وزیراعظم کا دفتر

تہترویں یوم آزادی کے موقع پر، لال قلعے کی فصیل سے، 15 اگست 2019 کو، وزیراعظم جناب نریندر مودی کے قوم کے نام خطاب کا متن

Posted On: 15 AUG 2019 2:46PM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو،

یوم آزادی کے اس  مبارک موقع پر سبھی ہم وطنوں کو بہت بہت نیک خواہشات،

آج رکشا بندھن کا بھی تہوار ہے۔صدیوں سے چلی آئی یہ روایت  بھائی بہن کے پیار کا  اظہار کرتی ہے۔ میں تمام ہم وطنوں کو، تمام بھائیوں بہنوں کو اس رکشا بندھن کے مبارک موقع پر بہت بہت نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں۔ شفقت سے بھرا یہ تیوہار ہمارے سبھی بھائیوں بہنوں کی زندگی میں امیدوں ، تمناؤں کو پورا کرنے والا ہو،  خوابوں کو حقیقت میں بدلنے والا ہو اور شفقت کے دریا کو بڑھانے والا ہو۔

آج جب ملک آزادی کا جشن منارہا ہے، اسی وقت ملک کے متعدد حصوں میں زیادہ بارش کی وجہ سے سیلاب کے باعث لوگ مشکلات میں مبتلا ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے عزیزوں کو کھویا ہے۔ میں ان کے تئیں  اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور ریاستی حکومت، مرکزی حکومت، این ڈی آر ایف تمام تنظیمیں، شہریوں کی  تکلیف کم کیسے ہو، حالات معمول پر جلد ہی کیسے واپس آئیں، اس کے لئے دن رات کوشش کررہی ہیں۔

آج ہم  آزادی کے اس مبارک دن کا جشن منارہے ہیں، تب ملک کی آزادی کے لئے جنہوں نے اپنی زندگی قربان کی ہے، جنہوں نے اپنی جوانی دے دی، جنہوں نے جوانی جیلوں میں کاٹ دی، جنہوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا، جنہوں نےستیہ گرہ کے ذریعہ سے آزادی کے بگل میں عدم تشدد  کا انداز بھر دیا۔ لائق صد احترام باپوکی قیادت میں ملک نے آزادی پائی۔

میں آج ملک کی آزادی کے لئے ان تمام قربانی دینے والوں کو ، اپنے سب کو چھوڑنے اور جدو جہد کرنے والوں کو پورے احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔

اسی طرح سے ملک آزاد ہونے کے بعد اتنے برسوں میں، ملک کے امن کے لئے، تحفظ کے لئے، خوشحالی کے لئے معینہ مدت میں لوگوں نے  کام کیا ہے۔میں آج آزاد بھارت کی ترقی کے لئے، امن کے لئے ، خوشحالی کے لئے عوام کی امیدوں ، توقعات کو پورا کرنے کے  لئے جن جن لوگوں نے کام کیا ہے، آج میں ان کو بھی سلام کرتا ہوں۔

نئی حکومت کے قیام کے بعد لال قلعے سے مجھے آج پھر سے ایک بار آپ سب کی تعظیم کرنے کا موقع ملا ہے۔ ابھی اس نئی حکومت کو 10 ہفتے بھی نہیں ہوئے ہیں، لیکن 10 ہفتے کی چھوٹی سی مدت میں تمام علاقوں میں ، تمام سمتوں میں ہر قسم کی کوششوں کو مضبوط کیا گیا ہے، نئی جہات دی گئی ہیں اور عوام نے جن امیدوں ، توقعات، خواہشات کے ساتھ ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیا ہے، اس کو پورا کرنے میں ایک  لمحے کی تاخیر کئے بغیر ہم پوری طاقت کے ساتھ، مکمل جذبے کے ساتھ، آپ کی خدمت میں لگے ہیں۔

دس ہفتوں کے اندر ہی آرٹیکل 370 کا ختم ہونا، 35 اے کا منسوخ ہونا، سردار ولّبھ بھائی پٹیل کے خوابوں کو پورا کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔

دس ہفتوں کے اندر ہماری مسلم ماؤں اور بہنوں کو ان کا حق دلانے کے لیے تین طلاق کے خلاف قانون بنانا، دہشت گردی سے متعلق   قوانین میں بنیادی تبدیلی کر کے اس کو ایک نئی قوت دینے کا، دہشت گردوں کے  خلاف لڑنے کے عزم کو اور مضبوط کرنے کا کام، ہمارے کسان بھائیوں – بہنوں کو پردھان منتری سمان ندھی کے تحت 90 ہزار کروڑ روپئے کسانوں کے کھاتے میں منتقل کرنے کا ایک اہم کام آگے بڑھا ہے۔

ہمارے کسان بھائی- بہن، ہمارے چھوٹے تاجر بھائی بہن، جنہوں نے کبھی تصور بھی نہیں تھا کہ ان  کی زندگی میں بھی کبھی پنشن کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ ساٹھ سال کی عمر کے بعد وہ بھی عزت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ جسم جب زیادہ کام کرنے کے لیے مدد نہ کرتا ہو، اس وقت کوئی سہارا مل جائے، ویسے پنشن منصوبے کو بھی لاگو کرنے کا کام کر دیا ہے۔

پانی کی قلت کے بارے میں ذکر بہت ہوتا ہے، مستقبل میں پانی کی قلت جیسے مسائل سے گزرنا پڑے گا، یہ بھی بحث ہوتی ہے، ان چیزوں کو پہلے سے ہی سوچ کر کے، مرکز اور ریاست مل کر  یہ منصوبہ بنائیں ،اس کے لیے ایک  علیحدہ جل شکتی کی وزارت کی بھی تشکیل کی گئی ہے۔

ہمارے ملک میں بہت بڑی تعداد میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے،  صحت کی سہولت اور بندوبست کی ضرورت ہے۔ اس کو مکمل کرنے کے لیے نئے قوانین کی ضرورت ہے، نئے انتظامات کی ضرورت ہے، نئی سوچ کی ضرورت ہے، ملک کے نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے کے لیے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میڈیکل ایجوکیشن (طبی تعلیم) کو شفاف بنانے کے لیے متعدد  اہم قوانین ہم نے بنائے ہیں، اہم فیصلے کیے ہیں۔

آج پوری دنیامیں بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات سنتے ہیں۔ بھارت بھی ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا ہے۔ ان بچوں کی حفاظت کے لیے ہمیں سخت  قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس کام کو بھی مکمل کر لیا ہے۔

بھائیو- بہنو،     2014  سے 2019، پانچ سال آپ نے مجھے خدمت کرنے کا  موقع دیا۔ مختلف چیزیں ایسی تھیں۔ عام آدمی  اپنی نجی ضرورتوں کے لیے جدوجہد کرتا تھا۔ ہم نے پانچ سال مسلسل کوشش کی کہ ہمارے عوام کی جو روز مرہ کی زندگی کی ضرورتیں ہیں، خاص طور پر گاؤں کی ، غریب کی، کسان کی، اقلیتوں کی، مظلوموں کی،  محروم افراد کی، قبائلیوں کی، ان پر زور دینے کی ہم نے کوشش کی ہے اور گاڑی کو ہم ٹریک پر لائے اور اس سمت میں آج بہت تیزی سے کام چل رہا ہے۔ لیکن وقت بدلتا ہے۔ اگر 2014 سے 2019 ضروریات کو پورا کرنے کا دور تھا، تو 2019 کے  بعد کی  مدت ہم وطنوں کی امیدوں کو پورا کرنے کی مدت ہے، ان کے خوابوں کو حقیقت بنانے   کی مدت ہے اور اس لیے 21ویں صدی کا بھارت کیسا ہو، کتنی تیز ترقی سے چلتا ہو،  کتنی  وسعت سے کام کرتا ہو، کتنی اونچائی  سے سوچتا ہو، ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے   آنے والے پانچ برسوں  کی مدت کار کو آگے بڑھانے کا ایک خاکہ ہم تیار کرکے  ایک کے بعد ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔

سال2014 میں، میں ملک کے لئے نیا تھا۔ 14-2013 میں انتخابات سے قبل، ہندستان  کی سیاحت کرکے  میں اپنے ہم وطنوں   کے جذبات کو سمجھنے  کی کوشش  کررہا تھا،  لیکن ہر کسی کے چہرے پر ایک مایوسی تھی،ایک خدشہ تھا۔ لوگ  سوچتے تھے ،کیا یہ ملک بدل سکتا ہے؟ کیا حکومتیں بدلنے سے  ملک بدل جائے گا؟ ایک  مایوسی  عام آدمی کے دل میں  گھر کر گئی تھی۔ طویل مدت  کے تجربے کا یہ نتیجہ  تھا، امیدیں طویل مد ت تک قائم  نہیں رہ پاتی تھیں، پل دو پل میں امید، ناامیدی کے گڑھے  میں ڈوب جاتی تھی، لیکن  جب 2019میں پانچ سال کی سخت جدوجہد کے بعد  عام آدمی  کے لئے  صرف ایک مکمل جذبے کے ساتھ، دل دماغ  میں صرف اور صرف  میرا  ملک، دل دماغ میں صرف اور صرف میرے  ملک کے  کروڑوں افراد  اس جذبے کو لےکر چلتے رہے۔ پل پل  اسی کے لئے  کھپاتے رہے اور جب 2019 میں گئے، میں حیران تھا۔ملک کے  عوام کا مزاج بدل چکا تھا،  مایوسی ، امید میں تبدیل ہوچکی تھی،  خواب ، عہد  سے جڑ چکے تھے  ، حصولیابی سامنے نظر آرہی تھی اور عام انسان کی ایک ہی آواز تھی  ، ہاں، میرا  ملک بدل سکتا ہے۔ عام آدمی  کی ایک ہی گونج تھی، ہاں، ہم بھی ملک  بدل سکتے ہیں  ، ہم پیچھے نہیں رہ سکتے۔130  کروڑ  شہریوں کے چہرے کے تاثرات،  جذبات  کی یہ گونج  ہمیں نئی  طاقت، نیا اعتماد دیتی ہے۔

 سب کا ساتھ - سب کا وکاس کا  منتر لے کر چلے تھے،  لیکن پانچ سال  کے اندرہی   عوام نے سب کے  بھروسے کے رنگ سے پورے ماحول کو رنگ دیا۔  یہ سب کا بھروسہ ہی پانچ برسوں  میں پیدا ہوا،  جو ہمیں آنے والے دنوں میں   اور زیادہ  طاقت کے ساتھ ملک کے شہریوں کی خدمت کرنے کے لئے   تحریک دیتا رہے گا۔

 اس چناؤ میں ، میں نے دیکھا تھا اور میں نے اس وقت  بھی کہا تھا   - نہ کوئی  سیاسی لیڈر   چناؤ لڑ رہا تھا، نہ کوئی  سیاسی پارٹی چناؤ لڑ رہی تھی، نہ مودی چناؤ لڑ رہا تھا ،  نہ مودی کے ساتھی  چناؤ لڑ رہے تھے ،  ملک کا    عام آدمی   ، عام انسان  چناؤ لڑ رہا تھا۔  130 کروڑ  ملک  کے شہری    چناؤ لڑرہے تھے  ۔ اپنے خوابوں کے لئے لڑ رہے تھے۔   جمہوریت کی حقیقی شکل اس چناؤ میں نظر آرہی تھی۔ 

میرے پیارے ہم وطنو! مسائل کا حل  - اس کے ساتھ ساتھ خوابوں   ، عہد بستگی اور پایہ تکمیل   کو پہنچنے کی مدت- ہمیں اب ساتھ ساتھ  چلنا ہے۔  یہ بات  واضح ہے کہ  مسائل کا جب  حل ہوتا ہے توخودانحصاری  کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔حل  سےخودانحصاری    کی جانب رفتار بڑھتی ہے۔  جب  خود انحصاری  پیدا  ہوتی ہے   تو اپنے آپ  عزت نفس   اجاگر   ہوتی ہے اور عزت نفس کی بہت زیادہ  طاقت ہوتی ہے۔   خودداری کی طاقت   کسی سے بھی زیادہ   ہوتی ہے اور جب   حل ہو ، عہد بستگی ہو،  قوت ہو، عزت نفس  ہو  ، تب کامیابی  کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی ہے اور آج  اس  خوداعتمادی کے ساتھ  کامیابیوں کی نئی بلندیوں کو پار کرنے کے لئے  ، آگے بڑھنے کے لئے ارادے پختہ ہیں ۔ جب ہم مسائل کا حل دیکھتے ہیں ، تو ٹکڑوں میں نہیں سوچنا چاہیئے ۔ تکلیفیں آئیں گی ، ایک ساتھ واہ واہی  کے لئے ہاتھ لگاکر چھوڑ دینا   ، یہ طریقہ  ملک کے خوابوں کو سچ کرنے کے کام نہیں آئے گا ۔ ہمیں مسائل کو جڑوں سے مٹانے کی کوشش کرنی ہو گی ۔  آپ نے دیکھا ہو گا  ، ہماری مسلم بیٹیاں ، ہماری بہنیں ، اُن کے سر پر تین طلاق کی تلوار لٹکتی تھی ، وہ ڈر کے سائے میں زندگی  جیتی تھیں ۔  تین طلاق کی شکار  شاید نہ ہوئی ہوں ، لیکن کبھی بھی تین طلاق کی شکار ہو سکتی ہیں  ، یہ ڈر اُن کو جینے نہیں دیتا تھا  ، اُن کو مجبور کر دیتا تھا ۔ دنیا کے کئی ملک ، اسلامی ملک انہوں نے بھی اس برائی کو  ہم سے بہت پہلے ختم کر دیا ، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے  ہماری اِن مسلم ماؤں – بہنوں کو حق دینے میں ہم ہچکچاتے تھے ۔ اگر اس ملک میں ہم  سَتی پرتھا  کو ختم کر سکتے ہیں ، ہم رحم میں جنین کے قتل کو ختم کرنے کے قانون بنا سکتے ہیں ،  ہم جہیز لین دین کے رواج کے خلاف سخت قدم اٹھا سکتے ہیں ، تو کیوں نہ ہم تین طلاق کے خلاف بھی آواز اٹھائیں اور اس لئے ہندوستان کی جمہوریت   کی روح ( اِسپرٹ ) کو پکڑتے ہوئے ، ہندوستان کے آئین کے جذبے کا ، بابا صاحب امبیڈکر کے جذبے کی عزت کرتے ہوئے ، ہماری مسلم بہنوں کو مساوی حق ملے ، اُن کے اندر بھی ایک نیا  اعتماد پیدا ہو ، ہندوستان کی ترقی کے سفر میں وہ بھی سرگرم حصہ دار بنیں ، اس لئے ہم نے ایک اہم فیصلہ لیا۔ یہ فیصلے سیاست کے ترازو سے تولنے کے فیصلے نہیں ہوتے ہیں  ، صدیوں تک ماؤں – بہنوں کی زندگی  کی حفاظت کی گارنٹی دیتے ہیں ۔ 

اس طرح سے میں ایک دوسری مثال دینا چاہتا ہوں – دفعہ 370 ، 35 اے ۔ کیا وجہ تھی  ؟ اس سرکار کی پہچان ہے – ہم مسائل کو  ٹالتے بھی نہیں ہیں اور نہ ہی ہم مسائل کو پالتے ہیں ۔ اب مسائل کو  ٹالنے کا بھی وقت نہیں ہے ، اب مسائل کو پالنے کا بھی وقت نہیں ہے ۔ جو کام پچھلے 70 سال میں نہیں ہوا  ، نئی حکومت بننے کے بعد 70 دن کے اندر اندر دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کا کام بھارت کے دونوں ایوانوں نے ، راجیہ سبھا اور لوک سبھا نے  ، دو تہائی اکثریت سے پاس کر دیا ۔  اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر کسی کے دِل میں یہ بات تھی ، لیکن شروعات کون کرے ، آگے کون آئے ، شاید اسی کا انتظار تھا اور  ملک کے عوام نے مجھے یہ کام دیا  اور جو کام  آپ نے مجھے دیا ، میں وہی کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ میرا اپنا کچھ نہیں ہے ۔

ہم جموں و کشمیر  کی تشکیل نو کی سمت میں بھی آگے بڑھے ۔  70 سال ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کوشش کی  ، ہر حکومت نے کوئی نہ کوئی کوشش  کی لیکن حسب خواہش نتائج نہیں حاصل ہوئے  اور جب حسب خواہش نتائج نہیں ملتے ہیں تو  ، نئے  سرے سے  سوچنے  ، نئے سرے سے قدم بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے    اور جموں و کشمیر  اور لداخ کے شہریوں کی  امیدیں اور خواہشیں پوری ہوں ،  یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے  ۔ اُن کے خوابوں کو نئے پَنکھ ملیں ،  یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اُن کے لئے 130 کروڑ اہلِ وطن کو  اس ذمہ داری کو    اٹھانا  ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ، جو بھی رکاوٹیں سامنے آئی ہیں ،  اُن کو دور کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے ۔

گذشتہ 70 سال میں اِن نظاموں نے علیحدگی پسند ی کو طاقت بخشی  ، دہشت گردی کو جنم دیا ہے ، کنبہ پروری کو  پالاپوسا  ہے اور ایک  طرح سے بد عنوانی اور بھید بھاؤ کی بنیاد کو مضبوطی دینے کا ہی کام کیا ہے  اور اس لئے وہاں کی خواتین کو  حقوق ملیں ، وہاں کے میرے دلِت بھائی بہنوں کو ، ملک کے دلتوں کو  ، جو حقوق ملتا تھا ، وہ انہیں نہیں ملتا تھا ۔ ہمارے ملک کے قبائلی گروپوں  کو ، ٹرائبلس کو ، جو حقوق ملتے ہیں ،  وہ اُن کو بھی ملنے چاہئیں ۔  وہاں ہمارے کئی ایسے معاشرے اور نظاموں کے لوگ  چاہے وہ گرجر ہوں ، بکروال ہوں  ، گدی  ہوں ، سِپّی ہوں ، بالٹی ہوں   - ایسے متعدد قبائل  ، اُن کو سیاسی حقوق بھی ملنے چاہئیں ۔  انہیں دینے کی سمت میں  ، ہم حیران ہو جائیں گے ، وہاں کے ہمارے صفائی کرمچاری بھائی اور بہنوں پر قانونی روک لگا دی گئی تھی ۔ اُن کے خوابوں کو کچل دیا گیا تھا ۔  آج ہم نے اُن کو یہ آزادی دینے کا کام کیا ہے ۔

ہندوستان تقسیم ہوا ، لاکھوں کروڑوں لوگ بے گھر ہوکر آئے ، اُن کا کوئی گناہ نہیں تھا لیکن  جو جموں و کشمیر میں آکر بسے ،  اُن کو انسانی حقوق بھی نہیں ملے ۔  شہریوں کے حقوق بھی نہیں ملے ۔ جموں و کشمیر کے اندر  میرے پہاڑی بھائی بہن بھی ہیں۔ ان  کی فکر کرنے کی سمت میں بھی  ہم قدم اٹھانا چاہتے ہیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، جموں و کشمیر اور لداخ  ، خوشحالی   اور امن کے لئے  ہندوستان کے لئے ترغیب بن سکتے ہیں۔ ہندوستان کی ترقی کے سفر میں بہت بڑا تعاون دے سکتے ہیں ۔  ان کے اُن پرانے عظیم دنوں کو لوٹانے کی ہم سب  کوشش کریں۔ اُن کوششوں کو  لے کر یہ جو نئے نظام بنے ہیں ، وہ سیدھے سیدھے شہریوں کے مفاد کے لئے کام کرنے میں  آسانی پیدا کریں گے ۔ اب ملک کا ، جموں و کشمیر  کا عام شہری بھی دلّی سرکار کو  پوچھ سکتا ہے  ۔ اس کو بیچ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی ۔ یہ سیدھا سیدھا نظام آج ہم کر پائے ہیں ۔ لیکن جب پورا ملک ، سبھی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی  ، ایک بھی  سیاسی پارٹی   میں اس کے بارے میں  اختلاف نہیں ہے ، دفعہ 370 ، 35 اے کو ہٹانے کے لئے  کوئی آگے بڑھ کر تو کوئی خاموشی سے حمایت دیتا رہا ہے ۔ لیکن سیاسی گلیاروں میں  چناؤ کے ترازو سے تولنے والے کچھ لوگ 370 کے لئے کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں  ، جو لوگ 370 کے حق میں وکالت کرتے ہیں ،  اُن کو ملک پوچھ رہا ہے ، اگر یہ دفعہ 370 ، یہ 35 اے اتنی اہم تھی ، اتنی ضروری تھی ، اسی سے قسمت بدلنےوالی تھی تو 70 سال  تک اتنی بھاری اکثریت ہونے کے باجود آپ لوگوں نے اس کو پرمانینٹ  کیوں نہیں کیا؟   ٹیمپریری کیوں بنائے رکھا ۔  اگر اتنا کنوِکشن تھا  ، تو آگے آتے اور  پرمانینٹ کر دیتے ۔  لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ، آپ بھی جانتے تھے، جو طے ہوا ہے ، وہ صحیح نہیں ہوا ہے لیکن سدھار کرنے کی آپ میں ہمت نہیں تھی، ارادہ نہیں تھا ۔ سیاسی  مستقبل پر  سوالیہ نشان  لگاتے تھے ۔ میرے لئے ملک کا  مستقبل ہی سب کچھ ہے ، سیاسی مستقبل کچھ نہیں ہوتا ہے۔

ہمارے آئین  کے معماروں نے ، سردار ولبھ بھائی پٹیل  جیسی عظیم شخصیتوں نے  ، ملک کی یکجہتی کے لئے ،   دیسی  ریاستوں کو متحد کرنے کے لئے اُس  مشکل وقت میں بھی اہم  فیصلے لئے  ، ہمت کے ساتھ فیصلے لئے ۔  ملک کے اتحاد  کی کامیاب  کوشش کی ۔ لیکن  دفعہ  370 کے سبب  ، 35 اے کی وجہ سے کچھ رکاوٹیں بھی آئی ہیں ۔

آج لال قلعے سے میں جب  ملک کو خطاب کر رہا ہوں ،  میں یہ فخر  کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج ہر ہندوستان کہہ سکتا ہے ۔ وَن نیشن ، وَن کنسٹی ٹیوشن  اور ہم سردار صاحب کا ایک بھارت  - شریشٹھ بھارت ، اسی خواب کو سچ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تب یہ صاف صاف بنتا ہے کہ  ہم ایسے نظاموں کو  فروغ دیں  ، جو ملک کے اتحاد کو  قوت دیں ، ملک کو جوڑنے کے لئے سیمنٹنگ فورس  کے طور پر ابھر کر آئیں اور یہ عمل مسلسل چلنا چاہیئے ۔  وہ ایک وقت کے لئے نہیں ہوتا ہے ، لگاتار ہونا چاہیئے ۔ 

جی ایس ٹی کے ذریعے ہم نے  وَن نیشن ، وَن ٹیکس  ، اس خواب کو حقیقت میں بدلا ہے ۔  اسی طرح سے پچھلے دنوں  توانائی کے میدان میں  وَن نیشن ، وَن گرڈ ، اس کام کو بھی ہم نے کامیابی سے انجام دیا ہے ۔

اسی طرح سے  وَن نیشن ، وَن موبیلیٹی کارڈ – اس نظام کو بھی ہم نے فروغ دیا ہے  اور آج ملک میں وسیع  طور پر  اس کے بارے میں  بحث ہو رہی ہے  ، ‘‘ایک ملک ، ایک ساتھ چناؤ’’۔  یہ بحث ہونی چاہیئے  ، جمہوری طریقے سے ہونی چاہیئے اور کبھی نہ کبھی  ‘‘ایک بھارت   شریشٹھ بھارت ’’ کے خوابوں کو  شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے اور بھی  ایسی نئی چیزوں کو ہمیں جوڑنا ہوگا۔

میرے پیارے ہم وطنو، ملک کو نئی بلندیوں کو پار کرنا ہے   ، ملک کو دنیا  میں اپنا مقام قائم  کرنا ہے ۔  تو ہمیں اپنے گھر میں بھی غریبی سے آزادی کے احساس کو تقویت  دینی ہی ہوگی ۔ یہ کسی کے اوپر  احسان نہیں ہے ۔ بھارت کے روشن مستقبل کے لئے ، ہمیں غریبی سے آزادی حاصل کرنی ہی ہو گی۔   گذشتہ پانچ برسوں میں غریبی کم کرنے کی سمت میں  ، لوگ غریبی سے باہرآئیں ،  اس کے لئے بہت  کامیاب کوشش ہوئی ہے  ۔ پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتار سے اور زیادہ وسیع  طور پر  اس سمت میں  کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ لیکن پھر بھی غریب شخص   ، عزت،   اگر اُسے حاصل ہو جاتی ہے ، اس کی  عزت نفس  جاگ جاتی ہے تو وہ غریبی سے لڑنے کے لئے سرکار کا انتظار نہیں کرے گا ۔  وہ اپنی طاقت سے غربت کو شکست دینے کے لئے آگے آئے گا۔ ہم میں سے کسی کو  بھی زیادہ ناموافق حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت اگر کسی میں ہے، تو میرے غریب بھائیوں بہنوں میں ہے۔ کتنی ہی سردی کیوں نہ ہو، وہ مٹھی بند کر کے گزارا کر سکتا ہے۔ اس کے اندر یہ طاقت ہے۔ آئیے اس طاقت کے ہم پجاری بنیں اور اس لئے اس کی روزمرہ کی زندگی کی مشکلات کو ہم دور کریں۔

کیا وجہ ہے کہ میرے غریب کے پاس ٹوائلٹ نہ ہو، گھر میں بجلی نہ ہو، رہنے کے لئے گھر نہ ہو، پانی کی سہولت نہ ہو،بینک میں کھاتہ نہ ہو، قرض لینے کے لئے ساہوکاروں کے گھر جا کر کے ایک طرح سے سب کچھ رہن رکھنا پڑتا ہو۔ آئیے، غریبوں کی خودداری، خود اعتمادی کو، ان کی عزت نفس کو ہی آگے بڑھانے کے لئے،طاقت دینے کے لئے ہم کوشش کریں۔

بھائیو،بہنو، آزادی کے 70 سال ہو گئے۔ بہت سارے کام سبھی حکومتوں نے اپنے اپنے طریقے سے کئے ہیں۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی کیوں نہ ہو، مرکز کی ہو، ریاست کی ہو، ہر کسی نے اپنے اپنے طریقے سے کوششیں کی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ آج ہندوستان میں قریب قریب آدھے گھر ایسے ہیں، جن گھروں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ ان  کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ماؤں، بہنوں کو سر پر بوجھ اٹھا کرکے، مٹکے لیکر دو دو، تین تین، پانچ پانچ کلو میٹر جانا پڑتا ہے۔ زندگی کا بہت سارا حصہ صرف پانی میں کھپ جاتا ہے اور اس وجہ سے اس حکومت نے ایک خصوصی کام کی طرف زور دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ ہے ، ہمارے ہر گھر میں پانی کس طرح پہنچے؟ ہر گھر کو پانی کس طرح ملے؟ پینے کا صاف پانی کیسے ملے؟ اور اس لئے آج میں لال قلعہ سے اعلان کرتا ہوں کہ ہم آنے والے دنوں میںجل  جیون مشن کو آگے لے کرکے بڑھیں گے۔جل  جیون مشن، اس کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتیں ساتھ مل کر کام کریں گی اور آنے والے برسوں میں ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ رقم اس جل  جیون مشن کے لئے خرچ کرنے کا ہم نے عزم کیا ہے۔ پانی کا ذخیرہ ہو، آبپاشی ہو، بارش کی بوند بوند پانی کو روکنے کا کام ہو، سمندری پانی کو یا  گندے پانی کے ٹریٹمنٹ کا معاملہ ہو، کسانوں کے لیے ہر ایک قطرے میں زیادہ فصل، مائیکرو آبپاشی کا کام ہو،پانی  کو بچانے کی مہم ہو، پانی کے تئیں عام  سے عام شہری بیداربنے، حساس بنے، پانی کی اہمیت سمجھیں، ہمارے تعلیمی کاموں میں بھی بچوں کو بھی بچپن سے ہی پانی کی اہمیت کی تعلیم دی جائے۔ پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے، پانی کے ذرائع کو بحال کرنے کے لئے ہم مسلسل کوشش کریں اور ہم اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں کہ پانی کے شعبے میں گزشتہ 70 برسوں میں جو کام ہواہے، ہمیں 5 سال میں چار گنا سے بھی زیادہ اس کام کو کرنا ہوگا۔ اب ہم زیادہ انتظار نہیں کر سکتے اور اس ملک کے عظیم سنت، سینکڑوں سال پہلے، سنت ترولّوور جی نے اس وقت ایک اہم بات کہی تھی، سینکڑوں سال پہلے، تب تو شاید کسی نے پانی کے بحران کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہو گا، پانی کی اہمیت کے بارے میں بھی نہیں سوچا ہوگا، اور تب سنت تروولّوور جی نے کہا تھا ‘‘نیر انڑی اميادو، الگ:، نیر انڑی اميادو، الگ:’’   یعنی جب پانی ختم ہو جاتا ہے، تو فطرت کا کام تھم جاتا ہے، رک جاتا ہے۔ ایک طرح سے تباہی شروع ہو جاتی ہے۔

میرا جنم گجرات میں ہوا، گجرات میں تیرتھ  کا علاقہ ہے مہوڈی، جو شمالی گجرات میں ہے۔ جین کمیونٹی کے لوگ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ آج سے تقریباً 100 سال پہلے وہاں ایک جین منی ہوئے، وہ کسان کے گھر میں پیدا ہوئے تھے، کسان تھے، کھیت میں کام کرتے تھے لیکن جین روایت کے ساتھ جڑ کر انہیں عرفان حاصل ہوا اوروہ جین-منی بنے۔

 قریب 100 سال پہلے وہ لکھ کر گئے ہیں۔بدھی ساگر مہاراج جی نے لکھا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا، جب پانی کرانے کی دکان میں فروخت ہوگا۔آپ تصور کر سکتے ہیں، 100 سال پہلے ایک سنت لکھ کر گئے کہ پانی کرانے کی دکان  میں فروخت ہوگا اور آج ہم پینے کا پانی  کرانے کی دکان سے خریدتے ہیں۔ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

میرے پیارے ہم وطنو! نہ ہمیں تھکنا ہے، نہ ہمیں تھمنا ہے، نہ ہمیں رکنا ہے اور نہ ہمیں آگے بڑھنے سے ہچكچانا ہے۔ یہ مہم سرکاری نہیں بننی چاہئے۔ پانی کے تحفظ کی یہ مہم، جیسے سووچھتا  کی مہم چلی تھی،بالکل عام آدمی کی مہم بننی چاہئے۔ عام  آمی کے آدرشوں کو لے کر، عام  آدمی  کی توقعات کو لے کر، عام  آدمی کی طاقت کو لے کر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔  

میرے پیارے ہم وطنو، اب ہمارا ملک اس دور میں پہنچا ہے جس میں بہت سی باتوں سے اب ہمیں اپنے آپ کو چھپائے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنوتیوں کو سامنے سے قبول کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ کبھی سیاسی نفع نقصان کے ارادے سے ہم فیصلہ کرتے ہیں، لیکن اس سے ملک کی مستقبل کی نسل  کا بہت نقصان ہوتا ہے۔

ویسا ہی ایک موضوع ہے جس کو میں آج لال قلعہ سے واضح کرنا چاہتا ہوں اور وہ موضوع ہے، ہمارے یہاں  بے پناہ آبادی کا اضافہ ہونا۔  یہ  آبادی یا  ا   ٓبادی  میں بے پناہ اضافہ،  ہمارے لئے، ہماری آنے والی نسل کے لئے متعدد نئی مشکلات  پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ بات تسلیم کرنی  ہوگی کہ ہمارے ملک میں ایک بیدار طبقہ موجودہے، جو اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں بچے کو جنم دینے سے پہلے اچھی طرح  سوچتا ہے کہ میں کہیں اس کے ساتھ نا انصافی تو نہیں کروں گا۔ اس کی جو انسانی ضروریات ہیں ان کی تکمیل میں کر پاؤں گا کہ نہیں کر پاؤں گا، اس کے جو  خواب ہیں، وہ خواب پورا کرنے کے لئے میں اپنا کردار ادا کر پاؤں گا کہ نہیں کر پاؤں گا۔ ان سارے معیارات  سے اپنے کنبے کا حساب کتاب لے کر ہمارے ملک میں آج بھی خود کی ترغیب سے ایک چھوٹا طبقہ کنبہ کو محدود کرکے، اپنے خاندان کا بھی بھلا کرتا ہے اور ملک کا بھلا کرنے میں بھی  بہت بڑا تعاون دیتا  ہے۔ یہ تمام عزت کے لائق ہیں۔ یہ سبھی احترام  کے لائق ہیں۔ چھوٹا خاندان رکھ بھی وہ حب الوطنی کا ہی اظہار کرتے ہیں۔  وہ حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہم سبھی سماج کے لوگ ان کی زندگی کو باریکی سے دیکھیں کہ انھوں نے اپنے کنبے میں آبادی میں اضافہ سے اپنے آپ کو بچا کرکے کنبے کی کتنی خدمت کی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دو نسل نہیں، کنبہ کیسے آگے بڑھتا چلا گیا ہے، بچوں نے کیسی تعلیم پائی ہے، اس کنبہ نے بیماری سے  نجات کیسے حاصل کی ہے، وہ کنبہ اپنی ابتدائی ضرورتوں کو کیسے اچھے طریقے سے پورا کرتا ہے۔ ہم بھی ان سے سیکھیں اور ہمارے گھر میں کسی بھی بچہ کے آنے سے پہلے ہم سوچیں کہ جو بچہ ہمارے گھر میں آئے گا کیا اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے میں نے اپنے آپ کو تیار کرلیا ہے؟ کیا میں اس کو سماج کے بھروسے ہی چھوڑ دوں گا؟ میں اس کو اس کے نصیب پر ہی چھوڑ دوں گا؟ کوئی ماں باپ ایسا نہیں ہوسکتا ہے جو اپنے بچوں کو جنم دے کر اس طرح کی زندگی جینے کے لیے مجبور ہونے دیں اور اس کے لیے ایک سماجی بیداری کی ضرورت ہے۔

جن لوگوں نے یہ بہت بڑا رول ادا کیا ہے، ان کی عزت افزائی کی ضرورت ہے اور انہیں کی کوششوں کی مثال دے کر سماج کے باقی طبقے جو ابھی بھی اس سے باہر ہیں، ان کو جوڑ کر آبادی میں ہونے والے بے پناہ اضافے کی روک تھام  کی ہمیں فکر کرنی ہوگی۔

 حکومتوں کو بھی مختلف منصوبوں کے تحت آگے آنا ہوگا۔ چاہے ریاستی حکومت ہو، مرکزی حکومت ہو ہر کسی کو اس فریضے کو نبھانے کے لیے کندھے سے کندھا ملانا ہوگا۔ ہم غیر صحت مند سماج نہیں سوچ سکتے، ہم غیرتعلیم یافتہ سماج نہیں سوچ سکتے۔ 21ویں صدی کے ہندوستان میں خوابوں کو پورا کرنے کی اہلیت شخص سے شروع ہوتی ہے، کنبے سے شروع ہوتی ہے لیکن اگر آبادی تعلیم یافتہ نہیں ہے، تندرست نہیں ہے تو نہ ہی وہ گھر سکون میں رہتا ہے اور نہ ہی وہ ملک سکون میں رہتا ہے۔

عوام ، آبادی تعلیم یافتہ ہو، طاقتور ہو، ہنرمند ہو اور اپنی خواہش اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مناسب ماحول حاصل کرنے کے لیے وسائل دستیاب ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک ان باتوں کو مکمل کرسکتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بدعنوانی، بھائی ، بھتیجہ واد نے ہمارے ملک کا اتنا نقصان کیا ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے اور دیمک کی طرح ہماری زندگی میں گھس گئی ہے۔ اس کو باہر نکالنے کے لیے ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ کامیابیاں بھی ملی ہیں لیکن بیماری اتنی گہری ہے، بیماری اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ ہمیں اور زیادہ کوشش اور وہ بھی صرف سرکاری سطح پر نہیں، ہر سطح پر کرتے ہی رہنا پڑے گا اور ایسا مسلسل کرتے رہنا ہوگا۔ ایک بار میں سارا کام نہیں ہوتا، بری عادتیں پرانی بیماری جیسی ہوتی ہیں ، کبھی ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن موقع ملتے ہی پھر سے بیماری آجاتی ہے۔ ویسے ہی یہ ایک ایسی بیماری جس کو ہم نے مسلسل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس کو رد کرنے کی سمت میں کئی قدم اٹھائے ہیں۔ ہر سطح پر ایمانداری اور شفافیت کو طاقت ملے، اس کے لیے بھی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا پچھلے پانچ سال میں بھی، اس بار آتے ہی حکومت میں بیٹھے ہوئے اچھے اچھے لوگوں کی چھٹی کردی گئی۔ ہماری اس مہم میں جو رکاوٹ بنتے تھے، ان سے کہا گیا کہ آپ اپنا کاروبار کرلیجئے، اب ملک کو آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔ میں واضح طور پر مانتا ہوں کہ سسٹم میں تبدیلی ہونی چاہئے لیکن ساتھ ہی ساتھ سماجی زندگی میں بھی تبدیلی آنی چاہیے۔ سماجی زندگی میں تبدیلی ہونی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ سسٹم کو چلانے والے لوگوں کے دل ودماغ میں بھی تبدیلی بہت ضروری ہوتی ہے۔ تبھی جاکر ہم خواہش کے مطابق نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو؛ ملک آزادی کے اتنے سال بعد ایک طرح سے میچیور (بالغ) ہوا ہے۔ ہم آزادی کے 75 سال منانے جا رہے ہیں۔ تب یہ آزادی آسان رسم، آسان مزاج، آسان احساسات ، یہ بھی ضروری ہوتی ہے۔ میں اپنے افسروں کے ساتھ بیٹھتا ہوں تو ایک بات کرتا ہوں،  عوامی طور پر تو بولتا نہیں تھا لیکن آج من کر رہا ہے تو بول ہی دوں۔ میں اپنے افسروں کے درمیان بار بار کہتا ہوں کہ کیا آزادی کے اتنے برسوں  کے بعد روزمرہ کی زندگی میں، حکومتوں کا جو دخل ہے عام شہریوں کی زندگی میں، کیا ہم اس دخل کو کم نہیں کر سکتے؟ ختم نہیں کر سکتے ہیں؟ آزاد بھارت کا مطلب میرے لیے یہ ہے کہ آہستہ آہستہ حکومتیں لوگوں کی زندگی سے باہر آئیں، لوگ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے لیے، ملک کے مفاد میں اور کنبے کی بھلائی کے لیے خود کے خوابوں کے لیے آگے بڑھیں، ایسا ایکو سسٹم ہم کو بنانا ہی ہوگا اور اس لیے حکومت کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے لیکن ساتھ – ساتھ جہاں مصیبت کے لمحے ہوں، تو حکومت کی کمی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ نہ حکومت کا دباؤ ہو، نہ حکومت کی کمی ہو، لیکن ہم خوابوں کو لےکر آگے بڑھیں۔ حکومت ہمارے ایک ساتھی کے طور پر ہر لمحہ موجود ہو۔ ضرورت پڑے تو لگنا چاہیے کہ ہاں کو ئی ہے، فکر کی بات نہیں ہے۔ کیا اس طرح کے انتظامات ہم وضع کر سکتے ہیں؟

ہم نے غیر ضروری کئی قوانین کو ختم کیا ہے۔ گزشتہ 5 برسوں میں ایک طرح سےمیں نے ہر دن ایک غیر ضروری قانون ختم کیا تھا۔ ملک کے لوگوں تک شاید یہ بات پہنچی نہیں ہوگی۔ ہر دن ایک قانون ختم کیا تھا، تقریباً 1450 قانون ختم کیے تھے۔ عام انسان کی زندگی سے بوجھ کم ہو۔ ابھی حکومت کو 10 ہفتے ہوئے، ابھی تو ان 10 ہفتوں میں 60 ایسے قوانین کو ختم کر دیا ہے۔

زندگی گذارنے میں آسانی یہ آزاد بھارت کی ضرورت ہے اور ا س لئے ہم آسائش زندگی   پر زور دینا چاہتے ہیں، اسی کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ آج ایز آف ڈو اِنگ بزنس  میں ہم کافی ترقی کر رہے ہیں۔  پہلے 50 میں پہنچنے کا خواب ہے، اس کے لیے کئی اصلاحات  کرنے کی ضرورت ہوگی، کئی چھوٹی موٹی رکاوٹیں ہیں۔ کوئی انسان چھوٹی سی صنعت شروع کرنا چاہتا ہے کو ئی چھوٹا سا کام کرنا چاہتا ہے، تو یہاں فارم بھرو، اُدھر فارم بھرو، اِدھر جاؤ، اُس آفس جاؤ، سینکڑوں آفسوں میں چکّر لگانے جیسی پریشانیوں میں الجھا رہتا ہے، اس کا میل ہی نہیں بیٹھتا ہے۔ ان کو ختم کرتے کرتے،اصلاحات  کرتے کرتے، مرکز اور ریاستوں کو بھی ساتھ لیتے لیتے ، بلدیہ- میونسپل کارپوریشنز کو بھی ساتھ لیتے لیتے، ہم ایز آف ڈو اِنگ بزنس  کے کام میں بہت کچھ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اور دنیا میں بھی یقین پیدا ہوا ہے کہ بھارت جیسا اتنا بڑا ترقی پذیر ملک اتنا بڑا خواب دیکھ سکتا ہے اور اتنی بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ ایز آف ڈو انگ بزنس تو ایک ٹھہراؤ ہے، میری منزل تو ہے ایز آف لیونگ – عام انسان کی زندگی میں اس کو حکومتی کام میں کوئی مشقت نہ کرنی پڑے، اس کے حق ، اس کو آسانی سے ملیں اور اس لیے ہمیں آگے برھنے کی ضرورت ہے، ہم اس سمت میں کام کرنا چاہتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا ملک آگے بڑھے، لیکن انکریمینٹل پروگریس ، اس کے لیے ملک اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ہے، ہمیں ہائی جمپ لگانی پڑے گی۔ ہمیں چھلانگ لگانی پڑے گی، ہمیں اپنی  سوچ کو بھی بدلنا پڑے گا۔ بھارت کو گلوبل بینچ مارک کے برابر لانے کے لیے ہمارے جدید  ترین انفرا اسٹرکچر اس کی جانب  بھی جانا پڑے گا اور کوئی کچھ بھی کہے ،کوئی کچھ بھی لکھے، لیکن عام انسان کا خواب بہترین انتظامات کا ہوتا ہے۔ بہترین چیزیں  اسے اچھی لگتی ہیں، اس کی اس میں دلچسپی بنتی ہے اور اس وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عرصے میں 100 لاکھ کروڑ روپئے جدید بنیادی ڈھانچے کے لئے لگائے جائیں گے، جس سے روزگار بھی ملے گا، زندگی میں بھی نئے نظام تیار ہوں گے جو ضروریات کو پورا بھی کریں گے۔ چاہے ساگرمالا پروجیكٹ ہو، چاہے بھارت مالا پروجیکٹ ہو، چاہے جدید ریلوے اسٹیشن بنانے ہوں یا بس اڈے  بنانے ہوں یا ایئر پورٹ بنانے ہوں،چاہے جدید ہسپتال بنانے ہوں، چاہے  عالمی معیار  کے تعلیمی ادارے قائم کرنے ہوں،بنیادی ڈھانچے کے نقطہ نظر سے بھی ان تمام چیزوں کو ہم آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اب ملک میں سمندری بندرگاہ کی بھی ضرورت ہے۔ عام زندگی کا بھی من  بدلا ہے۔ ہمیں اسے سمجھنا ہوگا۔

پہلے ایک زمانہ تھا کہ اگر کاغذ پر صرف فیصلہ ہو جائے کہ ایک ریلوے اسٹیشن فلاں   علاقے میں بننے والا ہے، تو مہینوں تک، سالوں تک ایک مثبت گونج سنائی دیتی  تھی کہ چلو ہمارے یہاں قریب میں اب نیا ریلوے اسٹیشن آ رہا ہے۔ آج وقت بدل چکا ہے۔ آج عام  شہری ریلوے اسٹیشن ملنے سے مطمئن نہیں ہے، وہ فوری طور پر پوچھتا ہے، وندے بھارت ایکسپریس ہمارے علاقے میں کب آئے گی؟ اس کی سوچ بدل گئی ہے۔اگر ہم ایک  بہتر سے بہتر  بس اڈہ  بنا دیں، فائیو اسٹار ریلوے اسٹیشن بنا دیں تو وہاں کا شہری یہ نہیں کہتا ہے صاحب آج بہت اچھا کام کیا ہے۔ وہ فوراً  کہتا ہے- صاحب ہوائی اڈہ کب آئے گا؟ یعنی اب اس کی سوچ بدل چکی ہے۔کبھی ریلوے کے اسٹاپ سے مطمئن ہونے والا میرے  ملک کا شہری بہتر سے بہتر ریلوے اسٹیشن ملنے کے بعد فوری طور پر کہتا ہے- صاحب باقی تو ٹھیک ہے، ہوائی اڈہ کب آئے گا؟

پہلے کسی بھی شہری کو ملیں تو کہتا تھا- صاحب، پکی سڑک کب آئے گی؟ ہمارے یہاں پکی سڑک کب بنے گی؟ آج کوئی ملتا ہے تو فوراً پوچھتا ہے   – صاحب چار لین  والا روڈ بنے گا یا چھ لین والا؟ صرف پکی سڑک تک وہ محدود رہنا نہیں چاہتا  ہے اور میں سمجھتا  ہوں امیدوں سے بھرپور   بھارت کے لیے یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔

پہلے گاؤں کے باہر بجلی کا کھمبا ایسے ہی نیچے لا کر سلا دیاگیا  ہو تو لوگ کہتے تھے  کہ چلو بھائی بجلی آئی، ابھی تو کھمبا  نیچے پڑا ہوا ہے، نصب   بھی نہیں کیا گیا  ہے۔ آج بجلی کے تار بھی لگ جائیں، گھر میں میٹر بھی لگ جائیں تو وہ پوچھتا ہے- صاحب، 24 گھنٹے بجلی کب آئے گی؟ اب وہ کھمبا، تار اور میٹر سے مطمئن نہیں ہیں۔

پہلے جب موبائل آیا، تو ان کو لگتا تھا  کہ موبائل فون آ گیا۔ وہ اطمینان کی ایک سانس لیتا تھا،  لیکن آج وہ فوراً  بات کرنے لگتا ہے کہ ڈیٹا کی اسپیڈ کیا ہے؟

اس  بدلتے ہوئے مزاج کو، بدلتے ہوئے وقت کو ہمیں سمجھنا ہوگا اور اسی  طرح سے گلوبل  بینچ مارک کے ساتھ  ہمیں اپنے ملک کو جدید  ترین بنیادی ڈھانچے کے ساتھ –آلودگی سے پاک توانائی ہو، گیس پر مبنی  معیشت ہو ، گیس گرڈ ہو ، ای –موبیلیٹی ہو،ایسے متعدد شعبوں میں ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، عام طور پر ہمارے ملک میں حکومتوں کی شناخت یہ بنتی رہی کہ حکومت نے فلاں  علاقے کے لئے کیا کیا،فلاں طبقے کے لئے کیا کیا،فلاں گروپ کے لئے کیا کیا؟ عام طور پر کیا دیا، کتنا دیا، کس کو دیا، کس کو ملا، اسی کے  آس پاس حکومت اور عام لوگ چلتے رہے اور اس کو اچھا بھی مانا گیا۔ شاید اس وقت کی مانگ  رہی ہو گی، ضرورت رہی ہوگی۔ لیکن اب کسی کو کیا ملا ،  کیسے ملا ، کب ملا ، کتنا ملا ۔ اِن سب کے رہتے ہوئے بھی ہم سب مل کر  ملک کو کہاں لے جائیں گے  ،  ہم سب مل کر  ملک کو  کہاں پہنچائیں گے ، ہم سب مل کر ملک کے لئے کیا حاصل کریں گے  ، اِن خوابوں کو لے کر جینا  ، جوجھنا  اور چل پڑنا ، یہ وقت کی مانگ ہے  اور اس لئے  پانچ ٹریلین ڈالر اکنامی  ( پانچ ٹریلین  ڈالر کی معیشت )  کا خواب  دیکھا ہے ۔  130 کروڑ اہل وطن  اگر  چھوٹی چھوٹی چیزوں  کو لے کر  چل پڑے تو پانچ ٹریلین ڈالر   اکنامی۔  کئی لوگوں کو  مشکل لگتا ہے ، وہ غلط نہیں ہو سکتے، لیکن  اگر مشکل کام نہیں کریں گے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا ؟ مشکل چیلنجوں کو نہیں اٹھائیں گے تو  چلنے کا  مزاج کہاں سے بنے گا؟ نفسیاتی نقطۂ نظر سے بھی ہمیں ہمیشہ  بلند نشان  ( ہدف ) رکھنے چاہئیں اور ہم نے رکھا ہے ۔  لیکن وہ ہوا میں نہیں ہے  ۔ آزادی کے 70 سال بعد ہم  دو ٹریلین  ڈالر  کی معیشت  پر پہنچے تھے ، 70 سال کی  ترقی  کے سفر نے  ہمیں دو ٹریلین ڈالر کی اکنامی پر پہنچایا تھا ۔  لیکن 2014 سے 2019 ، پانچ سال کے اندر اندر ہم لوگ دو ٹریلین سے تین ٹریلین تک پہنچ گئے ، ایک ٹریلین ڈالر ہم نے جوڑ دیئے ۔  اگر پانچ سال میں ، 70 سال میں جو ہوا ، اس میں اتنی بڑی جمپ لگائی ہے تو آنے والے پانچ سال میں  ہم پانچ ٹریلین ڈالر کی اکنامی بن سکتے ہیں   ، اور یہ خواب ہر ہندوستانی کا ہونا چاہیئے ۔ جب معیشت بڑھتی ہے تو زندگی بھی  بہتر بنانے کی سہولتیں بنتی ہیں ۔ چھوٹے سے چھوٹے شخص کے خوابوں کو  حقیقت  میں بدلنے کے لئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور یہ مواقع پیدا کرنے کے لئے ملک کے اقتصادی  میدان میں ہمیں اس بات کو آگے لے جانا ہے۔ 

جب ہم خواب دیکھتے ہیں کہ ملک کے کسان کی آمدنی دوگنی ہونی چاہیئے ، جب ہم خواب دیکھتے ہیں کہ آزادی کے 75 سال میں ہندوستان میں کوئی خاندان ، غریب سے غریب بھی اُس کا  پکا گھر ہونا چاہیئے ، جب ہم خواب دیکھتےہیں کہ آزادی کے 75 سال ہوں تب ملک کے ہر کنبے کے پاس  بجلی ہونی چاہیئے ، جب ہم  خواب دیکھتے ہیں کہ آزادی کے 75 سال ہوں ، تب ہندوستان کے ہر گاؤں میں  آپٹیکل فائبر نیٹ ورک  ہو  ،  براڈ بینڈ کی کنکٹی ویٹی ہو ،  لانگ ڈسٹینس  ایجوکیشن کی سہولت ہو ۔ یہ سارے خواب دیکھتے  ہیں  ۔

ہمارا بحری اثاثہ ، نیلی معیشت اس میدان کو ہم  تقویت دیں   ، ہمارے ماہی گیر بھائیوں بہنوں کو  ہم طاقت دیں ، ہمارے کسان اَن داتا ہیں ، اُورجا داتا بنیں۔  ہمارے کسان   ، یہ بھی درآمد کار بنیں ، دنیا کے اندر  ہمارے کسانوں کے ذریعے پیدا کی ہوئی چیزوں کا  ڈنکا  کیوں نہ بجے ، ان خوابوں کو لے کر ہم چلنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے ملک کو درآمد بڑھانی ہو گی ، ہم صرف دنیا ، ہندوستان کو بازار  بناکر دیکھیں ، ہم بھی دنیا کے  بازار میں پہنچنے کے لئے بھرپور کوشش کریں ۔

ہمارے ہر ضلع میں دنیا کے ایک ایک ملک کی ، جو طاقت ہوتی ہے ، چھوٹے چھوٹے ملکوں کی ، وہ طاقت ہمارے ایک ایک ضلعے میں ہوتی ہے ۔ ہمیں اس طاقت کو سمجھنا ہے ، اس طاقت کو ہمیں چینلائز کرنا ہے اور ہمارا  ہر ضلع ایکسپورٹ ہب بننے کی سمت میں کیوں نہ سوچے ؟ ہر ضلع کا اپنا  ہینڈی کرافٹ ہے ، ہر ضلع کے اندر اپنی اپنی خصوصیات ہیں  ۔ اگرکسی ضلع کے پاس عطر کی پہچان ہے  ، تو کسی ضلع کے پاس ساڑیوں کی پہچان ہے ، کسی ضلع کے برتن مشہور ہیں توکسی ضلع میں مٹھائی مشہور ہے ۔ ہر ایک کے پاس گونا گونیت ہے ، طاقت ہے ، ہم نے عالمی بازار کے لئے زیرو ڈیفکٹ زیرو ایفیکٹ سے اس کی مینوفیکچرنگ کس طرح ہو اور اس تنوع سے دنیا کو واقف کراتے ہوئے اگر ہم اس کو برآمد کرنے  پرزور دیں گے، دنیا کی مارکیٹ کو کیپچر کرنے کی سمت میں ہم کام کریں گے، تو ملک کے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ ہماری چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو بہت چھوٹی صنعتوں کو اس وجہ سے ایک بہت بڑی طاقت ملے گی اور ہمیں اس طاقت کو بڑھانا ہے۔

ہمارا ملک سیاحت کے مقام کے لئے دنیا کے لئے عجوبہ ہو سکتا ہے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے جتنی تیزی سے ہمیں وہ کام کرنا چاہئے، وہ ہم نہیں کر پائے ہیں۔ آئیے، ہم سب ہندستانی  طے کریں کہ ہمیں ملک کی سیاحت پر زور دینا ہے۔ جب سیاحت کو فروغ ملتا  ہے، کم سے کم سرمایے کاری میں زیادہ سے زیادہ روزگار ملتا ہے۔ ملک کی معیشت کو تقویت ملتی ہے اور دنیا بھر کے لوگ آج ہندوستان کو نئے سرے سے دیکھنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم سوچیں کہ دنیا ہمارے ملک میں کس طرح آئے، ہماری سیاحت کے شعبے کو کس طرح قوت ملے اور اس کے لئے  سیاحتی مقام کا بندوبست ہو، عام انسان کی آمدنی بڑھانے کی بات ہو، بہتر تعلیم، نئے روزگار کے مواقع حاصل ہوں، درمیانے طبقے کے لوگوں کے بہتر خواب کوعملی جامہ پہنانے کے لئے لئے، اونچی  اڑان کے لئے سارے  لانچنگ پیڈ  ان کے لئے دستیاب ہونے چاہئیں۔ ہمارے سائنسدانوں کے پاس بہتر وسائل کی مکمل سہولت ہو، ہماری فوج کے پاس بہتر انتظام   ہو، وہ بھی ملک میں بنا ہوا ہو، تو میں مانتا ہوں  کہ ایسے متعدد علاقے ہیں جو 5 ٹریلین ڈالر کی  معیشت کے لئے بھارت کو ایک نئی طاقت دے سکتے ہیں۔

میرے پیارے بھائیو-بہنو، آج ملک میں اقتصادی کامیابی حاصل کرنے کے لئے بہت سازگار ماحول ہے۔ جب حکومت مستحکم ہوتی ہے ، پالیسی متوقع ہوتی  ہے، نظام مستحکم ہوتا ہے تو دنیا کا بھی ایک اعتماد بنتا ہے۔ ملک کے عوام نے یہ کام کرکے دکھایا ہے۔ دنیا  بھی ہندوستان کے سیاسی استحکام کو بڑے فخر اور احترام کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ ہمیں اس موقع کو جانے نہیں دینا چاہئے۔ آج دنیا ہمارے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے خواہش مندہے۔ وہ ہمارے ساتھ جڑنا چاہتی ہے۔ آج ہمارے لئے فخر کا موضوع ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرتے ہوئے ہم ترقی کی شرح کو بڑھانے والی ایک اہم مساوات کو لے کر کے چلے ہیں۔ کبھی ترقی کی شرح تو بڑھ جاتی ہے، لیکن مہنگائی کنٹرول میں نہیں رہتی ہے۔ کبھی مہنگائی بڑھ جاتی ہے تو ترقی کی شرح کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ایسی حکومت ہے جس نے مہنگائی کو کنٹرول بھی کیا اور ترقی کی شرح کو آگے بھی بڑھایا۔

ہماری معیشت کے بنیادی معاملات بہت مضبوط ہیں۔ یہ مضبوطی ہمیں آگے لے جانے کے لئے بھروسہ  دیتی ہے۔ اسی طرح سے جی ایس ٹی جیسا نظام تیار کرکے، آئی بی سی  جیسی اصلاح لانا اپنے آپ میں ایک نیا اعتماد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیداوار بڑھے، ہماری قدرتی دولت کی   پروسیسنگ بڑھے، زیادہ فائدہ ہو، زیادہ فائدہ والی  چیزوں کو دنیا کو برآمدکیا جائے  اور دنیا کے کئی ممالک  کو  برآمد ہو۔ ہم کیوں نہ خواب دیکھیں کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہوگا، جہاں کوئی نہ کوئی چیز بھارت سے نہ جاتی ہوں، ہندوستان کا کوئی ضلع ایسا نہیں ہو گا جہاں سے کچھ نہ کچھ برآمد نہ ہوتا ہو۔ اگر ان دونوں چیزوں کو لے کر ہم چلیں، تو ہم آمدنی بھی بڑھا سکتے ہیں۔ ہماری کمپنیاں، ہمارے صنعت کار وہ بھی دنیا کی مارکیٹ میں جانے کے خواب۔ عالمی مارکیٹ میں جاکر بھارت کے رتبے کو وہاں آواز دینے کی طاقت دیں، ہمارے سرمایہ کار زیادہ کمائیں، ہمارے سرمایہ کار زیادہ سرمایہ کاری کریں، ہمارے سرمایہ کار زیادہ روزگار پیدا کریں - اس کو فروغ دینے کے لئے ہم مکمل طور پر آگے آنے کو تیار ہیں۔

ہمارے ملک میں کچھ ایسے غلط عقائد نے گھر کر لیا ہے۔ ان عقائد سے باہر نکلنا پڑے گا۔جو ملک کی دولت کی تشکیل کرتا ہے، جو ملک کی دولت کی تشکیل میں معاون ہیں، وہ سب ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔  ہم دولت  کی تشکیل  کرنے والے کو خدشات بھری نظروں سے نہ دیکھیں۔ ان کے تئیں احساس کمتری   کے انداز سے نہ دیکھیں۔  ضرورت ہے ملک میں دولت پیدا کرنے والوں کی بھی اتنی ہی عزت اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ان  کو فخر ہونا چاہیے اور اگر دولت پیدا نہیں ہوگی تو دولت تقسیم بھی نہیں ہوگی۔ اگر دولت تقسیم نہیں ہوگی تو ملک کے غریب آدمی کی مدد نہیں ہوگی اور اس لئے تو دولت پیدا کرنا، یہ بھی ہمارے جیسے ملک کےلیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس کو بھی ہمیں آگے لے جانا ہے۔ جو لوگ دولت پیدا کرنے میں لگے ہیں، میرے لیے وہ بھی ہمارے ملک کی دولت ہیں۔ ان کی عزت اور ان کا فتخار اس قدم کو نئی قوت بخشے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج امن اور تحفظ،  ترقی کے ضروری پہلو ہیں۔ دنیا آج غیر محفوظ  ہے۔ دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں، کسی نہ کسی شکل میں موت کا خوف طاری ہے۔ دنیا میں امن  اور خوشحالی کے لیے بھارت کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ عالمی  منظر نامے  میں بھارت خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا ہے اور بھارت دہشت پھیلانے والوں کے خلاف مضبوطی کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشت گردی کے واقعات انسانیت کے خلاف شروع کی گئی جنگ ہیں۔ اس لئے یہ کوشش ہے کہ دنیا بھر کی  انسان دوست قوتیں ایک جگہ مجتمع ہوں۔ دہشت گردی کو پناہ دینے والے، دہشت گرد کی حوصلہ افزائی کرنے والے، دہشت گرد کو برآمد کرنے والے، ایسی ساری قوتوں کو دنیا کے سامنے ان کی صحیح شکل میں پیش کرتے ہوئے دنیا کی طاقت کو جوڑ کر دہشت گرد کو ختم کرنے کی کوششوں میں بھارت اپنا رول ادا کرے، ہم یہی چاہتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے صرف بھارت کو ہی نہیں ہمارے پڑوس کے ممالک کو بھی دہشت گردی سے تباہ کر کے رکھا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش بھی دہشت گردی سے دو چار ہے، افغانستان بھی دہشت گردی سے لڑ رہا ہے ۔ سری لنکا کے اندر چرچ میں بیٹھے ہوئے بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کتنی بڑی درد ناک باتیں ہیں اور اس لیے دہشت گردی کے خلاف جب ہم لڑائی لڑتے ہیں تب ہم اس پوری دنیا کے امن اور تحفظ کے لیے بھی ہمارا رول ادا کرنے کے لیے فعال کام کر رہے ہیں۔

ہمارا پڑوسی، ہمارا ایک اچھا دوست افغانستان چار دن کے بعد اپنی آزادی کا جشن منائے گا اور یہ ان کی آزادی کا 100واں سال ہے۔ میں آج لال قلعے سے افغانستان کے اپنے  دوست کو ، جو چار دن کے بعد 100ویں  یوم آزادی کا تیوہار منانے جا رہے ہیں، بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

دہشت گردی اور تشدد کا ماحول بنانے والوں کو، ان کو پھیلانے والوں کو نیست و نابود کرنے میں  حکومت کی پالیسی، حکومت کے عمل اور اس میں ہماری نیت  صاف ہے۔ ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ ہمارے فوجیوں نے، ہمارے سلامتی  دستوں نے، حفاظتی ایجنسیوں نے نہایت قابل ستائش کام کیا ہے۔ مشکل وقت میں بھی ملک میں امن کے لیے یونیفارم میں کھڑے ہوئے سب لوگوں نے آج اپنی زندگی کی قربانی دے کر ہمارے مستقبل کو  روشن کرنے کے لیے زندگی کو وقف کیا ہے۔ میں ان سب کو سلام کرتا ہوں۔ میں ان کو نمسکار کرتا ہوں۔ لیکن وقت رہتے اصلاحات کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے ملک میں فوجی انتظامات،  فوجی قوت، فوجی وسائل – ان کی اصلاحات پر طویل عرصے سے بحث چل رہی ہے۔  مختلف حکومتوں نے اس  پر گفتگو  کی ہے۔ مختلف کمیشن تشکیل دیئے گئے  ہیں، متعدد رپورٹیں آئی ہیں اور ساری رپورٹیں تقریباً ایک ہی آواز کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ انیس – بیس کا فرق ہے ،  زیادہ فرق نہیں ہے ، لیکن ان باتوں کو  لگاتار کہا گیا ہے ۔  ہماری تینوں افواج – بری ، بحری ، فضائی ، ان کے درمیان  کوآرڈینیشن (تال میل) تو ہے  ، ہم فخر کرسکیں ، ایسا ہمارا  فوجی نظام ہے ۔  کسی بھی ہندوستانی کو فخر ہو ، ایسا ہو ۔  وہ اپنے اپنے طریقے سے  جدیدیت کے لئے بھی  کوشش کرتے ہیں ۔  لیکن آج جیسے دنیا بدل رہی ہے،  آج جنگ کے دائرے بدل رہے ہیں ،  روپ رنگ بدل رہے ہیں ،  آج جس طرح سے ٹیکنا لوجی پر مبنی نظام بن رہے ہیں ، تب ہندوستان کو بھی ٹکڑوں  میں  سوچنے سے نہیں چلے گا ۔ ہماری پوری  فوجی طاقت کو یکمشت ہوکر ساتھ آگے بڑھنے کی سمت میں کام کرنا ہو گا ۔ بر و  بحر اور فضامیں سے ایک آگے رہے ، دوسرا دو قدم پیچھے رہے ، تیسرا تین قدم پیچھے رہے تو نہیں چل سکتا ۔ تینوں ایک ساتھ ایک ہی اونچائی پر آگے بڑھیں ۔ اشتراک اچھا ہو ، عام انسان کی امیدوں  اور توقعات  کے مطابق ہو ،  دنیا میں بدلتے ہوئے   جنگ  اور تحفظ کے ماحول کے مطابق ہو ، ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے  آج میں لال قلعہ سے ایک اہم  فیصلہ  لینے کا اعلان کرنا چاہتا ہوں ۔  اس موضوع  کے  ، جو جانکارہیں ، وہ بہت لمبے عرصے سے اس کی مانگ کرتے رہے ہیں ۔

آج ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم چیف آف ڈیفنس   - سی ڈی ایس کا نظام  لائیں گے اور اس عہدے کی تشکیل کے بعد  تینوں افواج کو  سربراہی کی سطح پر  موثر قیادت ملے گی ۔  ہندوستان کی  جنگی دنیا کی رفتار میں یہ سی ڈی ایس ایک بہت اہم اصلاح کرنے کا ، جو ہمارا خواب ہے ، اس کے لئے زور دینے والا کام ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم ایک ایسے  دور میں  پیدا ہوئے ہیں ، ہم ایک ایسے  دور میں جی رہے ہیں  ، ہم ایک ایسے دور میں ہیں ، جب ہم کچھ نہ کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ کبھی کبھی دل میں ہمیشہ رہتا ہے کہ جب آزادی کی جنگ چل رہی تھی   ، بھگت سنگھ ، سُکھ دیو ، راج گرو جیسی عظیم شخصیتیں  اپنی قربانی  دینے کے لئے مقابلہ کر رہی تھیں۔  مہاتما گاندھی کی قیادت میں آزادی کے دیوانے گھر گھر ، گلی گلی جاکر  آزادی کے  خوابوں کو  سچ کرنے کے لئے ملک کو جگا رہے تھے۔ ہم اس وقت نہیں تھے  ، ہم پیدا نہیں ہوئے تھے ، ملک کے لئے ہمیں مرنے کا موقع نہیں ملا لیکن ملک کے  لئے جینے کا موقع ضرور ملا ہے  اور یہ خوش قسمتی  یہ ہے کہ  یہ دور ایسا ہے ، یہ سال ہمارے لئے  بہت اہم ہے ۔ لائق احترام باپو   مہاتما گاندھی ، اُن کے 150 ویں یوم پیدائش  کا یہ  تیوہار ہے ۔   ایسے موقعے ہمیں  اپنے دور میں ملے ، یہ اپنے آپ میں ہماری خوش قسمتی ہے  اور دوسرا ہماری آزادی کے 75 سال ، ملک کی آزادی کے لئے  مر مٹنے والوں  کی یاد  ہمیں کچھ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔  اس موقع کو ہمیں  کھونے نہیں دینا ہے۔  130 کروڑ اہل وطن کے  دلوں میں مہاتما گاندھی کے خوابوں کے مطابق ،  ملک کی آزادی کے دیوانوں کے خوابوں کے مطابق  آزادی کے 75 سال اور گاندھی کے  150 سال ، اس تیویار کو ہماری ترغیب کا عظیم موقع بناکر  ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔

میں نے اسی لال قلعہ سے  2014 ء میں سووچھتا کے لئے  بات کہی تھی ۔ 2019 میں کچھ ہفتوں کے بعد  ، مجھے یقین ہے، ہندوستان اپنے آپ کو کھلے میں  رفع حاجت سے مبرا ملک   کا اعلان کر پائے گا ۔  ریاستوں نے ، دیہاتوں نے  ، میونسپلٹیوں  نے ،  سب نے ، میڈیا نے ، عوامی مہم  کھڑی کی  ۔ سرکار کہیں نظر نہیں آئی ۔  لوگوں نے اٹھا لیا  اور  نتائج سامنے ہیں ۔ 

میرے پیارے ہم وطنو، میں ایک چھوٹی سی امید  آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ اس 2 اکتوبر کو ہم بھارت کو  سنگلز یوز پلاسٹک  ، کی اس سے ملک کو  آزادی دلا سکتےہیں! ہم نکل پڑے ہیں ، ٹولیاں بناکر کے ، نکل پڑیں ، اسکول ، کالج ، ہم سب  لائق احترام باپو کو یاد کرتے ہوئے اور گھر گھر میں پلاسٹک ہو – سنگل یوز پلاسٹک یا باہر چوراہے پر پڑا ہو ، گندی نالی میں پڑا ہو ، وہ سب اکٹھا کریں ،  میونسپلٹیاں  ،  میونسپل کارپوریشن ، گرام پنچایتیں ، سب اس کو جمع کرنے کا  انتظام کریں ۔ ہم پلاسٹک کو ودائی دینے کی سمت میں 2 اکتوبر کو پہلا مضبوط قدم اٹھا سکتے ہیں کیا ؟ 

آیئے میرے ہم وطنو، ہم اس کو آگے بڑھائیں  اور پھر میں اسٹارٹ اَپ والوں  ، ٹیکنیشئن کو  ، صنعت کاروں سے  اپیل کرتا ہوں کہ ہم  ان پلاسٹک کے ری سائیکل کے لئے کیا کریں ؟ جیسے  ہائی ویز بنانے کے لئے پلاسٹک کا استعمال  ہو رہا ہے ، ایسے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جس کی وجہ سے  متعدد  مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، اس سے آزادی کے لئے ہمیں ہی مہم چھیڑنی ہو گی ۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمیں متبادل نظام بھی دینےپڑیں گے ۔ میں تو سبھی دکانداروں سے اپیل کروں گا ، اپنی دکان پر  ہمیشہ  بورڈ لگاتے ہیں ، ایک بورڈ یہ بھی لگا دیجئے ، مہربانی کرکے ہم سے پلاسٹک کی تھیلی کی امید نہ کریں ۔  آپ اپنے گھر سے کپڑے کا تھیلا لے کر آیئے   یا تو  ہم کپڑے کا تھیلا بھی بیچیں گے، لے جائیے ۔ ہم ایک ماحول بنائیں  ۔  دیوالی پر   جہاں ہم لوگوں کو طرح طرح کے تحفے دیتے ہیں ، کیوں نہ اس بار اور ہر بار  کپڑے کے تھیلے  لوگوں کو گفٹ کریں تاکہ کوئی کپڑے کا تھیلا لے کر مارکیٹ جائے گا تو آپ کی کمپنی کا ایڈورٹائزمنٹ بھی ہو گا ۔  آپ صرف ڈائری دیتے ہیں تو شاید کچھ نہیں ہوتا ہے  ، کلینڈر دیتے ہیں تو کچھ نہیں ہوتا ہے  ، تھیلہ دیں گے ،  تو  جہاں جائے گا تو تھیلا  آپ کا ایڈورٹائز بھی کرتا رہے گا ۔ جوٹ کے تھیلے ہوں ،  میرے کسانوں کو  مدد کرے گا ، کپڑے کے تھیلے ہوں ، میرے کسانوں کو مدد ملے گی ۔ چھوٹے چھوٹے کام ہیں ۔ غریب  ،بیوہ ، ماں ، جو سلائی کرتی ہو گی ، اس کی مدد کرے گا یعنی ہمارا چھوٹا سا فیصلہ بھی عام انسان کی زندگی میں  کس طرح سے بدلاؤ لا سکتا ہے  ، ہم اس سمت میں کام کریں ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، 5 ٹریلین ڈالر اکنامی کا خواب ہو ،  خود کفیل  بھارت کا خواب ہو ، مہاتما گاندھی کے اصولوں کو جینا آج بھی  موجود ہے ۔ مہاتما گاندھی کے نظریات آج بھی قابلِ احترام ہیں اور اس لئے میک اِن انڈیا کا ، جو مشن ہم نے لیا ہے ، اسے ہم نے آگے بڑھانا ہے ۔ میڈان  انڈیا پروڈکٹ ، ہماری ترجیح کیوں نہ ہونے چاہئیں ؟  ہم طے کریں ، اپنی زندگی میں  ، اپنے ملک میں ، جو بنتا ہے ، ملتا ہے ، وہ میری ترجیح ہو گی اور ہمیں تو   ، لَکی کَل  کے لئے لوکل پروڈکٹس  پر زور دینا ہے ۔ لَکی کَل  کے لئے لوکل ، سہانے کل کے لئے  لوکل ، روشن کل کے لئے لوکل ، جو گاؤں میں بنتا ہے ، پہلے اس کے لئے ترجیح دینی چاہیئے ۔  وہاں نہیں تو تحصیل میں ، تحصیل سے باہر جانا پڑے تو ، ضلع میں ،  ضلع کے باہر جانا پڑے تو ریاست میں ، ریاست میں اور  میں نہیں مانتا ہوں کہ  اس کے بعد اپنی ضرورتوں کے لئے کہیں جانا پڑے گا ۔ اتنی بڑی طاقت ملے گی ؟ ہماری دیہی معیشت کو کتنی بڑی تقویت ملے گی ؟ چھوٹے صنعت سازوں کو کتنی طاقت ملے گی ؟ ہماری روایتی چیزوں کو کتنی تقویت ملے گی ؟ بھائیو بہنو ، ہمیں موبائل فون اچھے لگتے ہیں ، ہمیں واٹس ایپ بھیجنا اچھا لگتا ہے ، ہمیں فیس بک ، ٹوئیٹر پر رہنا  اچھا لگتا ہے ، لیکن ملک کی معیشت میں بھی  اس کے سبب ہم مدد کر سکتے ہیں ۔ جانکاریوں کے لئے ٹیکنا لوجی کا جتنا استعمال ہے ،  جدید ہندوستان کی تعمیر کے لئے بھی  ٹیکنا لوجی کا اتنا ہی استعمال ہے  اور ہم عام شہری  ، ڈجیٹل پیمنٹ کے لئے  کیوں نہ چلیں  ؟ آج ہمیں فخر ہے کہ ہمارا روپے کارڈ سنگاپور میں چل رہا ہے ۔ ہمارا روپے کارڈ آنے والے دنوں میں اور ملکوں میں بھی چلنے والا ہے ۔  ہمارا ایک ڈجیٹل پلیٹ فارم   بڑی مضبوطی کے ساتھ  ابھر رہا ہے  لیکن  ہمارے گاؤں میں ، چھوٹی چھوٹی دکانوں میں بھی ، ہمارے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مال میں بھی ہم کیوں نہ ڈجیٹل پیمنٹ  پر زور دیں ؟

آیئے ، ایمانداری کے لئے ، ٹرانسپرینسی کے لئے  اور ملک کی اکنامی کو  طاقت دینے کے لئے ہم ڈجیٹل پیمنٹ کو اپنائیں اور میں تو  تاجروں کو کہوں گا  ، آپ بورڈ لگاتےہیں ، زیادہ تر گاؤوں میں جاؤگے ، کاروباریوں کے بورڈ ہوتے ہیں – آج نقد کل ادھار۔ اب تو ہمیں بورڈ لگانا چاہیئے ، ڈجیٹل پیمنٹ کو ہاں ، نقد کو نہ ، یہ ایک ماحول بنانا چاہیئے ۔ میں بینکنگ کے میدان سے درخواست کرتا ہوں ، میں کاروباری جگت کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آیئے ہم  ان چیزوں پر زور دیں ۔ 

ہمارے ملک میں مڈل کلاس ، ہائر مڈل کلاس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ، اچھی بات ہے ۔ سال میں ایک دو بار اپنے کنبے کے ساتھ ، بچوں کے ساتھ دنیا کے الگ الگ  ملکوں میں سیاح کے طور پر بھی جاتے ہیں ۔  بچوں کو ایکسپوزر ملتا ہے۔ اچھی بات ہے، لیکن میں آج ایسے تمام خاندانوں سے درخواست کرتا ہوں، ملک کے لئے جب ملک آزادی کا  75  واں سال منا رہا ہے، ملک کے لئے اتنے عظیم لوگوں نے قربانیاں دی ہیں تب، زندگی کھپا دی ہے تو کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد بھی ہمارے ملک کی باریکیوں کو سمجھے،   کون ماں باپ نہیں چاہیں گے کہ ہماری ، آپ کی  آنے والی نسل جذباتی طور پر اس مٹی سے جڑے، اس کی تاریخ سے جڑے، اس  کی ہواؤں سے، اس کے پانی سے نئی توانائی حاصل کرے، یہ ہمیں کوشش سے کرنا چاہئے، ہم کتنے ہی آگے بڑھیں لیکن جڑوں سے کٹنا ہمیں کبھی بھی بچا نہیں سکتا ہے، بڑھا  نہیں سکتا ہے، اور اس وجہ سے جو دنیا میں سیاح  کے طور پر بھلے جاتے ہوں، کیا میں آپ سے ایک چیز مانگ سکتا ہوں، لال قلعہ سے ملک کے نوجوانوں کے روزگار کے لئے، دنیا میں بھارت کی شناخت بنانے کے لئے، بھارت کی قوت اجاگر کرنے کے لئے۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج میں آپ سے ایک چھوٹا سا مطالبہ کر رہا ہوں ،کیا آپ  یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ 2022،آزادی کے 75  ویں سال کے پہلے ہم اپنے خاندان کے ساتھ بھارت کے کم از کم 15 سیاحتی مقامات  پر جائیں گے، وہاں مشکلات ہوں گی تو بھی جائیں گے، وہاں اچھےہوٹل نہیں ہوں گے تو بھی جائیں گے، کبھی کبھی مشکلات بھی  زندگی جینے کے لئے کام آتی ہیں، ہم بچوں میں عادت ڈالیں یہی ہمارا ملک ہے، ایک بار جانا شروع کر دیں گے تو وہاں انتظامات کرنے والے لوگ بھی آنے لگ جائیں گے، کیوں نہ ہمارے ملک میں 100 ایسے بڑھیا سیاحتی مقامات تیار  کئے جائیں، کیوں نہ ہر ریاست میں 2 یا 5 یا 7 ٹاپ کلاس  سیاحتی   مقامات تیار کریں۔ نشانہ بنا کرتیار کریں، ہم فیصلہ کریں- ہمارے شمال مشرق ، میں اتنی قدرتی دولت ہے لیکن کتنی يونیورسٹیاں ہوں گی جو اپنےشمال مشرق کو اپنا سیاحتی مقام بناتی ہیں؟ زیادہ تعاون  نہیں کرنا پڑتا ہے، آپ کو 7 دن، 10 دن نکالنے ہیں لیکن ملک کے اندر ہی نكالیں۔

آپ دیکھئے آپ جہاں جاکر آئیں گے، وہاں نئی دنیا کھڑی کرکے آئیں گے، بیج بو  کرکے آ جائیں گے اور زندگی میں آپ کو بھی اطمینان ملے گا۔ ہندوستان کے لوگ جانا شروع کریں تو دنیا کے لوگ بھی آنا شروع کریں گے۔ ہم دنیا میں جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ نے وہ دیکھا ہے؟ کوئی سیاح ہم سے پوچھے گا کہ آپ ہندوستان سے آ رہے ہیں، آپ نے تمل ناڈو کا وہ مندر دیکھا ہے؟ اور ہم کہیں گے کہ میں نہیں گیا تو وہ ہمیں کہے گا کہ بھائی کمال ہے میں تو تمہارے ملک میں تمل ناڈو کے مندر دیکھنے چلا گیا تھا اور تم یہاں دیکھنے آئے ہو، ہم دنیا میں جائیں اپنے ملک کو جاننے کے بعد جائیں، ہم اتنا کام کر سکتے ہیں۔

میں، اپنے کسان بھائیوں سے آج درخواست کرنا چاہتا ہوں، آپ سے میں کچھ مانگنا چاہتا ہوں، میرے کسان کے لئے، میرے ہم وطنوں کے لئے، یہ زمین ہماری ماں ہے۔ بھارت ماتا کی جے بولتے ہی ہمارے اندر توانائی  کی رو دوڑ جاتی ہے۔  وندے ماترم بولتے ہی اس دھرتی ماں کے لئے کھپ جانے کی تحریک  ملتی ہے۔ ایک طویل مدتی تاریخ ہمارے سامنے آتی ہے لیکن کیا کبھی ہم نے اس دھرتی ماں کی صحت کی فکر ہے، ہم جس قسم سے کیمیکل استعمال کر رہے ہیں کیمیکل فرٹیلائزر استعمال کر رہے ہیں۔جراثیم کش ادویات استعمال کر رہے ہیں، ہم اپنی  اس دھرتی ماں کو تباہ کر رہے ہیں،   اس ماں کی اولاد کے طور پر، ایک کسان کے طور پر مجھے اپنی دھرتی ماں کو تباہ کرنے کا حق نہیں ہے، میری دھرتی ماں کو غمزدہ کرنے کا حق نہیں ہے، میری دھرتی ماں کو بیمار  بنا دینے کا حق نہیں ہے۔

آیئے، آزادی کے 75 سال ہونے جارہے ہیں۔ لائق احترام باپو نے ہمیں راستہ دکھایا ہے کہ ہم دس فیصد، بیس فیصد، پچیس فیصد اپنے کھیت میں یہ کیمیکل فرٹیلائزر کو کم کریں گے۔ ہوسکے تو اس کے استعمال سے آزادی کی مہم چلائیں گے۔ آپ دیکھئے ملک کی کتنی بڑی خدمت ہوگی۔ ہماری دھرتی ماں  کو بچانے میں، آپ کا کتنا بڑا تعاون ہوگا۔ وندے ماترم کہہ کر جو پھانسی کے تخت پر چڑھ گیا تھا اس کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ، یہ دھرتی ماں کو بچانے کا آپ کا کام، اس کا بھی آشیرواد حاصل ہوگا جو کبھی پھانسی کے تخت پر چڑھ کرکے وندے ماترم کہا کرتا تھا۔ اس لیے میں آپ سے اپیل کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرے ملک کے باشندے یہ کرکے رہیں گے۔ میرے کسان، میری اس مانگ کو پورا کریں گے یہ مجھے پورا یقین ہے۔

میرے پیارے بھائیو بہنو، ہمارے ملک کے پیشہ ور افراد ان کی آج پوری دنیا میں گونج ہے۔ ان کی اہلیت  کا چرچا ہے، لوگ ان کا لوہا مانتے ہیں۔ اسپیس ہو، ٹیکنالوجی ہو، ہم نے نئے مقام حاصل کئے ہیں۔ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہمارا چندریان تیزی سے چاند کے اس کنارے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے جہاں اب تک کوئی نہیں گیا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں کی کامیابی ہے۔

اسی طرح کھیل کے میدانوں میں ہم بہت کمزور نظر آتے تھے۔ آج دنیا کے کھیل کے میدانوں میں میرے ملک کے اٹھارہ، بیس سال ، بائیس سال کے بیٹے بیٹیاں، ہندوستان کا ترنگا لہرا رہے ہیں۔ کتنا فخر ہوتا ہے، کھلاڑی ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔

میرے ہم وطنو؛ ہمیں اپنے  ملک کو آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں ملک میں تبدیلی لانی ہے۔ ہمیں ملک میں نئی اونچائیوں کو عبور کرنا ہے اور مل جل کر کرنا ہے۔ حکومت اور عوام کو مل جل کر کرنا ہے۔ 130 کروڑ ملک کے باشندوں کو کرنا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم بھی آپ کی طرح اس ملک کا ایک بچہ ہے، اس ملک کا ایک شہری ہے۔ ہم سب کو مل کر کرنا ہے۔

چاہے آنے والے دنوں میں گاؤں میں ڈیڑھ لاکھ ویل نیس سینٹر بنانے ہوں گے، ہیلتھ سینٹر بنانے ہوں گے، ہر تین لوک سبھا کے بیچ ایک میڈیکل کالج، ہمارے نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرانا ہے۔ دو کروڑ سے زیادہ غریب لوگوں کے لیے گھر بنانے ہیں۔ ہمیں 15 کروڑ دیہی گھروں میں پینے کا پانی پہنچانا ہے۔ سوالاکھ کلو میٹر گاؤں کی سڑکیں بنانی ہیں۔ ہر گاؤں کو براڈ بینڈ کنیکٹیویٹی، آپٹیکل فائیبر نیٹ ورک سے جوڑنا ہے۔ پچاس ہزار سے زیادہ نئے اسٹارٹ اَپ کا جال بچھانا ہے۔ متعدد خوابوں کو لے کرکے آگے بڑھنا ہے۔ اس لئے بھائیو اور بہنو، ہمیں مل کرکے، خوابوں کو لے کرکے، ملک کو آگے بڑھانے کے لیے چلنا ہے اور آزادی کے 75 سال اس کے لیے بہت بڑی ترغیب ہے۔

میں جانتا ہوں کہ لال قلعے کی فصیل پر وقت کی بھی ایک حد ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنو ں کے خواب بھی ہیں۔ 130 کروڑ ملک کے باشندوں کے اپنے چیلنجز بھی ہیں۔ ہر خواب کی، ہر چیلنج کی اپنی اہمیت بھی ہے، کوئی زیادہ اہم ہے، کوئی کم اہم ہے ایسا نہیں ہے۔ لیکن بارش کا موسم ہے، تفصیل سے بولتے بولتے خطاب پورے ہونے کا امکان نہیں ہےاور اس لیے ہر ایشو کی اپنی اہمیت ہونے کے باوجود جتنی باتیں آج کہہ پایا ہوں اور جو نہیں کہہ پایا ہوں وہ بھی اہم ہیں۔ ان باتوں کو لے کر ہم آگے بڑھیں، ملک کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔

آزادی کے 75 سال، گاندھی کے 150 سال اور ہندوستان کی آئین کے 70 سال ہوگئے ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے خواب اور یہ سال اہم ترین ہے، گورونانک دیو جی کا 550واں تیوہار بھی ہے۔ آیئے، بابا صاحب امبیڈکر، گورونانک دیو جی کی تعلیم کو لے کر ہم آگے بڑھیں اور ایک عمدہ معاشرے کی تعمیر، عمدہ ملک کی تعمیر، دنیا کی امیدوں کے مطابق ہندوستان کی تعمیر ہمیں کرنی ہے۔

میرے پیارے بھائیو بہنو، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہدف ہمالیہ جتنے ہی اونچے ہیں۔ ہمارے خواب لاتعداد تاروں سے بھی زیادہ ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے حوصلوں کی اڑان کے آگے آسمان کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ عزم ہے، ہماری طاقت بحر ہند جتنی اَتھاہ ہے۔ ہماری کوششیں گنگا کی  دھارا جتنی تیز ہیں اور سب سے بڑی بات ہماری اقدار کے پیچھے ہزاروں سال کی پرانی ثقافت، رشیوں کی منیوں کی تپسیا، ہم وطنوں کی قربانی، سخت جدوجہد یہ ہماری ترغیب ہے۔

آیئے، ہم انھیں خیالات کے ساتھ، انھیں اصولوں کے ساتھ، انھیں عزائم کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کے ہدف کو لے کر کے ہم چل پڑیں۔ نیا ہندوستان تعمیر کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے، نئی خوداعتمادی، نیا عزم، نیا ہندوستان بنانے کی جڑی بوٹی ہے۔ آیئے ہم مل کرکے ملک کو آگے بڑھائیں۔ میں ایک بار پھر ملک کے لیے جینے والے، ملک کے لیے جوجھنے والے، ملک کے لیے مرنے والے، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے والے  ہر کسی کو سلام کرتے ہوئے میرے ساتھ بولئے-

جے ہند!

جے ہند!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

وندے ماترم!

وندے ماترم!

بہت بہت شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  م ن۔ا گ۔ ش ت۔ م ع۔ن ا۔ن ا۔ ق ر۔ ج۔م ت ح۔ ر ض۔ ع ا۔

 

 



(Release ID: 1582086) Visitor Counter : 3325


Read this release in: English