وزارت اطلاعات ونشریات
iffi banner
1 0

مریچ جھاپی کی جنگ کا ذکر ہماری تاریخی کتابوں میں کیوں نہیں ملتا، جہاں صرف ایک رات ہی میں 15000 لوگ قتل کردیئے گئے تھے: افی 52 بھارتی پنوراما کی غیر فیچر فلم ‘‘سین باڑی سے سندیش کھالی تک’’ کے ہدایت کار نے یہ سوال کیا ہے


سین باڑی قتل عام کے متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پوری دنیا اس فلم کو دیکھے اور اسے معلوم ہو کہ کیا کچھ گزرا ہے: ہدایت کار
سنگھا مترا چودھری

اگرہماری تاریخی کتابوں میں جلیاں والا باغ، پانی پت کی جنگ اور بکسر کی لڑائی کا ذکر ملتا ہے تو مریچ جھاپی کی لڑائی کا ذکر کیوں نہیں ملتا جہاں صرف ایک ہی رات میں 15000 سے زیادہ افراد قتل کردیئے گئے تھے؟’’

فلم ‘‘ سین باڑی سے سندیش کھالی’’ کے ہدایت کار سنگھا مترا چودھری نے یہ سوال کیا ہے۔ یہ فلم بھارت کے 52 ویں بین الاقوامی فلمی میلے میں ناظرین کو دکھائی گئی ہے، یہ فلمی میلہ 20 نومبر2021 کو میلے سے الگ ا یک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔

اس فلم میں مغربی بنگال میں 1970 سے 2019 کی مدت کے دوران سین باڑی، سندیش کھالی اور دیگر مقامات پر سیاسی مقاصد سے کئے گئے ا جتماعی قتل کے بارے میں ہے۔ اس فلم کی بھارتی پینوراما کے غیر فیچر فلموں کے زمرے کے تحت ، افی 52 میں نمائش کی گئی ہے۔

چودھری نے ان ہلاکتوں کی یاد تازہ کی۔ ‘‘ یہ متاثرہ افراد ، مشرقی بنگال، اب بنگلہ دیش سے آئے مہاجر تھے۔ وہ مغربی بنگال میں پناہ  حاصل کرنے آئے تھے۔ البتہ انہیں سندربن کے دور دراز کے جزائر میں بھیج دیا گیا اور دوائیں، کپڑے اور خوراک کی سپلائی جیسی تمام ضروری چیزیں ان سے لے لی گئیں، اس لئے انہوں نے کاشتکاری شروع کردی اوران کی بسراوقات بہت مشکل سے ہورہی تھی۔ ایک رات، نامعلوم افراد کشتیوں میں سوار ہوکر وہاں پہنچے، ان لوگوں نے جو کشتیوں میں وہاں پہنچے تھے مہاجرین کو قتل کیا اور ان کے مکانات کو آگ لگادی۔ یہ وہ کہانی ہے جسے ہم نے اپنی فلم میں پیش کیا ہے۔

 

 

سین باڑی کاایک مخصوص واقعہ بیان کرتے ہوئے ہاں سے کہ ہ سب شروع ہواتھا، ہدایت کار نے کہا ‘‘ میں پچاس سال پیچھے کے دور میں پہنچی اورسین باڑی سے فلم بنانی شروع کی کیوں کہ وہاں سب سے زیادہ خوفناک سیاسی قتل ہوئے تھے۔ وہاں ایک پورے خاندان کو قتل کردیا گیا اور مارے گئے بیٹوں کی ماں کو اپنے بچوں کے خون ا ٓلود چاول کھانے پر مجبور کیا گیا، ان میں سے صرف ایک بھائی زندہ بچ گیا کیوں کہ وہاس وقت گھر پر نہیں تھا۔ بردھامان میں ایسے لوگ ہیں جو  اب بھی اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں کہ جن کا ہماری تاریخی کتابوں میں ذکر نہیں ملتا’’۔

انہیں یہ فلم بنانے کے لئے کس بات نے تحریک دی؟ چودھری نے سمجھایا: ‘‘اب بھی ہم ان واقعات کے بارے میں سنتے ہیں جو مغربی بنگال میں پیش آئے تھے۔ لیکن ذرائع ابلاغ  یا میڈیا نے اس بارے میں کوئی خبر نہیں دی ہے، ا سلئے میں نے سوچا کہ میں عوام الناس تک یہ بات پہنچانے کے لئے ایک فلم بناؤں گی’’۔

ہدایت کار نے مندوبین کو مطلع کیا کہ عوام الناس اور میڈیا دونوں نے ان میں سے زیادہ تر معاملات کو بھلا دیا ہے اوریہ واقعات عوام  کی نظروں سے اب بھی پوشیدہ ہیں۔

چودھری نے انکشاف کیا کہ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سوگوار خاندان  اب بھی اپنے اوپر گزرے ان سانحات کے جذباتی اور نفسیاتی اثرات سے بے حال ہیں ۔‘‘ سندیش کھالی کے فسادات میں پنچایت چناؤ کے بعد تین نوجوانوں کو قتل کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کی لاش ابھی تک نہیں ملی ہے اس لئے اس کی اہلیہ اب تک سندور لگا رہی ہے۔ اس عور ت کا کہنا ہے کہ جب تک میں اپنے شوہر کی لاش نہیں دیکھ لیتی مجھے یقین نہیں آئے گا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے’’۔

ہدایت کار نے اعتراف کیا کہ اس قسم کی فلم بنانے کے لئے کافی ہمت کی ضرورت ہے۔‘‘شروع میں جب میں نے  یہ فلم بنانی شروع کی تو پہلے میں نے ایک چھوٹا ٹریلر بنایا اوراسے سوشل میڈیا پر جاری کردیا۔ جلد ہی مجھے نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں ، لیکن میں نے انہیں واپس چیلنج کرتے ہوئے کہا ‘‘اگر تم آسکتے ہو تو میں تمہیں دستاویزات دکھاؤں گی’’۔

فلم کے لئے دستاویزات حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ تاہم ہدایت کار نے کہا : جس مدت کے دوران یہ واقعات پیش آئے تھے اس دوران کوئی سوشل میڈیا نہیں تھا، کوئی کیمرہ نہیں تھا اورمیڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، لیکن اسے لوگ ہیں  جو ان واقعات کے گواہ ہیں اورجنہوں نے تمام واقعات کی تفصیل بتائی ہے۔ اس لئے یہ فلم ایک سیاسی فلم کےمقابلے تاریخی فلم زیادہ ہے۔ میں اس سلسلے میں تفصیل سے تحقیق کی ہے اور ہرسین کے حق میں دستاویزات موجود ہیں یاوہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ بھی ہواہے اس کا مشاہدہ کیا ہے، اس کے علاوہ میں نے اخبارات کی کترنیں بھی جمع کی ہیں، کچھ ٹی وی مناظر بھی ہیں جنہیں میں نے بعد کے مرحلے میں حاصل کیا تھا۔

چودھری نے اعتراف کیا کہ دستاویزات کی حصولیابی او ر فلم بنانا بہت تکلیف دہ عمل تھا ۔‘‘ میں تمام متاثرہ علاقو ں میں گئی اور سوگوار افراد سے بات کی۔ جیسے جیسے وہ اپنے تجربات بیان کررہے تھے میں انکے آنکھوں سے رواں آنسوؤں کودیکھتی تھی وہ ابھی تک ان واقعات کے نفسیاتی صدمات سے ابھر نہیں پائے ہیں’’۔

ہدایت کار نے کہا کہ اس فلم کو بنانے میں بہت زیادہ تحقیقی کام کرنے پڑے۔ ’’ میں نے 2018 میں یہ فلم بنانے کا ارادہ کیا تھا اور پھر میں نے اس فلم کے لئے تحقیق کرنی شروع کردی۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس مدت کے دوران لگ بھگ 15-16 واقعات ہوئے تھے۔

 

 

فلم کا ٹریلر دکھاتے ہوئے چودھری نے وضاحت کی کہ انہوں نے اسے یک ڈاکیومنٹری فلم کے بجائے ا یک ڈاکیو ۔فیچر فلم کیوں قرار دیا؟ ‘‘دستاویز کے کچھ مناظر تخلیق کئے گئے تھے کیوں کہ ہمیں اس کے فٹیج نہیں مل سکے تھے۔ اس لئے ہمیں ا نہیں تخلیق کرنا پڑا، اس لئے یہ فلم مکمل طور پر ایک ڈاکیومنٹری نہیں بلکہ ایک ڈاکیو فیچر فلم ہے’’۔

 

 

انہوں نے یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ سی بی ایف سی سے فلم کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں انہیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑاتھا اورجیسے ہی بورڈ  نے اسے منظوری دی یہ فلم وائرل ہوگئی۔

ہدایت کا رنے مندوبین کو مطلع کیا کہ انہوں نے جن واقعات کو فلم میں پیش کیا ہے ان کے متاثرین اب بھی انصاف ملنے کے منتظر ہیں ،  ان متاثرہ افراد  اوران کے اہل خانہ کو اب تک انصاف نہیں ملا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ نہ صرف پورا بھارت بلکہ پوری دنیا یہ فلم دیکھے تاکہ وہ جان سکیں کہ مغربی بنگال میں کیا کچھ ہوا ہے’’۔

 

****************

(ش ح۔ع م ۔ ف ر)

U. NO. 13307

iffi reel

(Release ID: 1775248) Visitor Counter : 364


Read this release in: English , Hindi