وزارت اطلاعات ونشریات
تنہائی اب ایک وبا کی طرح ہے، میری فلم ہماری تنہائی کی لعنت پر مبنی ہے : اِفّی 52 کی فلم ’’مانک بابور میگھ‘‘ کے ڈائریکٹر
’’مانک بابور میگھ نوجوانوں کے لئے جدید دور کی ایک پری کی کہانی ہے‘‘
’’جدید اور مربوط دور میں، ہم اپنے وجود کے مرکز سے بھٹک رہے ہیں‘‘: ڈائریکٹر ابھینندن بنرجی
ہماری فلم ایک شکست خوردہ ،عام آدمی کی کہانی ہے: پروڈیوسر مونالیزا مکھرجی
ایک آدمی بادل کے ساتھ غیر حقیقی اور پر اسرار رومانوی رشتے میں ہوتا ہے، جو انہیں اعتماد، دھوکہ، یقین اور شوق کے تفریحی سفر پر لے جاتا ہے، اگر کوئی شیکسپیئر کے ’’ایز یو لائک اِٹ‘‘ میں ڈیوک سینئر کی تشریح اور توضیح کرے توہ یہ کہہ سکتا ہے کہ پر اسراریت تنہائی کا نتیجہ ہے۔
ہاں، پہلی مرتبہ ہدایت کار ابھینندن بنرجی کی بنگالی فلم مانک بابور میگھ ایک عام آدمی کی عجیب و غریب کہانی بیان کرتی ہے جو ایک بادل کے ساتھ اپنے رشتے سے زندگی کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ فلم ’دی کلاؤڈ اینڈ دی مین‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، یہ فلم اِفی 52 میں فلم شائقین کے لطف اندوز ہونے کے لیے پیش کی گئی ہے۔ بھارت کا بین الاقوامی فلم فیسٹول، اِفی 52 کاانعقاد ، 20 تا 28 نومبر 2021 کے دوران ایک ہائبرڈ طریقے سے گوا میں منعقد کیا جا رہا ہے۔
آج گوا میں فلم فیسٹول سے الگ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، بنرجی نے مندوبین کو بتایا کہ کس طرح یہ فلم تنہائی کی وبا کو بیان کرتی ہے ۔ ’’تنہائی اب تقریباً ایک وبا کی طرح ہے، اس خیال کی ابتدا ہم پر تنہائی کی لعنت سے ہوئی ہے۔‘‘ اُن کے ساتھ فلم کی پروڈیوسر مونالیزا مکھرجی، سینماٹوگرافر انوپ سنگھ، ساؤنڈ ڈیزائنر ابھیجیت ٹینی رائے اور ایڈیٹر ابھرو بنرجی بھی تھے۔
بنرجی نے مزید کہا کہ فلم کی ابتدا ان کی اپنی زندگی کے تجربات سے بھی ہوتی ہے۔’’یہ فلم میری زندگی کے تجربے اور میں نے اب تک جو کچھ تجربہ کیا ہے اس کے مطابق تیار کیا ہے۔ مختصراً اسے بالغوں کے لیے جدید دور کی پریوں کی کہانی کہا جا سکتا ہے۔ ان دنوں اور رابطے کے دور میں ، سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور انسانی معاشرے کے افراتفری کے سبب ، ہم اپنے اصلی وجود سے بھٹک رہے ہیں، جو فطرت ہے اور جو خود بھی ہم ہیں۔
ہدایت کار نے بتایا کہ آخر کار، یہ فلم ایک سماجی طور پر ایک نااہل آدمی کے بارے میں ایک کہانی ہے ،جو ایک سماجی ماحول میں جینے کی کوشش کر رہا ہے، جہاں ایک قدرتی حاشیہ بردار کے طور پر، ایک بادل آتا ہے اور اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیتا ہے۔’’اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہی فلم کی کہانی ہے۔‘‘
پروڈیوسر مونالیزا مکھرجی نے انکشاف کیا کہ روایتی کہانیوں کے برعکس یہ فلم ہیرو کی نہیں بلکہ ہارنے والے ایک شخص کے بارے میں ہے۔ ’’ایک پروڈیوسر کے طور پر، لوگ عام طور پر ہیروز کے بارے میں تفریحی فلمیں بناتے ہیں۔ ہماری فلم ایک شکست خوردہ عام آدمی کے بارے میں ہے۔ ان کہانیوں کو بتانا بھی ضروری ہے۔ ادب میں آپ نے محبت کی کہانیوں کے بارے میں پڑھا ہوگا، لیکن یہ فلم ایک انوکھی محبت دکھاتی ہے، جہاں ایک بادل ایک آدمی سے محبت کرتا ہے۔‘‘
فلم کے سنیماٹوگرافر، انوپ سنگھ نے کہا کہ، ’’آرگینکلی طور پر شوٹ کیا گیا، کرداروں کی سادگی سنیماٹوگرافی کی سادگی کے ساتھ جاتی ہے‘‘۔
ساؤنڈ ڈیزائنر ابھیجیت ٹینی رائے نے وضاحت کی کہ کس طرح صوتی عناصر کو ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ ناظرین کو مرکزی کردار مانک بابو کے جذبات اور تجربات کا قریب سے تجربہ کر سکیں۔ ’’زیادہ تر ایسی فلمیں جن میں ڈائیلاگ نہیں ہوتے، انہیں خاموش فلمیں تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، ہم تقریباً کبھی خاموشی کا تجربہ نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو بہت تجرباتی ہے۔ یہ لفظی نہیں ہے، آپ کے پاس اسکرین پر بہت سے مکالمے نہیں ہیں، اس لیے ناظرین بہت سی چیزوں کا تجربہ کرتے ہیں جو مانک بابو کبھی کبھی چن چن کر سنتے ہیں۔ وہ فطرت اور اس کے جذبات کا ایک خاص انداز میں تجربہ کرتا ہے۔ ہم نے اس فلم کی آواز کے ذریعے آپ کو اس کا ایک نچوڑ دینے کی کوشش کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ناظرین کو مانک بابو کے سفر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا‘‘۔
اس فلم کا اس سال نومبر میں ٹالن فلم فیسٹول میں ورلڈ پریمیئر ہوا تھا۔
علاقائی سنیما کے بارے میں بنرجی نے کہا کہ علاقائی سنیما بالآخر عالمی سنیما کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ’’ایسا نہیں ہے کہ علاقائی سنیما کے ناظرین نہیں ہیں۔ لوگ عالمی سنیما کو قبول نہیں کر رہے۔ بالآخر، علاقائی سنیما عالمی سنیما ہے جس طرح عام زبان سنیما ہے۔ ہم آرٹ کی شکل بنانے کے لیے سینما کی بنیادی گرامر اور باریکیوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ مختلف میڈیم کا ایک کالج ہے جو اکٹھے ہو کر تخلیق کر رہے ہیں۔ ایسے ناظرین بھی ہیں، جو اس قسم کی فلموں کا انتظار کریں گے ،جہاں پردے پر گرائمر دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے ‘‘۔
بنرجی، جنہوں نے پہلے اشتہاری فلموں کی ہدایت کاری کی ہے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں، فلم سازی اور فلم کی مارکیٹنگ کے تجارتی پہلو کے بارے میں ان کا کہنا ہے ۔ ’’میں تجارتی اور غیر تجارتی سنیما میں فرق نہیں سمجھتا ہوں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ایسی فلمیں ہیں، جہاں کرافٹ فلم سازی کے آلات پر مبنی ہے ،جیسے کہ آواز اور امیجری ، اور پھر، ایسی فلمیں ہیں جو مکمل طور پر کہانیوں سے چلتی ہیں۔ ہمیں عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے ملک میں کیسے رہتے ہیں، اور ان کے لیے فلمیں بنائیں۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن سامعین علاقائی سنیما کی طرف زیادہ راغب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰۰۰۰۰۰۰۰
(ش ح- م ع- ق ر)
U-13266
(Release ID: 1774949)
Visitor Counter : 261