مالیاتی کمیشن
پندرہویں مالیاتی کمیشن کی اترپردیش کی ریاستی حکومت کے ساتھ میٹنگ
Posted On:
22 OCT 2019 4:21PM by PIB Delhi
نئی دہلی،22 اکتوبر۔ پندرہویں مالیاتی کمیشن نے آج اپنے چیئرمین جناب این کے سنگھ کی سربراہی میں اپنے اراکین اور سینئر افسران کے ہمراہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ، ان کےکابینی رفقاء او ر ریاستی حکومت کے سینئر افسران کے ساتھ ایک میٹنگ منعقد کی۔
مالیاتی کمیشن نے میٹنگ کے دوران مشاہدہ کیا کہ:
- ریاست اترپردیش، آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اترپردیش میں ملک کی 16.78 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے۔ ریاست میں شہر کاری کا تناسب 22.3 فیصد ہے۔
- ریاست اترپردیش، ملک کے کُل رقبے کے 7.35 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
- اترپردیش میں آبادی کی کثافت فی کلو میٹر829 ہے جوکہ قومی اوسط 382 سے زیادہ ہے۔
- سال 18 -2017 میں جی ایس ڈی پی میں بنیادی ، ثانوی اور تیسرے درجے کے سیکٹر کی حصہ داری بالترتیب 25، 23 اور 44 فیصد ہے۔
- سال 18 -2017 میں ریاست کی فی کس آمدنی 55,456روپئے ہے جو کہ ملک بھر کی اوسط 1,14,958 روپئے فی کس آمدنی سے کم ہے۔
- سال 18 -2017 میں مرکز سے رقومات کی منتقلی ریاست کی کُل آمدنی رسید کےتقریباً 58فیصد پر مشتمل ہے۔
- ریاست میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 12-2011 میں 29.43فیصد ہے، جبکہ قومی سطح پر غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنےو الے افراد کی اوسط 21.92 فیصد ہے۔
- 11-2001 کے دوران ایک دہائی کے عرصے کے دوران ریاست میں آبادی کی شرح ترقی 20.23 فیصد ہے،جبکہ قومی سطح پر آبادی کی یہ شرح ترقی 17.69 فیصد ہے۔
مالیاتی کمیشن نے ریاست کے درج ذیل حقائق کی تعریف کی:
- ریاست اترپردیش نے ایس ڈی جی -1 میں واضح بہتری دکھائی ہے۔ ریاست میں غریبی 05-2004 میں 40.9فیصد تھی جو گھٹ کر 12-2011 میں 29.4 فیصد ہوگئی ہے۔
- ریاست کی جی ایس ڈی پی کی شرح ترقی گزشتہ برسوں کے دوران جی ڈ ی پی کی شرح ترقی کے مطابق رہی۔ 2018-2011 کی مدت کے دوران ریاست کی شرح ترقی کا یہ رجحان 11.09 فیصد رہا جبکہ موجودہ قیمتوں پر جی ڈی پی کی شرح ترقی کا رجحان اسی مدت کے دوران 11.56 فیصد رہا۔
- سال 2018-2017 سے یوپی ایس آر ٹی سی کی کُل کمائی میں بہتری آنی شروع ہوئی ہے۔ فی کلو میٹر یوپی ایس آر ٹی سی کی کمائی واضح طور پر بہتر ہوئی ہے، اس سے فی کلو میٹر لاگت میں کمی آئی ہے۔
- فوریسٹ سروے آف انڈیا کے مطابق سال 2015 کے مقابلے سال 2017 میں ریاست کے جنگلاتی رقبے میں 1.51 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ریاست میں ماحولیات کے تحفظ کے تئیں ریاست کے عہد کا پتہ چلتا ہے۔
- ریاست میں مربوط مالیاتی بندوبست نظام (آئی ایف ایم ایس ) کی ترقی میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔
مالیاتی کمیشن کو درج ذیل اُمور کے بارے میں تشویش ہوئی:
- جی ایس ڈ ی پی کی اوسط کے مقابلے بڑھتا ہوا واجب الادا قرضہ جات ، ریاستی ایف آر بی ایم کے ساتھ غیربجاآوری کا سلوک اور گھٹتےہوئےسرمایہ اخراجات ۔
- ریاست میں جی ایس ڈ ی پی کی تعدادکے مقابلے واجب الادا بقایا جات قرض میں کمی کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جی ایس ڈ ی پی اوسط کے مقابلے قرض میں اضافہ ہوا ہے۔ 13 -2012 میں یہ قرض 31.57 فیصد تھا ،جو کہ بڑھ کر 18-2017 میں 34فیصد ہوگیا ہے۔
- 18-2017 کے دوران درج ذیل اخراجات میں بنیادی طور پر کمی کے سبب پچھلے سال کے مقابلے میں 18-2017 کے دوران سرمایہ اخراجات میں 30,701کروڑ روپئے (44 فیصد) کی مجموعی کمی واقع ہوئی ہے:
- سڑکیں اور پل (14,724کروڑ روپئے)
- بجلی (3,369کروڑ روپئے)
- خوراک اسٹوریج اور گودام (1,748کروڑ روپئے)
- اہم آب پاشی (1,586کروڑ روپئے)
- بجلی کا سیکٹر
- ساتویں تنخواہ کمیشن کے سبب ریاست میں پنشن اور سود کا کافی بوجھ ہے۔
- ریاستی سرکار ی سیکٹر کی کمپنیوں (پی ایس یو) کو بڑھتے ہوئے خسارے کا سامنا ہے۔ 107 سرکاری سیکٹر کی کمپنیوں میں سے 100 سرکاری سیکٹر کی کمپنیوں کے اکاوٗنٹ میں بقایا جات ہیں۔فی الوقت کام کررہے سرکاری سیکٹر کی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے خسارے میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ خسارہ 13-2012 میں 62,901کروڑ روپئے تھا ،جو بڑھ کر 2017-18 میں 1,25,325کروڑ روپئے ہوگیا ہے۔ باوجودیکہ اترپردیش کی ریاستی حکومت نے بجلی کے سیکٹر کی سرکاری سیکٹر کی کمپنیوں میں کافی سرمایہ کاری کی ہے، تاہم بجلی کے سیکٹر کی سرکاری کمپنیوں کا خسارہ 13-2002 میں 11,829کروڑ روپئے سے بڑھ کر 18-2017 میں 18,415 کروڑ روپئے ہوگیا ہے۔
- ڈسکوم میں اودے اسکیم کو نافذ کرنے کے دوران اترپردیش کی ریاست نے فیڈر میٹرنگ اور دیہی فیڈر آڈٹ میں 100 فیصد کی پیش رفت حاصل کی ہے۔ تاہم ریاست کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے اور یہ ڈی ٹی میٹرنگ شہری ، ڈی ٹی میٹرنگ دیہی ، اسمارٹ میٹرنگ ، اے ٹی اینڈ سی خسارہ او ربجلی سے محروم کنبوں تک بجلی پہنچانے کے عمل جیسے پیرا میٹرس کیلئے مقررہ اہداف کے کافی نیچے ہے۔ بجلی کی وزارت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ریاستی اے ٹی اینڈ سی کا خسارہ 19-2018 میں 24.64 ہے جو کہ اس مدت کے دوران مقررہ نشانے 19.36 کے بالمقابل ہے۔
مالیاتی کمیشن کے علم میں لائے گئے دیگر اہم حقائق :
- 2015 میں قائم کردہ پانچویں ریاستی مالیاتی کمیشن (ایس ایف سی) نے 31 اکتوبر 2018 کو اپنی رپورٹ سونپ دی تھی۔ ریاستی مالیاتی کمیشن کے کلیدی سفارشات کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے زیر غور ہیں۔ ریاست فی الحال چوتھے ریاستی مالیاتی کمیشن (ایس ایف سی) کی رپورٹ کی سفارشات کو لاگو کررہی ہے۔
- بہرائچ ، بلرام پور، چندولی، چترکوٹ، فتح پور، شراوستی، سدھارتھ نگر پر مشتمل اُمنگوں بھرے اضلاع (امنگوں بھرے کُل 117 اضلاع میں 8 اضلاع) کے لئے خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔
کلیدی سوشل انڈیکیٹرس- قومی اوسط کے مقابلے متضادہیں:
- ریاست اترپردیش نے اگرچہ این ایف ایچ ایس -3 کے مقابلے این ایف ایچ ایس-4 میں صحت اور تعلیم کے اہم نتائج میں واضح بہتری دکھائی ہے ۔تاہم ریاست کُل ہند سطح پر سوشل انڈیکیٹرس کے مقابلے صحت اور تعلیم کے شعبے میں کلیدی سوشل انڈیکیٹرس میں کافی پیچھے ہے۔ ریاست کو اس خلیج کو پُر کرنے کیلئے متواتر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
- کلیدی سوشل انڈیکیٹرس میں ریاست کی کارکردگی کلیدی سوشل انڈیکیٹرس کے قومی اوسط کے مقابلےمیں متضاد ہے۔
- ریاست میں ایس ڈ ی جی انڈیکس کا ویلیو 42 ہے جو کہ قومی اوسط ویلیو 57 سے کم ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستانی ریاستوں میں ریاست اترپردیش کا 29واں مقام ہے۔
- ریاست اترپردیش کو ایس ڈ ی جی-1 غریبی کے خاتمے، ایس ڈ ی جی-2 بھوک وافلاس کے خاتمے، ایس ڈ ی جی-3 اچھی صحت اور خوشحالی، ایس ڈی جی-5 صنفی مساوات، ایس ڈ ی جی-7 سستی اور آلودگی سے پاک توانائی، ایس ڈ ی جی-9 صنعتی اختراع اور بنیادی ڈھانچہ، ایس ڈی جی-10 عدم مساوات میں کمی اور ایس ڈ ی جی -11 پائیدار شہروں اور معاشرے کے سلسلے میں بہتر کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔
- ریاست میں 10 لاکھ سے زیادہ آبادی کے حامل شہروں (آگرہ ، الہ آباد، غازی آباد، کانپور، لکھنؤ ، میرٹھ ، وارانسی) نے پی ایم 10 کے لئے (مثال کے طور پر پی ایم 10 سے اوپر 90 مائیکروگرام /ایم 3) صاف ستھری ہوا کے قومی پروگرام (این سی اے پی) سے تین گنا تجاوز کیا ہے۔ ریاست کو ان شہروں میں لوگوں کے آسانی کے ساتھ سانس لینے کے عمل کو بڑھانے کیلئے ایک خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے اور ا س کے لئے ریاست کو اقتصادی مراکز اور سرمایہ کاری ہب کے طور پر اُبھرنا ہوگا۔
- پانچویں سالانہ روزگار – بے روزگاری سروے 16-2015 (محنت اور روزگار کی وزارت) کے مطابق اہم ریاستوں میں اترپردیش میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح ہے۔ ریاست اترپردیش میں بے روزگار ی کی شرح 7.4 فیصد ہے جبکہ کُل ہند سطح پر بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد ہے۔
- اقتصادی طور پر ترقی کرنے کیلئے نوجوانوں کا بامعنی روزگار ایک کلیدی عنصر ہے ۔ ریاست نے اپنے میمورنڈم میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس کے پاس سب سے بڑی نوجوان آبادی ہےجس کو نہ صرف تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جانی ہیں بلکہ انہیں مناسب روزگار کے مواقع بھی فراہم کرنے ہیں تاکہ وہ ملک کی مجموعی ترقی میں اپنا تعاون دے سکیں۔
- ہنرمندی اور روزگار پیدا کرنے کے جاری پروگرام کو مؤثر طور پر نافذ کیا جانا چاہئے تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے بہترین مواقع حاصل کرنے کیلئے ہنر سے آراستہ کیا جاسکے۔
ریاست اترپردیش نے 1,02,138کروڑ روپئےکی خصوصی ریاستی مالی امداد کیلئے گزارش کی ہے۔ان میں بجلی کیلئے 30,000کروڑ روپئے، بندیل کھنڈ اور وندھیانچل خطے کیلئے، پینے کے صاف پانی کیلئے 10,000کروڑ روپئے، دیہی صفائی ستھرائی کیلئے 3000کروڑ روپئے، سیاحت کے فروغ کیلئے 3900کروڑ روپئے، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کیلئے 10,400کروڑ روپئے، ایس ایس اے اساتذہ کی تنخواہ کیلئے 6,103کروڑ روپئے، اسکولو ں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے7,736کروڑ روپئے، فارنسک سائنس لیباریٹریوں کیلئے 357کروڑ روپئے، نئے اضلاع میں پولیس لائن کیلئے 1,750کروڑ روپئے، نئے اضلاع میں جیلوں کیلئے 1,050کروڑ روپئے، شہری ترقیات کیلئے 2,500کروڑ روپئے، جنگلات اور ماحولیات کے تحفظ کیلئے 1,422کروڑ روپئے، طبی تعلیم کیلئے 5,720کروڑ روپئے، میڈیکل اور صحت کیلئے 13,846کروڑ روپئے، پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالر شپ کیلئے 4,262کروڑ روپئے اور محکمہ آثار قدیمہ کے کاموں کے تحفظ کیلئے 92کروڑ روپئے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ریاست اترپردیش نے ریاست کے دیہی اور شہری مقامی بلدیاتی اداروں کیلئے 4,35,090کروڑ روپئے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل مالیاتی کمیشن نے ریاست کی تمام سیاسی پارٹیوں کے مندوبین کے ساتھ ایک تفصیلی میٹنگ کی تھی۔ سیاسی پارٹیوں کے مندوبین میں بھارتی جنتا پارٹی سے جناب جے پی ایس راٹھور، جناب وائی پی سنگھ، کانگریس پارٹی سے جناب سلمان خورشید اور جناب انوپ پٹیل، سماج وادی پارٹی سے جناب روی پرکاش ورما اور جناب اودے ویر سنگھ، راشٹروادی کانگریس پارٹی سے جناب کے کے شرما، جناب لکشمن پرساد ترپاٹھی اور جناب اوما شنکر یادو، راشٹریہ لوک دل سے جناب سریندر ناتھ ترویدی اور جناب جاوید احمد، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے ڈاکٹر گریش شرما اور جناب اروند رائے سوروپ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) سے جناب پریم ناتھ رائے شامل تھے۔ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے اٹھائے گئے تمام معاملات کو مالیاتی کمیشن نے اپنی سفارشات وضع کرتے وقت شامل کرنے کیلئے نوٹ کیا۔
مالیاتی کمیشن نے ریاست کو اپنی رپورٹ میں تمام اُمور پر نظر رکھنے اور ہر ممکن طریقے سے انہیں حل کرنے کیلئے یقین دلایا۔
U. No. 4701
(Release ID: 1588774)