نیتی آیوگ

زرعی ماحولیات اور قدرتی زراعت سے ہندوستان میں شمولیت پر مبنی اقتصادی ترقی کو رفتار مل سکتی ہے

Posted On: 01 JUN 2020 2:49PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  یکم مئی 2020 ۔ نیتی آیوگ کے ذریعے 29 مئی کو منعقدہ کنونشن میں بین الاقوامی ماہرین نے ہندوستان میں ان کوششوں کی تائید کی جن کا مقصد زرعی ماحولیات اور قدرتی زراعت کے نقطہ نظر سے قابل ذکر طریقے سے تقویت دینا ہے۔

سینئر بین الاقوامی و قومی ماہرین اور پالیسی سازوں پر مشتمل سامعین سے خطاب کرتے ہوئے زراعت کے وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ قدرتی زراعت ہمارا دیسی نظام ہے جو گائے کے گوبر اور پیشاب، بایوماس (حیاتیات)، سڑی ہوئی گھاس اور مٹی میں ہوا آمیزی پر مبنی ہے۔ آئندہ پانچ برسوں میں ہمارا ارادہ نامیاتی کاشت کاری کی کسی بھی شکل میں 20 لاکھ ہیکٹیئر تک پہنچنے کا ہے، جس میں قدرتی زراعت شامل ہے، اس میں سے 12 لاکھ ہیکٹیئر بی پی کے پی (بھارتیہ پراکرتک کرشی پدھتی پروگرام) کے تحت آتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 2015 میں چھوٹے اور بہت چھوٹے کسانوں کے درمیان نامیاتی زراعت کو فروغ دینے کے لئے شروع کی گئی پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا نے گزشتہ چار برسوں کے دوران 7 لاکھ ہیکٹیئر اور 8 لاکھ کسانوں کا احاطہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آندھرا پردیش، کرناٹک، ہماچل پردیش اور کیرالہ نے قدرتی زراعت کو بڑے پیمانے پر اپنایا ہے۔ صرف آندھرا پردیش میں ہی اس اسکیم کے تحت 2 لاکھ ہیکٹیئر زمین کو قدرتی زراعت کے تحت لانے کا کام کیا ہے۔انھوں نے اپنی بات کا اختتام اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا کہ کووڈ-19 کی وبا کے پس منظر میں وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے کھانے پینے کی چیزیں کیمیاتی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے اثرات سے پاک ہوں، تاہم ملک کی غذائی ضرورتوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ہندوستان میں اپنی نوعیت کے پہلے آن لائن اعلیٰ سطحی گول میز کانفرنس کے لئے ماحول سازی کرتے ہوئے نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر راجیو کمار نے ہندوستان میں زرعی شعبے کی یکسر تبدیلی اور احیاء کے لئے اس وقت ایک بلند معیار پیش کردیا جب انھوں نے کہا کہ کیا زرعی ماحولیات اور قدرتی زراعت پانی کے حددرجہ اور بے مصرف استعمال سے بچاسکتی ہے، کسانوں کو قرض تلے دبنے سے وہ روک سکتی ہے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنے میں تعاون دے سکتی ہے اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں تعاون دینے کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ تال میل قائم کرنے کی اہلیت میں اضافہ کرسکتی ہے۔

امریکہ، برطانیہ، نیدرلینڈ، سی جی آئی اے آر، آسٹریلیا، جرمنی اور اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ماہرین نے ایگرو ایکولوجی (زرعی ماحولیات) کے شعبے میں ہندوستان کی شاندار قیادت کا اعتراف کیا۔ ایگروایکولوجی وہ سائنس ہے جس میں پائیدار نتائج کے حصول کے لئے زرعی شعبے میں ایکولوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، جو خشک سالی یا سیلاب اور جراثیم جیسے ماحولیاتی دھچکوں کے مقابلے میں زیادہ لچیلے پن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کے باوجود یہ نتیجہ خیز ہے اور کسانوں کے کسب معاش اور بالخصوص قدرتی زراعت کے عمل میں تعاون دیتی ہے، جو کہ ایگروایکولوجی کی ہی ایک شکل ہے۔ قدرتی زراعت مصنوعی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے استعمال سے اعتراض کرتی ہے اور زمین کے اندر مفید آرگینزم کے احیاء پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جس سے زرخیزی اور پودوں کی اچھی غذائیت میں مدد ملتی ہے۔ ماہرین نے کہا کہ اچھی طرح سے پروان چڑھائے گئے پودوں کا نتیجہ اچھی طرح پروان چڑھائے گئے انسانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قدرتی زراعت کو رجعت پسندانہ اقدام کے طور پر دیکھنا غلطی ہوگی بلکہ قدرت کے ساتھ کام کرنا اور یہ سمجھنا کہ ایسا کیسے کیا جاسکتا ہے کہ ہمیں ایک بہتر پس منظر کی تعمیر میں مدد ملے گی۔ دیگر ماہرین نے زرعی کاشت کاری  اور ایگروایکولوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے تعلق سے بڑے پیمانے پر دلچسپی کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ اس کا دائرہ سیکڑوں بلین ڈالر پر محیط ہے اور یہی مستقبل کے نظامات ہوں گے۔ نیتی آیوگ کے رکن (زراعت) پروفیسر رمیش چند نے مزید ریسرچ پر زور دیا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ قدرتی زراعت توقعات کے مطابق نتائج دے سکتی ہے۔ ماہرین نے اس سلسلے میں اختراعات، سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کیا۔

ماہرین کے ذریعے دیے گئے پرزنٹیشنوں پر تذکرہ کرتے ہوئے حکومت ہند کے پرنسپل سائنسی مشیر پروفیسر کے وجے راگھون نے کہا کہ ہم تنوع اور غذائیت کی قیمت پر پیداوار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اپنے کرۂ ارضی کی حفاظت کے لئے کیمیاوی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کے تعلق سے ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی سے ہمیں زراعت کے موجودہ طریقے کو بدلنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے غریب سے غریب تر افراد کو اپنی غذائی صورت حال اور کسب معاش کی صورت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اپنے اختتامی تاثرات میں ڈاکٹر راجیو کمار نے زور دے کر کہا کہ اس کرہ کو بچانے کے لئے ایگروایکولوجی واحد متبادل ہے اور یہ ہندوستانی روایات کے مطابق بھی ہے۔ یہ معاملہ انسان بمقابلہ قدرت کا نہیں، بلکہ قدرت میں انسان یا قدرت کے ساتھ انسان کا ہے۔ انسانوں کو چاہئے کہ وہ دیگر انواع اور قدرت کے تحفظ کے تئیں اپنی ذمے داری کا احساس کریں۔

شرکاء اور پروگرام: مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے علاوہ جن قابل ذکر شرکاء نے اس راؤنڈ ٹیبل میں شرکت کی ان میں میزبان، نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر راجیو کمار، پرنسپل سائنسی مشیر پروفیسر کے وجے راگھون، جناب ستیہ ایس ترپاٹھی، اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سکریٹری جنرل، جناب پون سکھ دیو، صدر ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل، جناب الیگژینڈر مولر، مینیجنگ ڈائریکٹر ٹی ایم جی، تھنک ٹینک فار سسٹین بلٹی، ڈاکٹر رمیش چند، رکن نیتی آیوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں کے انتہائی سینئر اہلکاروں، ماہرین، محققین، اختصاص یافتہ افراد اور فکری قائدین نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔

پروگرام کے ساتھ مقررین کی فہرست ذیل میں دستیاب ہے:

پروگرام اور مقررین

خیرمقدمی کلمات:

ڈاکٹر راجیو کمار، وائس چیئرمین نیتی آیوگ، حکومت ہند

افتتاحی کلمات:

جناب نریندر سنگھ تومر، زراعت و کسانوں کی بہبود کے وزیر، حکومت ہند کے دیہی ترقیات کے وزیر

 

ماحولیات اور ایکولوجی پر پینل ڈسکشن:

ناظم: جناب پون سکھ دیو۔ اس سیشن میں زرعی کاشت کاری کو اپنانے میں ہندوستان کو درپیش چیلنجوں اور ممکنہ قواعد پر توجہ مرکوز کی گئی۔

مقررین: پروفیسر فلپ لینڈریجن، فاؤنڈنگ ڈائریکٹر، گلوبل پبلک ہیلتھ پروگرام، بوسٹن کالج۔ ڈاکٹر پشپم کمار، یو این ای پی کے چیف انوائرمنٹل ایکونومسٹ اور جناب والٹر جہنے، کلائمنٹ سائنٹسٹ اینڈ مائیکروبایولوجسٹ۔

 

ری جنریٹیو ایگریکلچر پر پینل ڈسکشن:

ناظم: جناب الیگژینڈر مولر، جرمنی میں ٹی ایم جی تھنک ٹینک کے منیجنگ ڈائریکٹر، یہ سابق جرمن اسٹیٹ سکریٹری اور ایف اے او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ اس اجلاس میں ری جنریٹیو ایگریکلچر پر مبنی ایک پائیدار انقلاب کے آغاز میں ہندوستان کے قدیم زرعی طور طریقوں اور علوم کو نکھارنے کے زبردست مواقع پر توجہ مرکوز کی گئی، جس سے کسب معاش کی صورت حال بنے گی اور لوگوں اور کرۂ ارضی کی صحت اچھی ہوگی۔

مقررین: پروفیسر رمیش چند، رکن (زراعت) نیتی آیوگ، ڈاکٹر روی پربھو، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، ورلڈ ایگروفاریسٹری (آئی سی آر اے ایف)، جناب سنجے اگروال، سکریٹری زراعت حکومت ہند اور جناب ڈینیل موس، ایگرو ایکولوجی فنڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر۔

 

بازار رسائی اور پائیدار مالیات پر پینل ڈسکشن:

ناظم: جناب ستیہ ایس ترپاٹھی، اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سکریٹری جنرل۔ اس اجلاس میں قدرتی طور پر اگائی گئی زرعی اشیاء اور پائیدار نامیاتی متبادل کے لئے بازار رسائی کی صورت حال کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کی گئی۔

مقررین: جناب سین کڈنی، سی ای او، کلائمیٹ بونڈس انیشیٹو، جناب کریگ کوگٹ، چیئرمین اور سی ای او، پیگاسس کیپٹل ایڈوائزر، جناب جوسٹ اورتھوائزن، سی ای او، سسٹین ایبل ٹریڈ انیشیٹو (آئی ڈی ایچ) اور جناب ڈیوڈ روسین برگ، ایروفارم کے سی ای او۔

 

مشاہدات اور پرکھ:

پروفیسر کے وجے راگھون، پرنسپل سائنسی مشیر، حکومت ہند

اختتامی کلمات اور آگے کے اقدامات:

ڈاکٹر راجیو کمار، وائس چیئرمین، نیتی آیوگ، حکومت ہند

******

 

م ن۔ م م۔ م ر

 

U-NO. 2947

01.06.2020


(Release ID: 1628553) Visitor Counter : 1171


Read this release in: English