نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

ویر ساورکر ایک کثیر جہتی شخصیت- ایک مجاہد آزادی، سماجی مصلح، مصنف، سیاسی مفکر تھے: نائب صدر جمہوریہ


انھوں نے کہا کہ ویر ساورکر کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا گیا ہے
ویر ساورکر نے ہندوستان میں چھوا چھوت کے خلاف ایک زبردست سماجی اصلاحی تحریک شروع کی تھی: نائب صدر جمہوریہ
ذات پات سے پاک ہندوستان کا تصور کرنے والے وہ پہلے شخص تھے
نائب صدر جمہوریہ نے ویرساورکر کے مطابق معاشرے کو جکڑنے والے سات زنجیروں کا تذکرہ کیا
وکرم سمپت کے ذریعے لکھی گئی ویر ساورکر کی سوانح حیات کا اجرا کیا
انھوں نے جنگ آزادی کے متعدد فراموش کردیئے گئے ہیروز کی حقیقی زندگی کی صحیح تصویر پیش کیے جانے کی اپیل کی

Posted On: 15 NOV 2019 7:41PM by PIB Delhi

نئی دہلی،15 نومبر                 نائب صدر جمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج کہا ہے کہ ویر ساورکر ایک کثیر جہتی شخصیت- ایک مجاہد آزادی، سماجی مصلح، مصنف، شاعر، تاریخ داں، سیاسی لیڈر اور فلسفی ان سبھی کا مجموعہ تھے۔

آج انھوں نے نئی دلّی میں ایک کتاب ‘ساورکر : فراموش کردیے گئے ماضی سے ایک گونج’ کا اجرا کیا اور ان کی رائے تھی کہ ویر ساورکر کی شخصیت کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کو ابھی تک واضح نہیں کیا گیا ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا ‘‘ہندوستان میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ویر ساورکر نے ہندوستان میں چھوا چھوت کے خلاف ایک زبردست سماجی اصلاح کی تحریک شروع کی تھی’’۔ جناب وینکیا نائیڈو نے کہا کہ ساورکر نے رتنا گری ضلع میں دلتوں سمیت تمام ہندوؤں کو داخلے کی اجازت دینے کے لیے پتت پاون مندر کی تعمیر کرائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘ذات پات سے پاک ہندوستان کا تصور کرنے والے وہ پہل شخص تھے’’۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ویر ساورکر نے ہی 1857 کی بغاوت کو پہلی جنگ آزادی کا نام دیا تھا، جناب وینکیا نائیڈو نے تاریخ کا صحیح جذبہ پیدا کرنے کی اپیل کی جس سے ہندوستانی اقدار کا اظہار ہوتا ہو۔

نائب صدر جمہوریہ نے ویر ساورکر کے مطابق معاشرے کو جکڑنے والی سات زنجیروں کا بھی ذکر کیا۔ ان زنجیروں کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ  ویر ساورکر نے ان ‘‘سات سودیشی زنجیروں’’ کی مذمت کی کیوں کہ یہ معاشرے کو تقسیم کرتی ہیں۔ ساورکر کے مطابق یہ سات زنجیریں اس طرح ہیں:

پہلی:  ذات پات کا سخت نظام جس کو ساورکر کے مطابق ‘‘تاریخ کے ڈسٹبن  میں پھینک دیا جانا چاہیے’’

دوسری:  دوسری اصلاح جو ویر ساورکر کرنا چاہتے تھے وہ کسی مخصوص ذات کو نہیں، بلکہ سبھی کو ویدک لٹریچر فراہم کرانے کی تھی۔ انھوں نے ویدک لٹریچر کو پوری نسل انسانی کے لیے تہذیبی علم اور انسانیت کے لیے ہندوستان کا منفرد تحفہ قرار دیا۔

تیسری:  ذات پات پر مبنی پیشہ اختیار کرنے  کی سختی تھی۔ انھوں نے  رجحان اور اہلیت کے مطابق  اپنی پسند کا پیشہ اختیار کرنے کے لیے لوگوں کی  حوصلہ افزائی کی۔ مسابقت کے لیے ترغیب کی عدم موجودگی میں یا رجحان نہ ہونے پر ساورکر کو یقین تھا کہ ‘‘محض جو کچھ والد نے کیا اسی کو دہرانے سے کام کاج  مطمئن کرنے والا اور غیر منفرد بخش ہوجاتا ہے’’۔

چوتھی:  ساورکر عالمی سطح پر رسائی میں یقین کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہندوستانی بیرون ممالک میں جائیں تاکہ ‘‘دنیا کی بہترین چیزیں  لے کر آئیں اور ہندوستان کی خوشبو اور اس کی ثقافت کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں’’۔

پانچویں:   ساورکر مختلف ذاتوں کے مل جل کر کھانے کو برائی سمجھے جانے کے خلاف انھوں نے کہا تھا ‘‘مذہب تو دل، روح، آتما میں ہوتا ہے پیٹ میں نہیں’’

چھٹی:    مختلف ذات پات کے درمیان شادی کو فروغ دینا تھی۔

ساتویں:  یہ کہ ویرساورکر ایک سائنسی  رجحان پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا ‘‘ہم یوروپ سے دو سو سال پیچھے ہیں’’ انھوں نے کہا ‘‘سائنس جدید خیالات اور صنعت کاری کے ذریعے ہی ہم اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ ہندوستان میں ہر ایک مرد اور عورت کو کام ملے، کھانے کے لیے خوراک، پہننے کے لیے کپڑے اور گزارنے کے لیے خوش گوار زندگی ملے’’۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ  ہندوستان کے  مستقبل کے بارے میں ساورکر کا دور اندیشی والا نظریہ ‘حقیقت میں معرکۃ الآرا’ ہے۔ ہندوستان کے مجاہدین آزادی نے جن بیشمار دشواریوں کا سامنا کیا ان کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے اپیل کی کہ ہر کسی کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار سیلولر جیل کو ضرور دیکھنا چاہیے۔

سوانح حیات لکھنا ، اور وہ بھی ایسے شخص کی جو ساورکر جیسا ممتاز اور متنازع ہو، کوئی آسان کام نہیں ہے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے مصنف ڈاکٹر وکرم سمپت کی تعریف کی کہ انھوں نے بہت زیادہ تحقیق کرکے بہت اچھی طرح ساورکر کی زندگی اور پیغام کی تفصیل پیش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘‘ڈاکٹر سمپت کی کتاب میں ساورکرکے ان زبردست خیالات کو بہت ہی مؤثر طریقے سے  پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ساورکر کو ہم ایک نئی روشنی میں دیکھتے ہیں’’۔

کتاب کے مصنف ڈاکٹر وکرم سمپت، راجیہ سبھا  رکن ڈاکٹر سونل مان سنگھ،راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل جناب دیش دیپک ورما، نائب صدر کے سکریٹری ڈاکٹر آئی وی سبّا راؤ، پرسار بھارتی کے چیئرمین ڈاکٹر اے سوریہ پرکاش، جناب میگھ ناتھ دیسائی، جناب سنجیو سانیال، جناب رنجیت ساورکر بھی اس موقع پر موجود معززین میں شامل تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

U. No. 5132



(Release ID: 1591844) Visitor Counter : 119


Read this release in: English , Hindi