کامرس اور صنعت کی وزارتہ

کامرس اور صنعت کے وزیر جناب پیوش گویل کے ماہی گیری پر دی جانے والی سبسڈی سے متعلق مذاکرات پر ڈبلیو ٹی او کی وزارتی میٹنگ میں خطاب کا متن

Posted On: 15 JUL 2021 4:02PM by PIB Delhi

نئی دہلی،15 جولائی ،2021   / مندرجہ ذیل کامرس اور صنعت کے وزیر جناب پیوش گویل کی ماہی گیری پر دی جانے والی سبسڈی سے متعلق مذاکرات پر ڈبلیو ٹی او کی وزارتی میٹنگ میں تقریر کا متن ہے:

‘‘صورتحال اور اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ تیسرا اجلاس نہیں ہوگا مجھے مزید کچھ تفصیلات کے ساتھ اپنی بات کہنے کی ضرورت ہے۔

مجھے آج ماہی گیری پر دی جانے والی سبسڈی پر اہم مذاکرات کے بارے میں وزارتی ٹی این سی کےلیے اظہار خیال کرتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے۔ میں اس پہل پر  ڈاکٹر نگوزی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔

بھارت اس معاہدے کو قطعی شکل دینے کا متمنی ہے کیونکہ بہت سے ملکوں نے غیرمعقول طریقے سے ماہی گیری پر سبسڈی دی ہوئی ہے اور یہ ملک ماہی گیری بھی مقررہ حد سے زیادہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بھارتی ماہی گیروں کو نقصان ہوتا ہےان کی گزر بسر میں نقصان ہوتا ہے ۔ تاہم مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم معاہدے میں ایک توازن اور شفافیت ابھی تک بھی نہیں لا سکے ہیں۔ ان پریشانیوں پر مجھے اپنے خیالات کااظہار کرنے کی اجازت دیجیے۔

پہلی بات یہ ہے ہمیں اوروگوے مرحلے دوران کی گئی غلطیوں کو نہیں دوہرانا چاہیے جن کی وجہ سے خاص طور پر زراعت کے کچھ منتخبہ ترقی یافتہ ارکان کے لیے غیر مساوی  تجارت ہوئی اور تجارتی  استحصال ہوا۔  جبکہ ناانصافی کے طور پر کم ترقی یافتہ ارکان پر پابندیاں عائد ہوئیں جن کے پاس اپنی صنعت یا کسانوں کو مدد دینے کی صلاحیت یا وسائل نہیں تھے۔ ماہی گیری انسانیت کےلیے ایک مشترک وسیلہ ہے جو عالمی سطح پر عوام کے مابین مشترک  وسائل میں سے ایک ہے۔ لہذا اس کا اشتراک مساویانہ اور منصفانہ انداز میں ہونا چاہیے۔ کسی بھی غیر متوازن یا غیر مساوی معاہدے سے ہم ماہی گیری کے حالیہ معاہدوں کی وجہ سے بندشوں کا شکار ہو جائیں گے ۔جس سے  ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کی مستقبل کی ضرورتیں پوری ہو جائیں۔ جیساکہ ہم دیرپائیگی پر بات کر رہے ہیں لہذا یہ لازمی ہے کہ زیادہ سبسڈی دینے والے ممالک اس بات کی ذمہ داری لیں کہ وہ اپنی سبسڈی میں کمی لائیں اور مچھلی پکڑنے کی مقدار کم کریں، جو آلودگی پھیلانے والے  کی طرف سے ادائیگی کیے جانے اور مشترک لیکن امتیاز پر مبنی ذمہ داریوں کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ’’

کسی معاہدے میں یہ جواز ضرور تسلیم کی جانی چاہیے کہ مختلف ممالک ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں اور ماہی گیری کے تازہ انتظامات سے ان کی تازہ اقتصادی صلاحیتوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ملک ترقی کریں گے ان کی ضرورتیں بدلتی جائیں گی۔ کسی معاہدے کے ذریعے متوازن حالیہ اور مستقبل کی ضرورتوں کے لیے بندوبست کیا جانا چاہیے۔ ارکان کے مابین یہ عدم توازن حالیہ صلاحیتوں سے پوری طرح ظاہر  ہے جس سے گھریلو دریاؤں اور گہرے سمندروں میں ماہی گیری کا استحصال ہوتا ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ملکوں کی طرف سے دی جانے والی فی کس ماہی گیری سبسڈی ترقی یافتہ ماہی گیر ملکوں کے مقابلے بہت ہی کم ہے۔ بھارت جیسے ممالک جنھیں ماہی گیری کی صلاحیتوں میں ابھی ترقی کرنی ہے ان کے مستقبل کی خواہشوں اور امنگوں کی قربانی کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ لہٰذا یہ لازمی ہے کہ مستقبل کے لیے ترقی پذیر دنیا کی ماہی گیری کی صلاحیت میں اضافے کا تحفظ کیا جائے  اور انہیں ایسے انتظامات کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کے تحت انہیں نقصان یا پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے

دوسرے یہ موجودہ صورتحال میں ضرورت سے زیادہ صلاحیت اور مقررہ حد سے زیادہ ماہی گیری میں دیرپائیگی پر مبنی طریقۂ کار سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے خاطر خواہ نابرابری پیدا ہو جائے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک سبسڈی دیتے رہیں گے تو  اس سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ان کی صلاحیتں  مجبوریوں سے دوچار ہو جائیں گی ۔ یہ غیر مساوی ، غیر شفاف اور غیر منصفانہ رویہ ہے۔

تیسرے یہ کہ اگر غیر مخصوص ایندھن سبسڈیاں ڈسپلن کے تحت نہیں لائی جاتیں تو نابرابری کا ایک بڑا موقع نئے سرے سے شروع ہو جائے گا۔

چوتھی یہ کہ حکومت سے حکومت کے درمیان ماہی گیری کے تحت سبسڈیوں کی غیر وصولیابی کے ساتھ خصوصی طور پر نمٹنا بھی غیر منصفانہ ہوگا۔

پانچویں یہ کہ کسی بھی نئے معاہدے کو موجودہ بین الاقوامی معاہدوں اور سمندر سے متعلق قوانین کے ضمن میں دیکھا جاناچاہے ۔

چھٹے یہ کہ بھارت جو کچھ  چاہتا ہے وہ موزوں اور موثر ہے، نیز اپنے پورے جذبے کے ساتھ ایک مختلف رویہ ہے۔ جیساکہ مراقش معاہدے کے رہنما اصولوں میں کہا گیا ہے۔

حتمی طور پر ہمیں اس متن کو متوازن بنانے کی اہم بنیاد کی ضرورت ہے  تاکہ ترقی پذیر ملکوں کی تشویش سے نمٹا جا سکے۔

عالی جنابان، مادام نگوزی ، ماحول کا تحفظ کرنوں سے بھارتی اقدار کا حصہ رہا ہے اور ہمارے وزیر اعظم جناب نریندر مودی بھی  اس بات  کو بار بار کہہ چکے ہیں۔ بھارت مذاکرات کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے یہاں تک کہ ماہی گیری کی حالیہ اور مستقبل کی ضرورتوں کو توازن میسر آجائے ، مستقبل میں ماہی گیری کی صلاحیتوں میں مساویانہ ترقی کے لیے جگہوں کا تحفظ کر لیا جائے اور موثر ایس اینڈ ڈی ٹی کا انتظام بغیر کسی عدم توازن کے کیا جائے۔شکریہ’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                                       

م ن ۔ اس۔ ت ح ۔                                               

 

6591U –



(Release ID: 1735988) Visitor Counter : 136


Read this release in: English , Hindi , Bengali