وزارت اطلاعات ونشریات
’’ڈولو اس بارے میں بات کرتی ہے کہ کس طرح شہرکاری کے عملنے ملک کی فنی اصناف کو متاثرکیاہے‘‘:آئی ایف ایف آئی 52ہندوستانی پنورما فلم ڈائرکٹر ساگرپُرانک
’’ڈولو‘‘ہم سے تقاضہ کرتاہے کہ بہترزندگی کی تلاش میں ہم اپنی اصل جڑوں سے نہ کٹ جائیں:پہلی بار ڈائریکشن دینے والے ساگرپُرانک
نئی دہلی ،23نومبر: ’’روایتی فنی اصناف کو زندہ رہنا چاہیے ۔ایک بہترزندگی کی تلاش میں ہم اپنی روایات اوراصل جڑوں کو بھولتے جارہے ہیں ۔’ڈولو‘کے ذریعہ ہم نے یہ بات بتانے کی کوشش ہے کہ شہرکاری کا عمل اندرون ملک عوام کی فنی اصناف کو کس طرح متاثرکررہاہے ‘‘۔یہ بات اداکارسے ڈائرکٹربننے والے ساگر پُرانک نے اس وقت کہی ، جب وہ اپنی ہدایت میں بننے والی اپنی پہلی فلم کے بارے میں بات کررہے تھے ۔یہ فلم ہندوستان کے 52ویں بین الاقوامی فلمی میلے کے نئے فنکاروں کے مقابلے والے زمرے میں شامل ہورہی ہے ۔ یہ میلہ 20سے 28نومبر ، 2021تک گوا میں منعقد کیاجارہاہے ۔ نووارد ڈائرکٹر آج 23نومبر ، 2021کو فلمی میلے کے موقع پر ہدایت کاروں کے ساتھ ملاقات والی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔
یہ فلم ، جسے کنّڑ ڈائرکٹر پون واڈیاراور ان کی اہلیہ نے پروڈیوس کیاہے ،ہمیں کرناٹک کے عوامی رقص کی ایک قسم ڈولو کونیتھا سے روشناس کراتی ہے ، جو بڑھتی ہوئی شہرکاری کے عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہیں ۔ فلم کا مرکزی کردار بھدرا ڈولو ڈرم نوازوں اور رقاصوں کے ایک گروپ کا لیڈرہے ۔ چونکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان میں پیسے کو جذبات کے اوپر فوقیت حاصل ہوجاتی ہے ، اوریہ ٹیم اپنا گاوں چھوڑ کر بے رحم میٹروپولیٹن شہر بینگلورو ڈیرہ ڈالتی ہے ۔
اس کے بعد یہ ہوتاہے کہ بھدرا پریہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس کی ٹیم کے فن کے مظارے کے بغیر گاوں کے مندرکی سالانہ رسومات نامکمل رہیں گی ۔ صدیوں پرانی روایت کو زندہ رکھنے کے لئے وہ اپنی ٹیم کو ازسرنو متحدکرنے کا فیصلہ کرتاہے ۔اس مشن کو آگے بڑھانے میں جن سختیوں اورمشکلات کا سامنا اسے کرناپڑتاہے ،وہی کہانی کا بنیادی حصہ قرارپاتاہے ۔
اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ شہری کاری کا عمل ایک عالمی معاملہ ہے ، ساگرپُرانک نے بتایاکہ گذشتہ برسوں کے دوران کرناٹک کے دیہی علاقوں سے بڑے پیمانے پر بڑے شہروں کی طرف ہجرت کا کارجحان دیکھنے میں آیاہے کیونکہ لوگو ں کو زندگی کے معیارکو بہترسے بہتربنانے میں زیادہ دلچسپی ہے ۔
تاہم انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ کوئی بری چیز بھی نہیں ہے ، لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہاکہ ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو بھی یقینی بناناچاہیے کہ ہم اپنی اصل جڑوں کو فراموش نہ کرپائیں ۔
یہ بتاتے ہوئے کہ کسی بھی آرٹ کو اتنی آسانی سے فراموش نہیں کیاجاسکتا، انھوں نے کہا کہ ’’ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو ان فنی اصناف کو زندہ رکھنے کے لئے مستقل جدوجہد کر رہے ہیں ۔اس فن کی مقبولیت میں کمی غالبااس بنا پرسامنے آرہی ہے کہ نوجوان اس کی طرف توجہ نہیں کررہےہیں‘‘ ۔
’’ اس فلم کے ذریعہ ہم نے یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ فن کے لئے کوئی قوانین نہیں ہوتے اورکسی معاشرے کے انداز فکر کی بنیاد پر اس کی تعریف متعین نہیں کی جاتی ‘‘۔
وہ چیلنجز، جن کا ایک نئے ڈائرکٹرکی حیثیت سے انھوں نے سامنا کیا ، پُرانک نے بتایا کہ انھوں نے اس فلم کی ہدایت کے لئے کسی قسم کے نئے تجربات میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پرانے طورطریقے جوخالص اور قدرتی تھے استعمال کئے ، تاہم ٹیکنیکل محاذ پر میں نے خود اپنے آپ کو جوکھم میں ڈالا ۔میں نے نزدیکی شارٹس کے لئے بھی بڑے لینسیز کا استعمال کیا ، جس میں گاؤں کے مناظربھی شامل ہیں ۔
یہ کہتے ہوئے کہ اس فلم میں مرکزی کردار کا پس منظر بہت کم دکھایاگیاہے ، انھوں نے بتایاکہ میں نے صرف وہی دکھایا اورپیش کیاہے جو میرے ہیرونے دیکھااورسناہے ۔ اس بات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہ فلم میں کام کرنے والے لوگو ں کو اس فلم کے مطابق ڈھالنا کس طرح ان کے لئے ایک اوربڑا چیلنج تھا ، انھوں نے بتایاکہ یہ حقیقتاًایک چیلنج تھا ، ہم نے ڈھول کی تال پر پیشہ ور رقص کرنے والوں کو اداکاری کی تربیت دی اور پیشہ وراداکاروں کو رقص کے لئے تیارکیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے بہت ہی پریشان کن تھا ، لیکن اس کے جونتائج برآمد ہوئے ہیں وہ اب سب کے سامنے ہیں ۔
آنجہانی کنّڑ سپراسٹار پنیت راج کمارکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پرانک نے کہا کہ پنیت راج کمار کنّڑفلم انڈسٹری کے ایک مضبوط ستون تھے ۔ وہ ہمارے فنکاروں کی ٹیم کے بہت نزدیکی دوست تھے اور ان کا جانا ہمار ے لئے ایک ناقابل برداشت نقصان ہے ۔ 52 واں بھارتی بین الاقوامی فلمی میلہ عوام کے محبوب ترین اداکار کو ، جنھیں ناگہانی موت کا سامنا کرنا پڑا ، ان کی منتخب فلموں کی نمائش کے ذریعہ نذرانہ عقیدت پیش کررہاہے ۔
ڈولو کی پہلی نمائش امریکہ میں باسٹن میں منعقد ہونے والے کیلی ڈوسکوپ انڈین فلم فیسٹول میں کی گئی تھی اورابھی حال ہی میں اسے اختراعی بین الاقوامی فلمی میلے میں بہترین کنّڑ فلم کے لئے داداصاحب پھالکے ایوارڈ 2021سے نوازاگیاہے ۔(ایم ایس کے ٹرسٹ )
ساگرپُرانک قومی ایوارڈ یافتہ اداکارہیں ، جو زیادہ ترکنّڑفلم اور ٹیلی ویژن صنعت کے لئے کام کرتے ہیں ۔ اداکارکی حیثیت سے ساگر کی پہلی فلم رنگ روڈ سوما تھی ، جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کام کرنے والا ساراعملہ خواتین پرمشتمل تھااور کنّڑفلموں میں اس اعتبارسے یہ اپنی قسم کی پہلی فلم تھی ۔
*****
U.No.13254
(ش ح - اع - ر ا)
(Release ID: 1774506)
Visitor Counter : 241