صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ
لکشمی پت سنگھانیہ۔ آئی آئی ایم لکھنٔو نیشنل لیڈر شپ ایوارڈز پیش کئے جانے کے موقع پر صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کا خطاب
Posted On:
09 DEC 2019 4:52PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 9 دسمبر 2019، پندرہویں لکشمی پت سنگھانیہ۔ آئی آئی ایم لکھنٔو لیڈر شپ ایوارڈز 2018 کے موقع پر آپ سب کے درمیان آج یہاں آکر مجھے بہت کوشی ہوئی ہے۔ میں تین اہم شعبوں یعنی بزنس ، سائنس اور ٹکنالوجی اور کمیونٹی سروس اور سوشل اپ لفٹ مینٹ میں غیر معمولی قیادت کرنے والوں کے اعزاز کے لئے جے کے آرگنائزیشن اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ لکھنٔو کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
سال 2004 سے اس ایوارڈ سے کئی ممتاز ہندوستانیوں کو نوازا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور سماج کے لئے ان کی خدمات کو تسلیم کرتا ہے۔ آج ہر ایک انعام حاصل کرنے والے یعنی ڈاکٹر شری کمار بنرجی ، ڈاکٹر بھوشن پونانی، ڈاکٹر امت شرما ، جناب انشو گپتا اور جناب پنیت ڈالمیا نے اپنی حصولیابیوں کے ذریعہ نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔میں ان سبھی کو مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ان ایوارڈز کا قیام ایک وژنری اور بہترین بزنس لیڈر لالہ لکشمی پت سنگھانیہ کے نام سے عمل میں آیا ہے۔ اتفاق سے لالہ جی کی کرم بھومی کانپور تھی، جہاں میں بھی پیدا ہوا ہوں اور میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کاروباری گھرانے کے ساتھ کانپور کی ہمیشہ سے اچھی یادیں وابستہ ہیں۔ میں بھی ان سے متاثر ہوں۔لکشمی پت جی اپنے صنعت کاری کے جذبے اور بزنس اور معاشرے کے لئے اپنی خدمات کے لئے معروف ہیں۔یہ حقیقت میں مناسب ہے کہ ملک کا ایک اعلی ترین مینجمنٹ ادارہ آئی آئی ایم لکھنٔو اور جے کے آرگنائزیشن ان ایوارڈز کے قیام کے لئے یکجا ہوئے ہیں۔
خواتین و حضرات،
آج ہم یہاں قیادت میں نمایاں کارکردگی کا اعزاز بخشنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہمارے سامنے کیا ہمارے بابائے قوم کی قیادت سے بھی بہتر کوئی ماڈل موجود ہے؟ ہم اس سال کو گاندھی کی کے 150 ویں یوم پیدائش کے طور پر منا رہے ہیں۔ میں ایوارڈ کے ایک زمرے بزنس کے سلسلے میں ان کے خیالات کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ گاندھی جی نے جنگ آزادی میں بزنس کی قیادت کے رول کی بہت تعریف کی ہے اور اس مقصد کی حمایت کے لئے ان میں سے کئی کو تحریک دی ہے۔ مہاتما گاندھی کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کئی صنعتی بڑے گھرانوں نے اپنے کاروباری مفاد پر ملک کو ترجیح دی۔
گاندھی جی کو یقین تھا کہ ‘‘سچی معیشت کو اخلاقیات پر عمل کرنا چاہیے’’۔ انہوں نے معیشت کے ایسے راستے کی حمایت کی جو اخلاقی اور جذباتی معاملات کو نظر انداز نہ کرتا ہو۔ دولت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے بزنس کو اخلاقیات اور اعتماد سے جوڑنے کی ضرورت پر مسلسل زور دیا۔صاف گوئی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے 1919 میں اپنے ایک لیف لیٹ بمبئی کے تاجر طبقے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ‘‘پوری دنیا کے عظیم لمحات کا اظہار بیشتر تاجر طبقے پر ہی ہوتا ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار سچائی پر ہے اور اگر یہ تجارتی امور پر محیط ہوجائے تو جھوٹ کے دیگر قلعوں کو گرانا بہت آسان ہوجائے گا’’۔
خواتین و حضرات،
آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے، معیشت سے لیکر سائنس و ٹکنالوجی تک ، صحت دیکھ ریکھ سے لیکر تعلیم تک، خواتین کو تفویض اختیارات سے لیکر سماجی انصاف تک ہم نے زبردست ترقی کی ہے۔ دنیا نے ہمارے جمہوری اداروں، اقتصادی مضبوطی، سائنسی اہلیت، ثقافت اور گوناگونیت کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن ہمارے سامنے اب بھی بہت بڑے چیلنج ہیں جنہیں کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر مسائل حل کرنے مثلاً آب و ہوا کی تبدیلی، شمولیت والی ترقی کے لئے کوشش، ایک صنعتی کلچر کو فروغ دینے، اپنے قدرتی وسائل کے تحفظ اور سماج کے کمزور ترین طبقوں کے لئے انصاف کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ آسان چیلنج نہیں ہے۔ لیکن ہم نے اپنے معیارات اعلی رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مختلف شعبوں میں صحیح قیادت سے ہم کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس خیال کو سنسکرت شبھاشت میں بہت خوبصورت ڈھنگ سے بیان کیا گیا ہے۔ میں اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا:
अमंत्रम् अक्षरम् नास्ति, नास्ति मूलम् अनौषधम् ।
अयोग्यः पुरुषो नास्ति योजक: तत्र दुर्लभः॥
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں جادوئی طاقت نہ ہو، کوئی ایسی جڑی بوٹی نہیں ہے جس کا استعمال دوا کے طور پر نہ کیا جاسکے، کوئی ایسا انسان نہیں ہے جو بے مصرف ہو، لیکن انہیں اس لائق بنانا مشکل ہے۔ اور جو لائق بناتا ہے وہی لیڈر ہے۔
قیادت ہمارے مستقبل کی وہ بنیاد ہے جس پر ہمیں اپنے ملک کی تعمیر کرنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نوجوانوں کی پرورش وپرداخت اس طرح کریں کہ وہ اپنے لئے جس پیشے کا انتخاب کریں، ان میں اور اپنی سماجی زندگی میں بھی قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔ ہم ایسے بہتر لیڈر کیسے بنائیں جو ملک کو کل آگے لے کر جاسکیں۔ میرے خیال میں تعلیم ہی اس کا واحد جواب ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آئی آئی ایم لکھنؤ اپنا اہم رول ادا کرتا ہے۔ گزشتہ 35 برسوں کے دوران یہ ایک قائدانہ کردار ادا کرنے والے تعلیمی ادارے کی شکل میں ابھرا ہے ، نہ صرف مینجمنٹ تعلیم میں بلکہ ریسرچ اور کنسل ٹینسی سے متعلق سرگرمیوں میں بھی ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہورہی ہے کہ لیڈر شپ کا فروغ ان سرگرمیوں کا مرکز توجہ ہے۔ یہ زراعت ، صنعت کاری ، صحت بندو بست ، تعلیم ، اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور دیہی ترقیات سے متعلق سماجی ضرورتوں سے ہم آہنگ ریسرچ اور کنسل ٹینسی پروجیکٹوں کے تئیں پابند عہد ہے۔
تعلیم کے علاوہ مستقبل کے اپنے لیڈروں کی پرورش و پرداخت ہم مختلف شعبہ ہائے حیات میں انہیں بہترین رول ماڈل دستیاب کراکر ، کرسکتے ہیں۔ لکشمی پت سنگھانیا - آئی آئی ایم لکھنؤ نیشنل لیڈر شپ ایوارڈ کا مقصد بھی یہی ہے۔ آج جو ایوارڈز دئے گئے ہیں وہ اُن لوگوں کی کار کردگی کا اعتراف ہے ، جنہوں نے ایسی راہوں پر چلنے فیصلہ کیا، جن کا انتخاب کم لوگ کرتے ہیں اور جنہوں نے امتیازی کار کردگی پیش کرنے کے تئیں اپنے جذبے اور خواہش کا اظہار کیا۔ ایسا کرکے وہ ہماری زندگیوں میں قابل ذکر تبد یلی لائے۔
ایوارڈز پانے والے سبھی لوگوں کو میں ایک بار پھر مبارک باد دیتا ہوں ، میں ان لوگوں کے رول کی بھی ستائش کرتا ہوں، جنہوں نے ان ایوارڈز کے پس وپردہ طریقہ کار سے متعلق اعلیٰ معیارات کو برقرار رکھا۔ بالخصوص جیوری کو۔
میں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کروں گا کہ کاروبار کے شعبے کے مستقبل کے لیڈر ہونے کے ناطے آپ ملک کو عظیم تر خوشحالی کی راہ پر لے جائیں گے اور ایسا کرتے وقت آپ کے قدم زمین پر ٹکے رہیں گے اور آپ ایک ایسے سماج کی تعمیر میں مدد کریں گے جس کی بنیاد مشترکہ خوشی ، سچائی اور اعتماد کے اصو لوں پر ہو۔ آپ کی مستقبل کی کوششوں کے لئے میری نیک خواہشات۔
شکریہ!
جے ہند!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
م ن۔ا گ۔م م۔ ع ق ۔ن ا۔
U- 5674
(Release ID: 1595649)