وزارت اطلاعات ونشریات
52 ویں آئی ایف ایف آئی میں انڈین پینورماغیر فیچر فلم "بھارت، پراکرتی کا بالک" ہمارے ملک، ہندوستان کی اصل اور روح کو تلاش کرتی ہے
ہماری فلم ہمیں وراثت میں ملنے والے شاندار اقدار اور روایات کو کھاتی ہے اوراس کے بارے میں دنیا کو بتاتی ہے : ہدایت کار ڈاکٹر دیپیکا کوٹھاری
ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی سکھانا چاہیے کہ ہمارے ملک کا نام بھارت کیسے اور کیوں رکھا گیا: ہدایت کا رام جی اوم
"ہندوستان کا علمی نظام اور ہندوستانی فلسفہ جدید سائنس کی بہ نسبت زیادہ سمجھدار ہے"
"دستاویزی فلموں کا انحصار تفصیلی اور مکمل تحقیق پر ہوتا ہے"
نئی دہلی۔ 27 نومبر ہمارے ملک، بھارت کی روح کیا ہے؟ اس خیال کا کیا مطلب ہے؟ یہ کیسے وجود میں آیا؟ اس کی ثقافت، روایات اور جغرافیہ کیا ہے؟ "بھارت، پراکرتی کا بالک"، ایک ہندی دستاویزی فلم ہے جس کے ہدایت کارمشترکہ طور پر ڈاکٹر دیپیکا کوٹھاری اور شری رام جی اوم ہیں۔ انہوں نے سنیما سے محبت کرنے والوں کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شناخت سے متعلق بنیادی سوالوں کو تلاش کرنے کی طرف راغب کیا۔ اس فلم کوہندوستان کے 52 ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے انڈین پینورماغیر فیچر فلم سیکشن میں دکھایا گیا ہے، جو گوا میں 20 سے 28 نومبر 2021 کے دوران ہائبرڈ فارمیٹ میں منعقد ہو رہا ہے۔
یہ فلم ہندوستانی تہذیب پر دس قسطوں پر مشتمل دستاویزی سیریز کی تیسری کڑی ہے۔گزشتہ روز، 26 نومبر 2021 کو فلم فیسٹیول کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے،دستاویز فلم بنانے کی ترغیب دینے والی ڈاکٹر دیپیکا کوٹھاری نے کہا کہ یہ فلم ہمارے ملک، بھارت کی روح سے خطاب کرتی ہے۔انہوں نے کہا "بھارت صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ہے جسے ہم نے 1947 میں آزادی کے بعد حاصل کیا ہے۔ ہم نے اپنی دستاویزی سیریز میں اپنی تمام ثقافتی روایات، فلسفیانہ عقائد اور قدیم علوم کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔"
ڈاکٹر کوٹھاری نے کہا کہ دستاویزی فلم جغرافیہ، تاریخ، قدیم گرنتھوں اور دانشوروں کےتحریری شواہد پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا "اس طرح کے بہت سارے شواہد موجود ہیں، جو عموماً تعلیمی نصابی کتب میں شامل نہیں ہوتےہیں اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔"
دیش اپانین سہیوگ فاؤنڈیشن کے ذریعہ بنائی گئی اس دستاویزی فلم کے بارے میں ڈاکٹر کوٹھاری نے بتایا کہ اس دستاویزی فلم میں ہمارے ملک کے تہواروں سے لے کر ہندوستان کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے قبائل کی ثقافت تک ہر چیز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نےکہا "فلم موسیقی، رقص اور یقینی طور پر علم کے ساتھ فن کو اس سنیما ئی ٹکڑے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت علمی اور دانشورانہ ہے، لیکن یہ فلم دنیا کو ان شاندار اقدارکے بارے میں بھی بتائے گی جو ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔"
معاون ہدایت کار رام جی اوم نے سامعین کے ساتھ اس دستاویزی فلم کی تحریک کا اشتراک کیا جس کی وجہ سے دونوں نے فلم بنائی۔ رام جی اوم نے کہا "اپنی دستاویزی فلم کے ذریعہ، ہم نے اپنے تعلیمی نظام کے چھوڑے ہوئے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے 2005 میں اس دستاویزی فلم کو بنانے کا سوچا تھا ، کیونکہ تعلیم ایک قوم کی تعمیر میں سب سے اہم عنصر ہے۔ اس دستاویزی فلم میں ہندوستان کے ثقافتی ورثے کا خزانہ دکھایا گیا ہے۔
اوم نے بہت کم عمری سے ہی ہماری قوم کی تاریخ کی جڑوں میں مضبوط بنیاد رکھنے والے بچوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت پر بات کی۔ انہوں نے کہا "بھارت لفظ ہندوستان کے آئین کے پہلے آرٹیکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، ہم ہندوستانی فطرت کے لحاظ سے بہت ملنسار ہیں، اس لیے ہم نے غیر ملکی حکمرانوں کے ذریعہ دیے گئے ناموں کو انڈیا یا ہندوستان کے طور پر قبول کیا ہے۔ ساتھ ہی، ہمارے ملک کا نام بھارت رکھنے کےبارے میں ، ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی سکھانا چاہیے کہ ہمارے ملک کا نام بھارت کیسے اور کیوں رکھا گیا۔"
ڈاکٹر کوٹھاری نے کہا کہ کسی بھی دستاویزی فلم کا تحقیقی حصہ سب سے مشکل حصہ ہوتا ہے۔ "اس دستاویزی سیریز کے لیے، ہم نے پوری دنیا کا سفر کیا۔ ہم نے ہندوستان اور بیرون ملک 194 آثار قدیمہ کے مقامات کا سفر کیا۔ ہم نے دنیا بھر سے بہت ساری دستاویزات اکٹھی کیں، ہمیں بہترین آثار، مجسمے اور مخطوطات ملے۔ اس کا ایک حصہ یہاں دکھایا جا رہا ہے۔ باقی سلسلے دیگر قسطوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان میں سے زیادہ تر اب ہندوستان میں نہیں ہیں۔ وہ ہندوستان سے باہر ہیں - دوسرے ممالک کے عجائب گھروں اور نجی ذخیروں میں۔
رام جی اوم، جنہوں نے دستاویزی فلم کا اسکرین پلے بھی لکھا، اس بات سے اتفاق کیا کہ دستاویزی فلموں کو بھی ایک مضبوط پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا "تجارتی فلموں میں ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بہت سے عناصر ہوتے ہیں لیکن ناظرین کو دستاویزی فلموں کی طرف راغب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ دستاویزی فلم بنانے کے پیچھے کی کوشش بنیادی طور پر تحقیقی مواد پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ہماری تحقیق مفصل اور مکمل ہے تو ہم دستاویزی فلموں کے ذریعہ ایک اچھی کہانی سنانے کے قابل ہو ں گے۔
تربیت کے ذریعہ ایک سائنس دان، ڈاکٹر کوٹھاری نے ہندوستان کی ثقافت اور ان کے پیچھے کے معنی تلاش کرنے کے لیے اپنا ماضی کا کیریئر چھوڑ دیا۔ انہوں نے فلمی مندوبین کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنا پیشہ تبدیل کرنے کے لیے کس نے ترغیب دی۔ ڈاکٹر کوٹھاری نے کہا "ہمیں جو وراثت ملی ہے اس کا ذمہ دار نگہبان بننا ہے۔ ایک طبیعیات دان ہونے کے باوجود میں نے محسوس کیا کہ ہندوستانی علمی نظام اور ہندوستانی فلسفے کی سمجھ جدید سائنس سے بھی زیادہ سمجھدار ہے۔ میں اسے دریافت کرنا چاہتی تھی ۔"
ڈاکٹر کوٹھاری نے مزید وضاحت کی، "ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے ملک کے ان آثار قدیمہ کے مقامات، خاص طور پر مندروں اور عجائب گھروں میں ایک سیاح کے طور پر جاتے ہیں۔ ہم مجسموں، گرنتھوں یا فن تعمیر کے پیچھے کے معنی کو نہیں سمجھتے ہیں۔ ہماری دستاویزی فلم ہندوستان کی روایات کی گہرائی میں لے جاتی ہے اور اسے دنیا کو دکھاتی ہے۔ "
ڈاکٹر کوٹھاری نے بتایا کہ اس دستاویزی فلم کو 20 قسطوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور 25 منٹ کےہر قسط کو لوگوں کو دیکھنے کے لیے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا "ہم اسے تجارتی فائدے کے لیے نہیں استعمال کر رہے ہیں بلکہ عوام کی زیادہ بھلائی کے لیے کر رہے ہیں۔ ہم طلباء کے مختلف سوالات پر چھوٹے چھوٹے کلپ بھی بنا رہے ہیں، ہم اسے جلد ہی جاری کریں گے۔"
او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، رام جی اوم نے پوچھا کہ ہم غیر ملکی پلیٹ فارموں کو اپنے سینما کو اسٹریم لائن کرنے کی اجازت دے کر کنٹرول کیوں چھوڑ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "سینما عوام کی نفسیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ فلمیں صرف فلمی میلوں میں دکھانے کے لیے نہیں ہوتی ہیں۔ اپنے سنیما کو عالمی سطح کا بنانے کے لیے ہمیں پیسے کی نہیں قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بیانیہ پر قابو پانا چاہیے اور ہمارے اپنےاو ٹی ٹی پلیٹ فارم ہونے چاہیے جو ہمارے علاقائی فلم سازوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔"
ڈاکٹر دیپیکا کوٹھاری نے کہا کہ انہوں نے یوگا پر ایک اور دستاویزی فلم بنائی ہے جسے بہت سےدانشوروں نے سراہا ہے اور اسے قومی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں دکھایا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
U-13382
(Release ID: 1775818)
Visitor Counter : 261