this release in: English , Hindi